• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاناما لیکس اور کرپشن کے حوالے سے مقدمہ وزیراعظم پاکستان میاں نوازشریف اینڈ فیملی کے خلاف عدالت عظمیٰ میں زیر سماعت ہے جبکہ عدالت سے باہر حکومت کے پروانے وزراء نے الیکٹرانک و سوشل میڈیا پر عمران خان کی کردار کشی کے بارے میں وہ ہنگامہ برپا کر رکھا ہے کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی۔ یہ وزرائے کرام کوئی سنجیدہ نکتہ آرائی یا نکتہ آفرینی کے بجائے عمران خان کے ثبوتوں والے کاغذات میں کبھی پکوڑے بیچتے ہیں اور کبھی جلیبیاں۔ پھر سونے پر سہاگہ محترمہ مریم نواز کے طنزیہ ٹویٹ پیغامات۔ مسلم لیگ (ن) کی اس ساری میڈیا مہم کا بنیادی ہدف یہ ہے کہ مقدمے کو ہنسی مذاق میں اڑائو اور اتنا غبار بڑھائو کہ ہر چیز دھندلی دکھائی دینے لگے۔ ہم نے بھی اس مقدمہ پر طبع آزمائی کا فیصلہ کیا تو ساتھ ہی ہمیں جدید اردو کالم نگاری کے موجد عبدالقادر حسن کا قول یاد آگیا کہ جب بھی فوج یا عدالت کو موضوع تحریر بنائو تو احتیاط کا دامن تھام کر چلو۔ ہمیں بھی اچھی طرح اندازہ ہے کہ اس وادی میں قدم رکھنا پل صراط سے گزرنے یا امریکی بازی گر کی طرح لمبا بانس تھام کر لوہے کے تنے ہوئے رسے پر چلتے ہوئے نیاگرافال کو عبور کرنے کے مترادف ہے۔ ہماری کوشش یہ ہوگی کہ قانون کی روشنی میں یہ طے کریں کہ اس سارے مقدمے میں بار ثبوت کس پر عائد ہوتا ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ عمران خان نے مقدمہ ایک پٹیشنر یا مدعی کی حیثیت سے دائر کیا ہے اور اپنے ذمے ایک بہت بڑی ذمہ داری لے لی ہے جسے اٹھانا ایک فرد یا پارٹی کے بس کی بات نہیں جبکہ سینیٹر سراج الحق نے جماعت اسلامی کی طرف سے عدالت عظمیٰ میں بحیثیت ایک شکایت کنندہ درخواست دائر کی ہے اور عدالت سے استدعا کی ہے کہ پاناما لیکس جیسے اسکینڈل میں وزیراعظم سمیت جو جو پاکستانی ملوث ہیں انہیں قرار واقعی سزا دی جائے۔ جماعت اسلامی کے مقدمے کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ نیب اس معاملے میں شدید غفلت کا مرتکب ہوا ہے۔ وہ ادارہ کہ جو ذرا ذرا سی ٹیکس چوری، منی لانڈرنگ یا کرپشن کے حوالے سے چھوٹے بڑے تاجروں کو دھر لیتا ہے وہ کھربوں کی کرپشن کے بارے میں خاموش کیوں ہے؟ یقیناً نیب نے پاناما لیکس اسکینڈل میں وزیراعظم کی فیملی کے نام موجود ہونے کی بناء پر یہ خاموشی اختیار کی۔ اسی لئے جماعت اسلامی کی درخواست میں عدالت عظمیٰ سے استدعا کی گئی ہے کہ وہ نیب کو عدالت میں طلب کرے اور پوچھے کہ انہوں نے اس مقدمے کو کیوں نظرانداز کیا اور اس غفلت پر نیب کو شدید نوعیت کی سزا دی جائے۔
جماعت اسلامی کے بعض ترجمان حضرات کی یہ منطق نرالی ہے کہ ہماری درخواست کسی ایک شخصیت یا خاندان کے خلاف نہیں پاناما کرپشن میںملوث ہر شخص کے خلاف ہے۔ اسلامی نظام میں عدل و انصاف میں سب سے پہلے حاکم وقت کا محاسبہ ہوتا ہے۔ اس لئے جماعت اسلامی کی درخواست کا مرکزی فوکس وزیراعظم اوران کی فیملی کے بارے میں ہونا چاہئے تھا۔ کرپشن کے ادنیٰ سے شائبے پر ایک عام بدو خلیفہ وقت کا محاسبہ کرنے کے لئے اسے خطبۂ جمعہ کے دوران ٹوک دیتا ہے۔ یہی آج کی جدید جمہوریتوں کا دستور ہے۔ جو واقعات امریکہ کی پروفیشنل لائف کا روزمرہ ہیں جب ان کا ارتکاب امریکی صدر بل کلنٹن وائٹ ہائوس میں کرتا ہے تو مونیکا لیونسکی کے اسکینڈل پر امریکی عدالت میں صدر کا محاسبہ یوں ہوتا ہے کہ ساری دنیا دیکھتی ہے۔ کرپشن کے خلاف عمران خان کی تحریک کو بالعموم لوگ قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں مگر اب ان کے بڑے بڑے مداح بھی ان کی متلون مزاجی سے دلبرداشتہ ہورہے ہیں۔ مجھے معلوم ہے کہ میرے نہایت عزیز دوست احسن رشید مرحوم جو کافی عرصے تک تحریک انصاف پنجاب کے صدر بھی رہے، کی بات خان صاحب نہ صرف بغور سن لیتے تھے بلکہ اس کی روشنی میں نظرثانی بھی کرلیتے تھے۔ اب نہ جانے کوئی انہیں بتا سکتا ہے یا نہیں مگر انہیں بتانے کی بات یہ ہے کہ کسی بھی لیڈر میں ایک بنیادی وصف یہ ہوتا ہے کہ وہ کوئی بیان دینے سے پہلے ہزار بار غور و فکر اور صلاح مشورہ کرے اور جب وہ بات کہہ دے تو پھر کوئی اسے جھٹلا نہ سکے۔ مگر خان صاحب کا حال یہ ہے کہ وہ ہر لرزش صبا کے کہے پر چل پڑتے ہیں اور بعد میں انہیں پتہ چلتا ہے کہ جو بات انہوں نے کہی وہ مبنی برحقیقت نہ تھی۔ دوسری بات جو خان صاحب کے امیج کو دھندلا رہی وہ یہ ہے کہ وہ بیک وقت کئی محاذ کھول لیتے ہیں اور جن کاموں میں اپوزیشن کی دیگر جماعتوں کو ساتھ لے کر چلنے کی ضرورت ہوتی ہے ان میں بھی وہ ان کے ساتھ چند قدم چل کر پھر سولوفلائٹ کے عشق میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ خان صاحب لندن سے کوئی ثبوت لے کر آئے ہیں یا نہیں مگر عدالت کے سامنے کوئی چیز پیش کرنے سے پہلے اس کا اچھی طرح جائزہ لے لیں۔ جہاں تک خان صاحب کی اس استدعا کا تعلق ہے کہ احتساب کا آغاز وزیراعظم سے ہونا چاہئے اسے عدالت عظمیٰ نے قبول کرلیا ہے۔ البتہ خان صاحب کو بھی سینیٹر سراج الحق کی طرح بار ثبوت اپنے کندھوں پر نہیں ڈالنا چاہئے اور یہ استدعا بھی کرنی چاہئے کہ عدالت نیب جیسے اداروں کو ایک معینہ مدت میں تفتیش کرنے اور اس کے نتائج سے عدالت عظمیٰ کو آگاہ کرنے کا پابند کرے۔ ہم نے پاکستان اور پاکستان سے باہر بعض سینئر وکلاء سے بات کی ہے جن کا کہنا یہ ہے کہ بار ثبوت صرف مدعی پر نہیں مدعا علیہ پر بھی عائد ہوتا ہے کہ اگر وہ الزام تسلیم نہیں کرتا تو پھر اپنی صفائی دے۔ تاہم پاناما لیکس کے مقدمے میں عدالت عظمیٰ کو اس بات کا مکمل قانونی اختیار حاصل ہے کہ وہ نیب، ایف بی آر اور ایف آئی کو اس مقدمے کے سلسلے میں اندرون و بیرون ملک تمام شواہد اکٹھےکرنے کی ذمہ داری سونپ سکتا ہے۔یہ عدالت عظمیٰ کی صوابدید ہے کہ وہ بار ثبوت مدعی پرڈالے یا مدعا علیہ پر یا ملکی تفتیشی اداروں پر یا پھر تینوں پر۔ البتہ اس وقت ساری نگاہیں عدالت عظمیٰ پر مرکوز ہیں اور قوم چاہتی ہے کہ فاضل عدالت جلد سے جلد اپنا فیصلہ صادر کرے تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوسکے۔
پس تحریر......
شفیق مرزا مرحوم
شفیق2 مرزا کل تک سرتاپا حقیقت تھے اب کہانی ہوگئے ہیں۔ ادارتی صفحے کے سینئر سب ایڈیٹر شفیق مرزا سے شناسنائی صرف چند ہفتے پہلے ہوئی۔ وہ شفقت و محبت کا پیرایہ بھی تھے اور کنایہ بھی۔ وہ علم و حلم کا مجسمہ تھے وہ اسم بامسمٰی تھے اور اپنے نام کی طرح شفیق تھے۔ وہ نرم دم گفتگو اور گرم دم جستجو تھے۔ وہ کبھی اپنی ذات کو موضوع گفتگو نہ بتاتے اور نہ ہی اپنی ’’فتوحات‘‘ کا لچھے دار اندازمیں تذکرہ کرتے۔ وہی عالمانہ شان تھی۔ ان کے بارے میں بہت سی باتیں تو مجھے اب معلوم ہورہی ہیں۔ وہ عربی و فارسی اور اردو پر غیر معمولی دسترس رکھتے وہ دسترس کہ آج کے دور میں عنقا ہے۔ وہ نہایت وسیع المطالعہ شخصیت تھے جوں جوں ان کے کمالات علمیہ کے بارے میں معلوم ہورہا ہے توں توں مجھے اپنی محرومی کا زیادہ احساس ہورہا ہے کہ میں ان سے زیادہ کسب فیض نہ کرسکا۔ اللہ مرزا صاحب کو اپنے جوا ر رحمت میں جگہ دے۔ ایک حادثے میں شدید زخمی ہو کر وہ ایک ہفتہ تک حیات و موت کی کشمکش میں مبتلا رہے ان کی آناً فاناً موت سے اس بات پر یقین اور بھی پختہ ہوگیا ہے کہ
حیات و موت میں کچھ ایسا فاصلہ بھی نہیں


.
تازہ ترین