• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
1950کی دہائی میں برٹش آرمی کے سابقہ ملازمین اور پنشن پا جانے والے برٹش سروس کے دوسرے ورکرز کو برطانیہ آنے اور یہاں آکر بہتر مستقبل تلاش کرنے میں کسی بھی قسم کی دشواری نہیں ہوتی تھی۔یہ لوگ انگریزوں کے ساتھ کام کرنے کی وجہ سے انگریزی زبان پر دسترس کے ساتھ ساتھ انگریزوں کے مزاج سے بھی واقف تھے اور یہ چیزیں تخت برطانیہ میں بہتر مستقبل کے لئے مددگار تھیں۔پھر 60کی دہائی کے آخر میں برطانیہ میں آنے والے صنعتی انقلاب کی وجہ سے مزدور طبقے کی شنوائی ہوئی اور ملازمتیں عام ہونا شروع ہو گئیںپھر کیا تھا کبھی منگلا ڈیم اور کبھی تربیلا ڈیم کے متاثرین اور کچھ بھوک اور غربت سے متاثر افراد نے برطانیہ اور یورپ کا رُخ کر لیا۔ترک وطن کرنے والے ان لوگوں نے کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کہ وہ ان نئے’’ دیسوں ‘‘کے باسی ہو کر رہ جائیں گے۔شروع شروع میں پاکستانیوں نے یہ امتیاز برتا کہ وہ اپنی بیٹیوں کو نہیں بلکہ بیٹوں کو یورپ بلانے لگے۔پھر سوچ کا دھارا بدلا پاکستانیوں نے اپنی بیوی اور بچوں کے ساتھ ساتھ بچیوں کو بھی بلانا شروع کر لیا۔کچھ والدین نے یورپ میں رہتے ہوئے اپنے بچوں کے رشتے پاکستان میں اپنے بہن بھائیوں کی اولاد سے کرنے شروع کر دئیے جو کافی حد تک دو رواجوں کی سمجھ نہ ہونے کی وجہ سے ناکام بھی ہوئے۔کچھ نے یورپ میں رہنے والے اپنے ہم وطنوں سے ہی رشتہ داریاں بنانا شروع کر دیں ان میں بھی ناکامی کی شرح زیادہ تھی۔ان ناکامیوں کی ایک وجہ پاکستان کے دیہات سے آنے والی خواتین کا نا خواندہ ہونا تھا اور دوسری وجہ بچوں کی شادی کے وقت ان سے رائے نہ لینا بھی تھا۔ اسپین میں پاکستانیوں کی آمد کا سلسلہ 1970سے شروع ہوا تھا جو تاحال جاری ہے۔اسپین میں تقریباً ایک لاکھ 20ہزار کے قریب پاکستانی مقیم ہیں جن میں اس تعداد کا 70فیصد حصہ بارسلونا اور اس کے گرد و نواح میں آباد ہے۔اسپین میں مقیم پاکستانی کمیونٹی یورپ کے دوسرے ممالک میں رہنے والے پاکستانیوں کی طرح بہت سے ایسے مسائل میں گھری ہوئی ہے جو حکومت پاکستان کی توجہ چاہتے ہیں۔ ہسپانوی دوہری شہریت، اسپین میں پاکستانی بینک، پاکستانی اسکول، کمیونٹی سینٹر،شناختی کارڈ کی ہوشربا قیمت اور پاکستان سے قانونی کاغذات کی تصدیق میں تاخیر جیسے مسائل اپنی جگہ لیکن ایک مسئلہ ایسا ہے جس کو حل کرانے کے لئے سفارت خانہ پاکستان میڈرڈ اور قونصلیٹ جنرل آف پاکستان بارسلونا کی عدم دلچسپی پاکستانی والدین کے لئے انتہائی پریشانی کا باعث بن رہی ہے۔ پاکستان میں ایک ثقافتی رویہ جو کہ رائج ہے، وہ بچوں کی شادیوں کے وقت والدین کو ان کیلئے زندگی بھر کے ساتھی کے چنائو کا حق حاصل ہونا ہے،پاکستانی والدین اپنے بچوں کے نوجوانی کی عمر میں داخل ہوتے ہی ان کی شادیوں سے متعلق فکرمند ہو جاتے ہیںتاکہ جلد سے جلد اپنے اس فرض کو پورا کر سکیںیہی رویہ اسپین میں بھی منتقل ہونے والے والدین میں پایا جاتا ہے جیسے ہی انکے بچے اسکول میں میٹرک کی عمر کو پہنچتے ہیں تو وہ گھر میں ذہن سازی کیلئے بچوں کی شادیوں کی بات چیت شروع کر دیتے ہیں تاکہ بچے اپنی نئی زندگی کے آغاز کے بارے میں تیار ہو جائیں وہیں بعض والدین معاشی بحران کے باعث بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلوانے سے قاصر ہوتے ہیں ان کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کے بچوں بالخصوص بچیوں کی جلد ازجلد شادی کر دی جائے تاکہ وہ اپنی نئی زندگی کا آغاز کر سکیں،گھروں میں ہونے والی اس بات چیت کا اثر بچیوں پر پڑتا ہے اور جب ان بچیوں سے ہائی اسکول میں ان کے اساتذہ، آئندہ تعلیم یا آئندہ زندگی کے بارے میں پوچھتے ہیں تو اساتذہ کو بچیوں کی جانب سے اپنی ممکنہ شادی کے باعث مزید تعلیم حاصل نہ کرپانے سے متعلق آگاہ کیا  جاتا ہے اور یہ معاملہ اس وقت مزید پیچیدہ ہوجاتا ہے جب بچی اپنی شادی کس سے ہونے جارہی ہے سے متعلق کوئی جواب نہیں دے پاتی تو مقامی کمیونٹی کے اساتذہ پاکستانی کمیونٹی کی ثقافت سے ناآگاہی  کے باعث اسے بچیوں پر ایک جبر تصور کرتے  ہیں اور بعض اوقات اس پر حکومتی سطح پر ایکشن بھی لے لیا جاتا ہے جس کے باعث بچیوں کو حکومت اپنی تحویل میں لے کر کمسن بچوں کے مراکز  میںبھیج دیتی ہے جو ایک طرح کا قید خانہ ہوتا ہے جہاں والدین بچوں سے نہیں مل سکتے، ہم اس معاملے میں جبری شادی کے حقیقی واقعات سے بھی نظریں نہیں چرا سکتے لیکن یہ واقعات تعداد میں بہت کم ہوتے ہیں۔اسپین میں مقیم پاکستانی کمیونٹی کی جانب سے مقامی محکموں سے رابطہ کارکے طور پر کام کرنے والے افراد کیلئے ضروری ہے کہ وہ اس صورتحال سے مقامی اساتذہ کو آگاہ کریں۔ وہیں اسپین میں مقیم والدین ایک قدم آگے بڑھاتے ہوئے اسکولوں کی والدین کونسل یاکمیٹی کے ممبر بن کراسکول میں ہونے والی میٹنگز میں باقاعدگی سے حصہ لیں اور اسکول اساتذہ کو اپنی ثقافت اور اسکے فوائد سے آگاہ کریں۔یہاں یہ بات نظر انداز نہیں کی جاسکتی کہ مقامی اسکول ٹیچر بھی والدین ہیں اور کوئی بھی والد یا والدہ اپنے بچوں کو غلط صحبت میں جانے کی حمایت نہیں کرتا۔ اس سلسلے میں پاکستانی والدین اور اور سماجی کارکنوں اور رابطہ کار افراد کو اسکولوں،ا سپینش کالجز اور یونیورسٹیز کے وزٹ کرکے مقامی انتظامیہ کو پاکستانی روایات کے حوالے سے معلومات فراہم کرنا ہوں گی تاکہ پاکستانی والدین اپنی بچیوں کی شادی کی فکر کریں تو یہاں کے ادارے اس عمل کو جبری شادی قرار نہ دیں۔ اس کے لئے سفیر پاکستان میڈرڈ اور قونصل جنرل بارسلونا کو چاہئے کہ وہ پاسپورٹ اور کاغذات کی تصدیق کے ساتھ ساتھ ہسپانوی صوبائی اور وفاقی وزیر تعلیم کے ساتھ میٹنگ کریں اور انہیں بتائیں کہ پاکستانی والدین اپنی اولاد کی شادیوں کے حوالے سے کیا سوچتے ہیںاور ہماری رسومات کے اعتبار سے شادیوں کے تمام فیصلے جبری نہیں ہوتے بلکہ محفوظ اور خوشگوار مستقبل کو یقینی بنانے کے لئے شادی کے فیصلے میں والدین کی رائے بھی شامل کی جاتی ہے۔ اسپین میں کام کرنے والے ہمارے سرکاری اداروں کو چاہئے کہ وہ ہسپانوی وزرا تعلیم سے ایک خط لکھوائیں جو تمام اسکولوں اور کالجز کو بھیجا جائے، اس طرح جن اسکولوں میں رابطہ کار یا پاکستانی فیڈریشنز کا کوئی نمائندہ نہیں پہنچ سکتا وہاں وہ ہسپانوی سرکاری خط پاکستانی والدین کے بچوں کی شادی کے حوالے سے کئے گئے فیصلوں اور جذبات کی عکاسی کرے گا۔




.
تازہ ترین