• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ابتدا ہی میں وضاحت کردوں کہ ٹھیک ایک برس کے انتظار کے بعد اس موضوع پر دوبارہ قلم اٹھا رہا ہوں۔ یکم نومبر2014 کو جنگ میں چھپنے والا کالم اس کاگواہ ہے۔ راقم نے اس موضوع پر لکھا ہی نہیں تھا، پنجاب کے محکمہ مذہبی امور اور اوقاف کے ایک ذمہ دار اہلکار سے فون پر گزارش بھی کی تھی کہ معاملہ وزیراعلیٰ پنجاب کی خصوصی توجہ کا مستحق ہے لہٰذا ان کے نوٹس میں ضرور لایاجائے ۔ مگر یقیناً ایسا نہیں ہو پایا ۔ افسر شاہی کے کارپردازوں نے اس انتہائی نازک معاملے کو بھی روٹین کی چیز سمجھا اور میاں شہباز شریف کو اس سے آگاہ نہیں کیا ورنہ مسئلہ کب کا حل ہوچکا ہوتا اور یاد دہانی کی نوبت نہ آتی۔ قارئین بھی سوچ رہے ہوںگے کہ کیا پہیلیاں بھجوارہا ہوں اور کام کی بات پر نہیں آتا تو ذرا دل تھام کر سنیئے ، کیونکہ اس کے بعد آپکی کیفیت بھی یقیناً میری جیسی ہوجائیگی ، آپ بھی جذباتی ہوجائیں گے اور سرشرم سے جھک جائے گا۔ معاملہ یہ ہے کہ حکومت پنجاب کا محکمہ مذہبی امورواوقاف ہربرس سیرت طیبہﷺ پر لکھی جانے والی کتب اور مجموعہ ہائے نعتﷺ پر انعامی مقابلے کا اہتمام کرتا ہے ۔ مقابلے میں شامل کتب کے معیار کا اندازہ آپ اس سے لگالیں کہ ’’کتب سیرت طیبہ کا عنوان دینی وشرعی موقف کے مطابق ہونا ضروری ہے ، کتب طبع زاد ہوں ، منتخب کلام کے مجموعہ اور تراجم ہرگز قبول نہ ہوںگے۔ کتب قرآنی آیات اور احادیث کی اغلاط سے مبرا ہوں۔ ذی روح اشیاء کی تصاویر اور فرقہ وارانہ مواد پر مبنی کتب مقابلے سے خارج ہونگی۔ کتب کا گزشتہ ایک برس کے دوران صوبہ پنجاب میں طبع ہونا ضروری ہوگا ‘‘۔
یہاں تک توسب ٹھیک ہے ۔ بہت اچھی بات ہے کہ حکومت پنجاب کتب سیرتﷺ اور نعت رسول مقبولﷺ کے فروغ کی غرض سے یہ اہتمام کررہی ہے۔ مگر جس طرف میں آپ کی توجہ بالخصوص دلانا چاہتا ہوں ، وہ ان کتب پر دی جانے والی انعامی رقوم سے متعلق ہے ۔ اردو، پنجابی، سرائیکی اور انگریزی کے علاوہ دیگر غیرملکی زبانوں میں لکھی جانے والی کتب پر انعامی رقوم کا پیمانہ ایک ہی ہے اور وہ یہ کہ ہر کیٹیگری کی بہترین کتاب کو مبلغ بیس ہزار روپے سکہ رائج الوقت انعام کے طور پر پیش کئے جائیں گے ۔ حتیٰ کہ اگر انگریزی سمیت دوچارغیر ملکی زبانوں مثلاً عربی، فرنچ، جرمن ، اسپینش وغیرہ کی کتب بھی مقابلے میں شامل ہوں تو اول نمبر کتاب کے مصنف کی خدمت میں بھی بیس ہزار روپے کی ’’ خطیر‘‘ رقم ہی پیش کی جائیگی ، جسے ڈالر میں منتقل کریں ، تو دوسو بھی پورے نہ ہو پائیں ۔ نعتیہ شاعری کی بہترین کتابوں کوتو بیس ہزار کا بھی مستحق نہیں سمجھا گیا۔ ان کے لئے انعامی رقم محض بارہ ہزار ہے اور آپ یہ سن کر حیران ہونگے کہ یہ انعامی رقوم گزشتہ تیس برس سے جوں کی توں چلی آرہی ہیں اور ایک دھیلے کابھی اضافہ نہیں ہوا۔ اس دوران کسی نے نہیں دیکھا کہ مہنگائی بڑھ رہی ہے ، افراط زر ہورہا ہے،1985میں نوروپے میں بکنے والا ڈالر سو سے اوپر جاچکا ، ہزار روپے تولے والے سونے کی قیمت 40 ہزار کوچھو رہی ہے، سرکاری اہلکاروں سمیت وزیروں، مشیروں اور عوامی نمائندگان کےمشاہرے کم وبیش پچاس گنابڑھ چکے مگر جوچیز ا س سارے عرصے میں منجمدرہی وہ حضورسرورعالمﷺ کے سیرت نگاروں اور مدح سراوں کوملنے والی انعامی رقوم ہیں جبکہ اسی مملکت خداداد میں کتب کے بعض دیگر مقابلوں میں خطیر رقوم انعام کے طور پر دی جارہی ہیں ۔ مثال کے طور پر اوکسفورڈ یونیورسٹی پریس کراچی کی جانب سے ہر برس اردو نثر یا نظم کی بہترین کتاب پر دولاکھ روپے انعام میں دیئے جاتے ہیں ادیبوں اور شاعروں کی حوصلہ افزائی میں اکادمی ادبیات پاکستان بھی کسی سے پیچھے نہیں ۔ کمال فن ایوارڈ کی انعامی رقم پانچ لاکھ روپے ہے ۔ حتی کہ اقبال اکیڈمی، حکیم الامت علامہ اقبال پر اردو اور انگریزی میں لکھی بہترین کتب پر ہر برس پچاس، پچاس ہزار روپے کے علاوہ گولڈ میڈل بھی عطا کرتی ہے۔ یہی نہیں علاقائی زبانوں بشمول پنجابی، سندھی، پشتو، بلوچی، براہوی اور سرائیکی میں لکھی جانے والی ہر منتخب کتاب کے مولف کوبھی تیس ہزار کے انعام کے ساتھ ساتھ گولڈ میڈل دیاجاتا ہے۔ انٹرنیشنل اقبال ایوارڈ کی رقم تو پانچ ہزار ڈالر ہے، جو علامہ اقبال پر معیاری کتب تالیف کرنے والے غیر ملکی اسکالرز کو پیش کی جاتی ہے۔ ہماری سوسائٹی میں ہرکوئی اپنے مفادات کاپجاری ہے۔ ذاتی مفادات کا کسی حد تک تحفظ کوئی غلط بات بھی نہیں مگر اپنے مفادات کی پوجاپاٹ میں دوسروں کے حقوق کابھی خیال رکھنا چاہئے۔ ارض پاک میں ہم اس نوبت کو اس لئے پہنچے ہیں کہ ہم نے اہل دانش کو ہمیشہ نظر انداز کیا اوردبائو میں رکھا۔ بدقسمتی سے یہی طرز عمل حضور سرور کونینﷺ کے سیرت نگاروں اور مدح سراوں کے ساتھ بھی روارکھا گیا۔ یہ جرم ناقابل معافی ہے جو سرزد توچند لوگوں سے ہوا ہے مگر سزا پوری قوم بھگت رہی ہے۔ ایک مشکل سے نکلتے نہیں کہ دوسری میں پھنس جاتے ہیں اور نحوست کے سائے ہیں کہ بڑھتے ہی چلے جارہے ہیں۔ اس عرصے میں درجنوں وزرائے اعلیٰ، مذہبی امور واوقاف کے وزرا اور سیکرٹری آئے ۔ سب نے آقا ومولیٰ کےپاپوش مبارک کے صدقے میں ملنے والے خزانے جی بھر کراپنی ذات پر لٹائے مگر کسی کو حضورﷺ کے غلاموں کی حالت زار پر توجہ دینے کی توفیق نہیں ہوئی۔ ہرکوئی اپنے اللوں تللوں میں مگن رہا۔ وزیراعلیٰ صاحب ! آج کے زمانے میں بیس ہزار کی کیا اوقات ہے؟ آپ سے بہتر کون جانتا ہوگا۔ پانچ افراد کی فیملی لاہور کے کسی بڑے ریسٹورنٹ میں ڈنر کیلئے چلی جائے تو بیس ہزار خرچہ اٹھ جاتا ہے۔ آپ ہی کے شہر میں درمیانے درجے کے اسکول میں مہینے کی فیس بھی بیس ہزار سے کم کیا ہوگی اور آپ یہ ’’خطیر‘‘ رقم اس شخصیت کو انعام کے طور پر دے رہے ہیں جس نے سال بھر کی محنت سے آپ کے متعین کردہ معیار کے مطابق آقائے دوجہاںﷺ پر اعلیٰ پائے کی کتاب لکھی اور پلے سے چھپوائی۔ یادرہے آج درمیانے درجے کی کتاب بھی ایک لاکھ روپے میں طبع ہوتی ہے۔ جناب! وقت آگیا ہے کہ سرکار دوعالمﷺ کی سیرت اور نعت لکھنے والی محترم شخصیات کو پنجاب کے محکمہ مذہبی امور واوقاف کی مجرمانہ غفلت سے بچایا جائے۔ آپ کی حکومت اس سلسلے میں سرکاری طور پرکچھ کرسکتی ہے توفوری اعلان کرے ورنہ یہ فریضہ حضورﷺ کے غلاموں پر چھوڑ دے جواسے اپنے لئے بے پناہ سعادت سمجھیں گے۔ دہائی خدا کی، سیرت اور نعت شریف کی پانچ بہترین کتابیں اور کل انعامی رقم محض 84ہزار روپے، صرف آٹھ سوڈالر، جوکسی درمیانے درجے کے افسر کابیرون ملک دودن کاٹی اے، ڈی اے بھی نہیں، لکھتے ہوئے بھی شرم آتی ہے ۔ یہ دان پنجاب حکومت اپنے پاس رکھے۔ الحمدللہ قوم حضور سرور کونینﷺ کے غلاموں کوسونے میں تولنے کا حوصلہ رکھتی ہے۔ بس معذوری کا اعلان کردیجئے اور پھر دیکھئے!!!
تازہ ترین