• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے سینٹ میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان پر قرضوں کا بوجھ اس وقت تک بڑھتا چلا جائے گا جب تک بجٹ خسارے پر قابو نہیں پایا جاتا ۔ یہ بات صرف آدھی سچ ہے کیونکہ قرضوں کے تیزی سے بڑھنے کی وجہ بیرونی شعبہ بھی ہے۔ گزشتہ مالی سال میں پاکستان کے تجارتی خسارے کا حجم 22؍ ارب ڈالر رہا۔ یہ پاکستان کی تاریخ میں کسی بھی مالی سال میں ہونے والا سب سے بڑا تجارتی خسارہ ہے۔ گزشتہ سات برسوں میں پاکستان کو تقریباً 130؍ ارب ڈالر(آج کے حساب سے 13ہزار ارب روپے) کا تجارتی خسارہ ہوا جبکہ اسی مدت میں بجٹ خسارے کا حجم تقریباً 8ہزار ارب روپے رہا۔ اگر ان سات برسوں میں تقریباً 89؍ ارب ڈالر کی ترسیلات نہ آتیں تو معاشی صورت حال انتہائی سنگین ہوچکی ہوتی۔ ان ترسیلات کا تقریباً 80فیصد صرف چار ملکوں سے آتا ہے جو کہ صحت مند علامت نہیں ہے۔ یہ چار ملک سعودی عرب، متحدہ عرب امارات ، امریکا اور برطانیہ ہیں۔ یہ ترسیلات پاکستان میں سرمایہ کاری کے لئے نہیں بلکہ ملک کے تجارتی خسارے کو پورا کرنے کے لئے استعمال ہورہی ہیں۔ اس خدشے کو نظرانداز کرنا دانشمندی نہیں کہ استعماری طاقتیں ایک حکمت عملی کے تحت ان چار ملکوں سے آنے والی ترسیلات میں اچانک زبردست کمی کراسکتی ہیں۔
یہ بات کوئی راز نہیں کہ پاکستان آنے والی ترسیلات کا ایک حصہ ٹیکس چوری اور لوٹی ہوئی دولت کو قانونی تحفظ حاصل کرنے کے لئے استعمال کیا جارہا ہے۔ اگر انکم ٹیکس آر ڈیننس کی شق (4)111برقرار رکھی جاتی ہے تو مجموعی ملکی پیداوار کے تناسب سے ٹیکسوں کی وصولی میں پائیدار اضافہ نہیں ہوگا اور بجٹ خسارہ کا مسئلہ برقرار رہے گا۔ اگر تقریباً تین ہزار ارب روپے سالانہ کی ٹیکس کی چوری روکنے اور کرپشن پر قابو پانے کے لئے اس شق پر نظرثانی کی جاتی ہے تو ترسیلات کے حجم میں زبردست کمی ہوگی اور معیشت بحران کا شکار ہو جائے گی۔ پاکستان کی معیشت میں پائیدار بہتری لانے، بجٹ خسارے پر قابو پانے اور انکم ٹیکس آرڈیننس کی شق (4)111 پر نظرثانی سے ترسیلات میں کمی کے جھٹکے سے معیشت کو محفوظ رکھنے کی حکمت عملی خود مسلم لیگ(ن) کے منشور میں موجود ہے یعنی (i) وفاقی اور صوبوں کی سطح پر ایک مقررہ رقم سے زائد ہر قسم کی آمدنی پر موثر طور پر ٹیکس عائد اور وصول کرنا۔ (ii) کالے دھن کو سفید ہونے سے روکنا اور (iii) انفارمیشن ٹیکنالوجی کی مدد سے معیشت کو دستاویزی بنانا۔ یہ امر افسوسناک ہے کہ طاقتور طبقوں کے ناجائز مفادات کے تحفظ کے لئے وفاق اور چاروں صوبے ٹیکس کے شعبے میں اصلاحات کے لئے تیار نہیں ہیں۔
موجودہ حکومت نے معیشت کے فروغ کے لئے ٹیکسوں کی وصولی اور بچتوں کی شرح بڑھانے کے بجائے بیرونی قرضوں و امداد ، بیرونی ملکوں سے آنے والی ترسیلات ، قومی اثاثوں کی نج کاری اور اسٹیٹ بینک کے تعاون سے تجارتی بینکوں سے بڑے پیمانے پر قرضے لیتے چلے جانے کی جو حکمت عملی اپنائی ہے اس کے منفی اثرات واضح ہوتے چلے جارہے ہیں۔ آئی ایم ایف کی ناروا شرائط سے معیشت کی شرح نمو تیز کرنے میں رکاوٹ ہوئی ہے۔ جولائی 2013ء سے جون 2015ء کے 24ماہ میں حصص کی فروخت اور سعودی عرب سے مجموعی طور پر تین سو ارب روپے سے زائدرقوم ملنے کے باوجود پاکستان کے مجموعی قرضوں و ذمہ داریوں کے حجم میں 3526؍ ارب روپے کا اضافہ ہوا۔ ان دو برسوں میں بیرونی ممالک سے 34؍ ارب ڈالر سے زائد رقوم کی ترسیلات آئیں جو اصراف کی نذر ہوگئیں اور ان کے ایک حصے کو سرمایہ کاری میں منتقل کرنے کی سرے سے کوئی کوشش کی ہی نہیں گئی۔ ان دو برسوں میں معیشت کی شرح نمو ، ٹیکسوں کی وصولی ، بجٹ خسارے اور برآمدات کے اہداف حاصل نہیں کئے جاسکے جبکہ گزشتہ مالی سال میں بیرونی سرمایہ کاری کا حجم تیزی سے گرا۔ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں زبردست کمی ہونے سے نواز حکومت کو معیشت کو پائیدار بنیادوں پر استوار کرنے، عام آدمی کی حالت بہتر بنانے اور ملکی و بیرونی قرضوں پر انحصار کم کرکے ملک کو خود انحصاری کی طرف گامزن کرے کا جو سنہری موقع ملا تھا وہ ضائع ہوتا نظر آرہا ہے۔ یہ یقیناً ایک قومی المیہ ہے۔
پاکستان کی معیشت کے ضمن میں اب کچھ عالمی اداروں نے بھی تشویش کا اظہار کرنا شروع کردیا ہے مثلاً
(1) عالمی بینک کا کہنا ہے کہ گزشتہ دو برسوں میں پاکستانی معیشت کی شرح نمو جنوبی ایشیا کے تمام ممالک سے کم رہی سوائے افغانستان کے۔
(2) کاروباری میں آسانی کی درجہ بندی میں پاکستان کی تنزلی ہوئی ہے۔ اب189 ملکوں میں پاکستان 138ویں نمبر پر ہے۔ سری لنکا ، مالدیپ ، نیپال، بھوٹان اور بھارت کی درجہ بندی پاکستان سے بہتر ہے۔
(3) عالمی مسابقت رپورٹ برائے 2015-16 میں پاکستان کو 126ویں نمبر پر رکھا گیا ہے جبکہ بھارت (55) سری لنکا (68) نیپال (100) اور بنگلہ دیش (107) پاکستان سے بہتر نمبر پر براجمان ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں اداروں کی کمزوری سے معاشی ترقی کی رفتار متاثر ہورہی ہے۔
(4) انٹرنیشنل کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی مودیز نے اپنی حالیہ رپورٹ میں کہا ہے کہ پاکستان میں ریاست کے تینوں ستون کے درمیان مصنوعی تعلقات ہیں چنانچہ نہ صرف ادارے کمزور ہورہے ہیں بلکہ وہ اپنا کردار بھی موثر طور پر ادا نہیں کررہے نتیجتاً معیشت پر منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں۔
(5) برطانوی حکومت کی امداد سے چلنے والے ایک ادارے نےاپنی حالیہ رپورٹ میں کہا ہے کہ پاکستان میں ٹیکسوں کی وصولی مایوس کن حد تک کم ہے جس سے پاکستان کےوجود کو ہی خطرہ ہے۔
(6) عالمی بینک نے ایک حالیہ رپورٹ میں کہاہے کہ کسی بھی بڑے معاشی دھچکے کو سنبھالنے کی پاکستان کی صلاحیت محدود ہے۔
(7) ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے مطابق بدعنوانی کے لحاظ سے 175ممالک میں پاکستان 126ویں نمبر پر ہے۔
امریکی نائن الیون کے 14برس بعد 13؍نومبر 2015 ء کو پیرس حملوں کی ذمہ دار داعش نامی تنظیم قرار پائی ہے جو امریکی حکام کے مطابق امریکا کے عراق پر حملوں کے نتیجے میں قائم ہوئی تھی۔ یہ بات بھی امریکا کے سرکاری ریکارڈ کا حصہ ہے کہ نائن الیون سےپہلے نومنتخب امریکی صدر بش کو 2000ء میں مشورہ دیا گیا تھا کہ کوئی بھی بہانہ تراش کر عراق پر حملہ کرکے تیل کی دولت سے مالا مال اس اسلامی ملک پر قبضہ کرلیا جائے۔ اس پر نائن الیون کے بعد عمل کیا گیا۔ یورپ کے 13؍نومبر کے نائن الیون کے بعد دنیا پھر بدلے گی۔ اب ’’دہشت گردوں کو فنانسنگ‘‘ پر بھی مغرب کی خصوصی توجہ ہوگی۔ خدشہ ہے کہ اینٹی منی لانڈرنگ قوانین کی زد میں پاکستان کے انکم ٹیکس آرڈیننس کی شق (4)111 کو بھی لانے کا جواز پیدا کیا جائے گا چنانچہ یہ انتہائی ضروری ہے کہ پاکستان ہنگامی بنیادوں پر خودانحصاری پر مبنی پالیسیاں اپنائے اور مغرب پر انحصار کم کرے وگرنہ آگے چل کریورپ کی بھی وہ ناروا شرائط تسلیم کرنا پڑیں گی جو قومی سلامتی و مفادات سے متصادم ہوں گی۔
تازہ ترین