• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ڈھائی سال سے عوامی آرزؤں اور امنگوں کی آنچ پر پکتی جمہوری دیگ کا نمک مرچ چکھ کر آپکو بتانے ہی لگا تھا کہ حضرت علی ؓ کا قول یاد آگیا کہ ’’ کوئی معاشرہ کفر کے ساتھ توقائم رہ سکتا ہے مگر ظلم اور نا انصافی کے ساتھ نہیں‘‘ اور پھر یہ کہ’’ اقتدار ،اختیار اور دولت ملنے کے بعد انسان بدلتے نہیں بے نقاب ہو جاتے ہیں ‘‘۔
باقی آپکو بتانا یہ تھا کہ ملکی قرضہ 68ارب ڈالر ہوگیا ، نندی پور چھوڑیں اب تو 272ارب لاگت والا نیلم جہلم پروجیکٹ بھی 410 ارب تک جا پہنچا،سب کے سامنے آئی پی پیز کو 190ارب زیادہ ادا کر دیئے گئے اور دن دیہاڑے 21ارب ڈالر زرِمبادلہ والے ملک میں 410ملین ڈالر کے سود پر 500ملین ڈالر قرض لے لیا گیا ۔ بتانا یہ بھی ہے کہ ایک اہم سیاسی وکاروباری خاندان نے رشوت اور سفارش کا چکر چلا کر 200 ملین قرضہ دو فیصد سود پر لے کر اگلے ہی دن 7فیصد سود پر دے کر اُس منافع بخش کاروبار کی بنیاد رکھ دی کہ جس کیلئے اب ہر بااثر شخص بھاگ دوڑکررہا ہے۔بتانا یہ بھی ہے کہ جس ملک میں غربت ،مہنگائی اور بے روزگاری نے لوگوں کو نکّو نک کر دیا ہو ، جہاں اسکولوں کا یہ حال کہ اگر چھت ہے تو استاد نہیں اور اگر استاد ہے تو نصاب نہیں،جہاں اسپتالوں کی حالت یہ کہ پہلے تو ڈاکٹر ہی نہ ملے اگر وہ مل جائے تو بیڈ نہ ملے اور اگر دونوں مل جائیں تو پھر دوائیاں غائب اور مشینری خراب، جہاں آخری سیلاب اور حالیہ زلزلے سے مرنے والوں کو تو رہنے دیں، ابھی تو وہ بھی رہتے ہیں جو 2005کے زلزلے میں سب کچھ گنوا چکے، جہاں 88جیلوں میں بھیڑ بکریوں کی طرح انسان اس طرح ٹھونسے گئے کہ اکثر جیلوں میں اگر اپنی باری پر ایک قیدی سوئے تو دوسرا اس لئے کھڑا رہے کہ بیٹھنے کی بھی جگہ نہ ہو اور جہاں پنشن لینے والے رُل گئے اور زکوٰۃ پر چلتے گھروں کے چولہے ٹھنڈے پڑ چکے ، وہاں اُسی ملک میں وہ پنجاب حکومت جو خادمِ اعلیٰ کیلئے 14گاڑیاں خریدنے کیلئے 5کروڑ 40لاکھ اور شریف خاندان کی حفاظت کرتے پولیس ملازمین کیلئے 2کروڑ 71 لاکھ دے چکی تھی ، اب اسی پنجاب حکومت نے پچھلے ہفتے رائے ونڈ محلات کی سیکورٹی کیلئے 36کروڑ 44لاکھ اور دیدیئے۔
بتانا یہ بھی کہ یہاں چھوٹوں کی چھوٹی حرکتوں پر پریشان جب آج اپنے دوچار بڑوں کا حال احوال سنیں گے تو آپکے چودہ طبق روشن ہو جائیں گے،پہلے بات کرتے ہیں اُس بڑے صاحب کی جو بڑے عہدے کیلئے نامزد ہونے کے دوسرے ہی دن اسٹیٹ گیسٹ ہاؤس کراچی میں اپنے خاندان کے اتنے لوگوں کے ساتھ آگئے تھے کہ جب جگہ کم پڑی تو پھر چند عزیزو اقارب نے ان کوارٹروں میں بھی بستر لگا لئے کہ جن میں پولیس اہلکار رہ رہے تھے، یہ وہی صاحب جنہوں نے کمبل تکیوں اور کھانے پینے پر غیرمطمئن رشتے داروں کے کہنے پر اسٹیٹ گیسٹ ہاؤس کے نگراں کو معطل کروادیا ، یہ وہی محترم جو اپنے عہدے کا حلف اٹھانے کے دوہفتے بعد ہی سعودی عرب کے قومی دن پر مہمانِ خصوصی کی حیثیت سے جا کر ہاتھ ملاتے ہی سفیر سے کہہ دیتے ہیں کہ ’’یار اس بار شاہی حج تو کروا دو‘‘ یہ وہی قبلہ جسے جب سفیر نے اپنے ملک سے اجازت لے کر شاہی حج کیلئے ہاں کی تو انہوں نے اپنے ساتھ 18پاسپورٹ رشتے داروں کے بھی بھجوا دیئے اور پھر اپنے ڈیڑھ درجن رشتے داروں کے ساتھ مفت حج کرتے ہوئے بقول ہمارے میڈیا کے ملکی سلامتی اور قومی خوشحالی کیلئے رو رو کر دعائیں مانگنے والے عزت مآب کی اپنی حکومت کی آڈٹ رپورٹ بتاتی ہے کہ انہوں نے بیرونی دوروں کے دوران ملک و قوم کے 60ہزار ڈالر نوکروں چاکروں کو ٹپ کی شکل میں دے دیئے ۔ اب سنئے دوسرے بڑے صاحب کی،یہ ڈھائی سال قبل عہدے کا حلف اٹھانے اور اپنے وسیع وعریض سرکاری گھر میں شفٹ ہونے سے دو دن پہلے گھرکا معائنہ فرمارہے تھے کہ یہ اپنے بیڈ روم کے باتھ روم کے دروازے پر آکر رکے اور پھر گھر کی دیکھ بھال کرتی سرکاری ٹیم کے انچارج کی طرف دیکھ کر بولے ’’اس باتھ روم میں بھی اتنا ہی بڑا شاور لگایا جائے جتنا بڑا شاور میرے لاہور والے گھر میں لگا ہوا ہے ‘‘معائنہ ختم ہوا تو اس افسر نے دفتر پہنچ کر پہلا کام یہی کیا کہ پہلے لاہور فون کرکے شاور کی لمبائی ، چوڑائی معلوم کی اور پھر اس سائز کا شاور لانے کیلئے راولپنڈی اسلام آباد کی مارکیٹوں میں بندے دوڑا دیئے ، لیکن اِدھر یہ بندے بازاروں میں پہنچے بھی نہیں ہوں گے کہ اُدھر بڑے صاحب کا فون آگیا،فرمانے لگے ’’شاور مِلا یا نہیں‘‘عرض کیا گیا کہ ’’بندے اس وقت بازاروں میں ہیں‘‘لیکن پھر جب ایک لمبی تلاش کے بعد پتا یہ چلا کہ یہاں کیا اتنا بڑا شاور تو پورے ملک میں بھی نہیں مل سکتا تو سب سرجوڑ کر بیٹھے اور پھر حل یہ نکالا گیا کہ خصوصی آرڈر پر شاور بنوا لیا جائے اور یوں اسلام آباد کے ایک باتھ روم کی چیزیں بنانے والی فیکٹری کو منہ مانگی قیمت پر یہ شاور بنانے کا آرڈر دے دیا گیا ،ابھی یہ سب ہوا ہی تھا کہ افسر کو بڑے صاحب کی پھر کال آئی اور ان کے پھر سے پوچھنے پر کہ ’’شاور کا کیا بنا‘‘ گوش گزار کیا گیا کہ ’’ حضور بازار سے چونکہ اس سائز کا شاور نہیں مِلا ،لہذا اب خصوصی طور پر شاور بنانے کا آرڈر دیدیا گیا ہے‘‘ ۔لیکن صاحب کے فون کے بعد یہ افسر کرسی سے ٹیک لگا کر ابھی چائے پینے کا سوچ ہی رہا تھا کہ فون کی گھنٹی بجی اور اس بار دوسری طرف بڑے صاحب کے اے ڈی سی تھے ،کہنے لگے ’’صاحب پوچھ رہے ہیں کہ شاور ملے گا کب‘‘ ، بتایا گیا 3دن بعد ، فون بند ہوا اور ا بھی اس افسر نے چائے کا پہلا گھونٹ ہی بھرا تھا کہ دوبارہ کال آگئی اور گو کہ اس بار بھی دوسری طرف اے ڈی سی ہی تھے مگر مکمل بدلے ہوئے لہجے کے ساتھ۔ تحکمانہ انداز میں بولے ’’ صاحب کہہ رہے ہیں کہ 3دن کی کہانی کسی اور کو سناؤ ،اگلے 24گھنٹوں میں شاور باتھ روم میں لگ جانا چاہئے‘‘ ،یہ سن کر افسر کے ہوش اڑے اور وہ افراتفری میں دفتر سے سیدھا فیکٹری پہنچا اور پھر اس نے آدھے گھنٹے کی منتوں سماجتوں اور ڈبل قیمت کا لالچ دے کر آخر کار فیکٹری منیجر کو اگلے دن سہ پہر تک شاورتیار کرنے پر راضی کرہی لیا۔خیر خداخدا کر کے اگلے دن شام کو شاور لگا کر جب بڑے صاحب کو بتایا گیا تو وہ ایک میٹنگ سے اٹھ کر بذاتِ خود معائنے کیلئے تشریف لائے اور پھر 15بیس منٹ تک شاور چلانے اور بند کرنے کے دوران مکمل بھیگ چکے افسر کوشکایتی نظروں سے دیکھتے ہوئے یہ کہہ کر چلتے بنے کہ ’’مزا نہیں آیا‘‘۔
اب آخر میں بتانا یہ بھی کہ ایک وزارت کو چلاتے دو بزرگوں کا ڈیڑھ سالہ باہمی حسد آجکل اس سطح پر پہنچ گیا کہ اب تو پوری وزارت مزے لیتی ہوئی۔ مثال کے طور پر ایک بزرگ کو جب وہ دفتر مِلا کہ جس کے ساتھ جڑا ہوا ایک چھوٹا سا Sitting Roomبھی تھا تو دوسرے بزرگ اُس وقت تک چین سے نہ بیٹھے کہ جب تک اُنہوں نے ایک دیوارتوڑ کر اپنے دفتر کے ساتھ بھی Sitting Room نہ بنالیا ، جب ایک بزرگ کے دفتر میں اللہ کے ناموں والی پینٹنگ لگی تو دوسرے بزرگ کو تب تک سکون نہ آیا کہ جب تک اسی طرح کی پینٹنگ ان کے دفتر میں بھی نہ لگ گئی ، جب ایک بزرگ کو کالی گاڑی ملی تو دوسرے بزرگ نے اپنی سفید کار واپس کر کے کالی گاڑی منگوالی ، جب ایک بزرگ نے اپنی کار پر جھنڈا لگایا تو اگلے دن دوسرے بزرگ کی گاڑی پر بھی جھنڈا لہرا رہا تھا اور جب ایک بزرگ ایک صبح پروٹوکول والی گاڑی کے ہمراہ دفتر پہنچے تو دوسرے بزرگ اس دن اُس وقت تک دفتر میں بیٹھے رہے جب تک ان کو بھی پروٹوکول کی گاڑی مہیا نہ کر دی گئی اور اب آخری اطلاعات آنے تک سوکنوں والی یہ رقابت کپڑے پہننے اور کھانے پینے تک پہنچ چکی تھی ۔
تو دوستو! ڈھائی سال سے عوامی آرزؤں اور امنگوں کی آنچ پر پکتی اس جمہوری دیگ کا نمک مرچ چکھنے کے بعد پھر سے حضرت علی ؓ کا قول یادآگیا کہ ’’ کوئی معاشرہ کفر کے ساتھ تو قائم رہ سکتا ہے مگر ظلم اور نا انصافی کے ساتھ نہیں ‘‘اور پھر یہ کہ’’ اقتدار ،اختیار اور دولت ملنے کے بعد انسان بدلتے نہیں بے نقاب ہو جاتے ہیں ‘‘۔
تازہ ترین