• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مجھے ایک انسانیت سوز واقعہ کی تفصیل پر ڈسپیچ بھیجا گیا ہے۔ کس نے انسانیت کی تکریم اور خدمت کا یہ حسین و پاکیزہ فرض ادا کیا، یہ بعد میں بتائوں گا، پہلے یہ لرزہ خیزوقوعہ مطالعہ فرمانے کی زحمت کرلیں۔ ڈسپیچ سے پتہ چلتا ہے کہ ’’ہربنس پورہ لاہور کے ایک رہائشی بابر کاچھوٹاموٹا کاروبار شاہ عالم مارکیٹ کے کچھ دکانداروں کے ساتھ گزشتہ 20 برس سے چل رہا ہے۔کارباری لین دین کے سلسلے میں اکثر ان کا آنا جانا شاہ عالم مارکیٹ میں ہوتا رہتا ہے۔ گزشتہ دنوں وہ شدید بخار کی حالت میں اپنی رقم کی وصولی کے سلسلے میں شاہ عالم مارکیٹ جاتا ہے۔ طبیعت کی خرابی کے پیش نظر وہ اپنی بیوی کو بھی ساتھ لے لیتاہے۔ دونوں میاں بیوی موٹرسائیکل پر شاہ عالم پہنچتے ہیں۔ بابر ایک جگہ موٹرسائیکل کھڑی کرتاہے۔ اپنی بیوی سے کہتا ہے ’’میں پانچ منٹ میں واپس آتا ہوں، آپ یہاں رکو‘‘بیوی موٹرسائیکل کے پاس ’’پانچ منٹ‘‘ گزرنے کا انتظار کرنا شروع کرتی ہے۔ دوسری جانب بابر متعلقہ دکاندار سے رقم وصول کرکے اس جگہ پر واپس آتا ہے جہاں وہ موٹرسائیکل کے ساتھ اپنی بیوی کو کھڑا کرکے گیا تھا۔ اب یہ بخار کی شدت تھی یا ہیپاٹائٹس "C" جس کا وہ طویل عرصے سے مریض ہے، کی بیماری کا کوئی اثر جس کے باعث بابر کا ذہن مائوف اور یادداشت گمشدگی کی حد تک متاثر ہو جاتی ہے، وہ اس جگہ کو قطعی بھول جاتا ہے جہاں بیوی اور موٹرسائیکل چھوڑ کرگیا تھا، وہ ہونقوں کی طرح اس جگہ کے احاطے میں دونوں کی تلاش میں کبھی اِدھر کبھی اُدھر جاتا ہے۔ پاگلوں کی طرح کسی شے کا متلاشی ہے۔ پریشان حالی کے اسی عالم مالیخولیامیں وہ کسی اور کی موٹرسائیکل میں چابی لگانے لگتا ہے، اس کی یہ سعی بڑھتی جاتی اوروقت گزرتا جاتا ہے۔ یہ حرکتیں اسے مشکوک بنا رہی تھیں۔ ایک ایسے معاشرے میں جہاں ریاستی سطح پر ہر شہری کو ’’مشکوک‘‘ قرار دیاجاچکا ہے اور قومی میڈیا پر اشتہارات کے ذریعے ہر دوسرے شہری کو اس پر ’’نظر‘‘ رکھنے کی تلقین کی جاتی ہو، تو بابر جیسی حرکتیں کرنے والے کو ’’انجام‘‘ تک پہنچانا تو فرض عین بن جاتا ہے۔
بخار کی شدت میں انسان ہذیان بکنے لگتا ہے لیکن بابر ہذیانی حرکتیں کر رہا تھا۔ وہاں پر موجود کچھ لوگوں نے اس کی ان ’’مشکوک‘‘ حرکتوں کو ’’جرم‘‘ اور اسے ’’پکا چور‘‘ جانتے ہوئے آن دبوچا۔ ہجوم اکٹھا ہوتا گیا۔ قانون اور انصاف کا نتارا ہجوم کے ہاتھوں میں بابر کی دھلائی شروع کردی جاتی ہے۔ اس سے ایک بھی سوال کئے بغیر اسے مارا پیٹا جاتا ہے، ’’ہجوم‘‘ کا غصہ ٹھنڈا ہو تو وہ کچھ کہے۔ سب اسے ’’چور‘‘ کہہ کر سزا دینے پر تلے ہوئے تھے۔
کچھ دیر میں پولیس کے اہلکار ’’انصاف‘‘ کرنے تشریف لاتےہیں اور اسے پوچھے بنا دھپہ دھول کرتے گریبان سے پکڑے تھانےلے جاتے ہیں۔ اس سے پوچھا جاتا ہے کہ وہ کو ن ہے؟ کہاں سے آیا ہے؟ لیکن وہ ان کی کسی بات کا جواب دینے سے قاصر تھا۔ صرف اتنا کہہ پایا کہ وہ ہربنس پورہ میں رہتا ہے اور چور نہیں ہے۔ پولیس کے ’’شیر جوان‘‘ اس کی تلاشی لیتے ہیں تو سائیڈ والی جیب میں موجود سات آٹھ ہزار کی رقم نکال لی جاتی ہے اور شاختی کارڈ بھی جس پراس کا پتہ مغلپورہ کا درج ہوتاہے۔ پولیس کے شیر جوان آگے بڑھ کر اسے پھر مارتے پیٹتے ہیں۔ اتنے میں وڈّا تھانیدارآجاتا ہے ’’کیا ہوا؟‘‘ زور سے ہانک لگاتا ہے۔ ’’چورہے اور مان ہی نہیں رہا، اپنا پتہ بھی غلط بتا رہا ہے، سر! یہ پکا ہے۔ اسے رنگے ہاتھوں گرفتار کیاہے۔ مارکیٹ کے لوگ اس بات کے گواہ ہیں۔‘‘
’’لمیاں پائو‘‘ اور جیسے ہی ’’وڈّا تھانیدار‘‘ آگےبڑھتا ہے اسے ’’لمیاں پانے‘‘ کے لئے، وہ اس کی کلائی کو پکڑتا ہے تو اسے ایک دم جھٹکا سا لگتا ہے۔ وہ اچھی طرح اس کی کلائی کو پکڑ کر دیکھتا ہے۔ فوراً پنے ماتحتوں سے کہتا ہے کہ ’’اسے تو بہت تیزبخار ہے۔ اسے فوراً ڈاکٹر کے پاس لے کر جائو ‘‘ جب بابر کو ڈاکٹر کے پاس لے کر جایا جاتا ہےتو وہ اسے چیک کرنے کے بعد کہتا ہے، ’’اسے اس وقت 104 سے زیادہ تیز بخار اور ہائی بلڈ پریشر تھا۔ اس حالت میں ہارٹ اٹیک اوربرین ہیمبرج کے خطرے کے علاوہ انسان اپنے حواس تک کھو بیٹھتا ہے‘‘ جوبابر پہلے ہی کھو چکا تھا۔اگر وڈّا تھانیدار اس کے بخار کو محسوس نہ کرتا اور ’’لمیاں‘‘ پا لیتا تو جو اس کا انجام ہونا تھا اس طرح کے انجام کے شکار افراد کی خبریں ہم آئے روز اخبارات میں پڑھتے رہتے ہیں کہ ’’فلاں تھانے میں حرکت قلب بند ہونے سے زیرحراست ملزم ہلاک ہو گیا‘‘ یہ بیان پولیس کا ہوتا ہے جبکہ تشدد کو گول کر دیا جاتا ہے۔
ہجوم کی جانب سے انتہائی تشدد کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔ کراچی میں وکلا کا زندہ جلایا جانا، سیالکوٹ میں دو نوجوانوں کو ڈنڈوں سے پیٹ پیٹ کر مار دیا جانا اور کچھ ہی عرصہ پیشتر قصور کی مضافاتی بستی میں عیسائی جوڑے کو بھٹی میں ڈال دیئے جانے کے واقعات ابھی بھلائے نہیں گئے ہیں۔ کیا تشدد ہمارے لوگوں کے مزاج کا حصہ بن چکا ہے؟ اگر اس میں عقیدے کا رنگ شامل ہوجائے تو یہ مزید مہلک ہو کر احتجاج کرنے والوں کو ایک ایسے مشتعل ہجوم میں بدل سکتا ہے جس کے پاس اپنی ہی جانب سے قتل کرنے تک کاجواز ہوتا ہے۔
مجھے یہ ڈسپیچ ایک کالم نگار نے بھیجا جس کے لئے میں اس کا شکر گزار ہوں۔ وہ غالباً 2014 ہی کا واقعہ ہے ، اس بدنصیب خاتون کی مثال بھول گیا جو صوبائی عدالت ِ عظمیٰ کے دروازے کے سامنے دیوار کے ساتھ بیٹھی ہوئی تھی، اس کے رشتہ داروں نے وکلا ، پولیس اور عوام کے سامنے اینٹیں مار مار کر ہلاک کردیا تھا۔
پنجاب میں ہمارے قلمکاروں کا عملی بحران ہے۔ مجھ سمیت یہ سب حضرات پنجاب کے معاشرتی، سیاسی، سماجی، صحت اور دیگر مسائل پر لکھتے ہوئے ’’ملک‘‘ کا لفظ استعمال کرتے ہیں جبکہ ہم لکھنے والوں کی اکثریت کا بلوچستان، سندھ اور خیبرپختونخوا کے حالات و واقعات کی آگاہی سے شاید بمشکل 5 فیصد ہی صحیح معلوماتی تعلق بنتا ہو! ملکی معاملات کی بات الگ ہے مگر جس صوبے کی جو حقیقی حالت ہے وہ اسی صوبے سے متعلق ہے۔ اسے ’’ملک ‘‘ بنا کر پیش کرنا بصیرت اور انصاف دونوں کے ساتھ صریح ظلم ہی کہا جاسکتا ہے۔
پنجاب میں ریاستی اور سماجی حقائق سامنے نہیں آرہے۔ موجودہ منتخب حکومت بنیادی طور پر اس مکتب فکر یا طبقے سے تعلق رکھتی ہے جسے دایاں بازو اور سرمایہ دار کہا جاتا ہے۔ یہ مکتب ِ فکر ان لوگوں سے رجوع کرے یا نہ کرے، اسے ان تمام دانشوروں اور اہل فکر و نظر کی حمایت حاصل ہے جو ریاست اور انسانی حقوق کے عوامی چارٹر سے اس طرح اتفاق نہیں کرتے جس طرح انسان نے اپنے سفر میں ان کا وجود تسلیم کروایا ہے بلکہ یہ انسان کو ’’حدود‘‘ میں رکھ کر ’’متوازن نیک‘‘ بنانے کے بعد اس کی ’’آزادی‘‘ کا بھی خود تعین کرتے ہیں۔ یہ وہ نظریاتی حمایت ہے جس کے باعث پنجاب کے موجودہ معاشرتی ڈھانچے کا ہر فردبحیثیت مجموعی کہہ رہا ہوں، استثنیٰ کی بات الگ ہے، قانون شکنی اور نظریاتی شدت میں خود سب سے بڑھ کر حملہ آور ہے!
تازہ ترین