• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اب جبکہ شربت گلہ اپنے اختیار کردہ وطن کو چھوڑ کر اپنے اصلی وطن کی طرف لوٹ چکی ، تو اس سادہ لوح افغان عورت، جو نہیں جانتی تھی کہ پاکستان کا جعلی کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ بنوانا کتنا سنگین قابل ِ تعزیر جرم ہے، کے بارے میں کچھ مخصوص اشتعال انگیز تبصرے سن کر انسان دنگ رہ جاتا ہے ۔ ایک مشہور پاکستانی اینکرسے ایک ٹی وی شو کے دوران ایسا ہی ایک عجیب تبصرہ سننے کو ملا۔ اُس نے الزام لگایا کہ شربت گلہ کا کوئی خفیہ ایجنڈا تھا جو آنے والے دنوں میں سامنے آجائے گا۔ اُس اینکر نے یہ دعویٰ کرتے ہوئے کہ وہ پاکستان کو بدنام کرنے اور اسے نقصان پہنچانے کی کوشش کا حصہ تھی،کہا کہ وہ افغان سفارت خانے اور کچھ مخصوص ایجنٹس کے ساتھ رابطے میں تھی اور اُسے تحقیقات کیے بغیر افغانستان جانے کی اجازت نہیں دینی چاہیے تھی۔ کچھ دیگر کی جانب سے مزید سنگین الزامات سننے کو ملے ۔ اُنھوںنے شربت گلہ کا افغان انٹیلی جنس ایجنسی ، این ڈی ایس اور بھارتی ایجنسی، را سے تعلق ہونے کا دعویٰ کیا۔ یہ بھی الزام لگایا کہ وہ اور دیگر افغان مہاجرین جعلی پاکستانی شناختی کارڈز حاصل کرتے ہوئے پاکستان کو نقصان پہنچانے والی کارروائیاں کرنا چاہتے تھے۔
ان الزامات میںکوئی صداقت نہیں۔ شربت گلہ َان پڑھ ہے اور صرف پشتو زبان ہی جانتی ہے ۔ وہ کاغذ پر اپنے دستخط تک نہیں کرسکتی، اس کی بجائے وہ انگوٹھا لگاتی ہے ۔سیاسی دنیا اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کی فعالیت سے ناواقف وہ ایک ایسی گھریلو عورت ہے جو اپنے شوہر، رحمت گل اور اپنی بڑی بیٹی، روبینہ کی وفات کے بعداپنے چار بچوں ، اپنے بہنوئی اور پاکستان میں مقیم اُن کے خاندانوںکے سوا کسی سے تعلق نہیں رکھتی۔ اس کا اکلوتا بھائی ، کشارخان اور دیگر تین بہنیں افغانستان کے مشرقی صوبے ، ننگرہار میں رہتی ہیں۔
2002ءمیں پشاور میں نیشنل جیوگرافک کے لئے ایک دستاویزی فلم بناتے ہوئے شربت گلہ ، اس کے شوہر اور بھائی سے ملنے اور مشہور امریکی فوٹو گرافر،ا سٹیو میک کری کے ساتھ کام کرنے کے دوران دیکھا گیا کہ شربت گلہ ایک انتہائی شرمیلی افغان عورت ہے جو تصویر بنانے کے لئے اپنے چہرے سے نقاب ہٹانے کے لئے بھی تیار نہ تھی۔ اُس کے اہل ِ خانہ نے بتایا کہ شربت گلہ کئی دن تک ٹھیک طریقے سے کھانا بھی نہ کھاسکی کیونکہ اُس کے شوہراور بھائی نے اُس پر دبائو ڈالا تھا کہ وہ نیشنل جیوگرافک ٹی وی کی ٹیم اورا سٹیو میک کری کو اپنی تصویر یں بنانے اور انٹرویو کرنے کی اجازت دے تاکہ وہ اپنی ایک دستاویزی فلم، جس کا وہ حصہ تھی ، کو مکمل کرسکیں۔اُس دستاویزی فلم نے اس کی زندگی کا 1984 ء میں کھوج لگایا جب وہ ناصر باغ، پشاور میں افغان مہاجرین کے کیمپ میں موجود ایک بارہ سالہ لڑکی تھی اور اس کی تصویر اتاری گئی تھی ۔ اُس تصویر میں چمکدار سبز آنکھوں نے شربت گلہ کو لافانی شہرت عطاکردی جس کی وجہ سے اُسے کبھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑااور کبھی مالی مفاد حاصل ہوا۔
یہ وہ شربت گلہ ہے جسے ہم 2002 ء سے جانتے ہیں ۔ کسی بھی طریقے سے یہ سادہ سی گھریلو خاتون ، جو حالات کے جبر کی وجہ سے اپنے چار یتیم بچوں کو پالنے کی کٹھن ذمہ داری اٹھارہی ہو، جاسوسی کرنے یا پاکستان کو نقصان پہنچانے کا تصور بھی نہیں کرسکتی۔ درحقیقت وہ پاکستان میں مستقل طور پررہنا چاہتی تھی، اسی لئے اُس نے غیر قانونی طریقے سے پاکستان کا شناختی کارڈ حاصل کیا۔ دیگر ہزاروں افغان مہاجرین کی طرح اُس نے سوچا کہ یہ کارڈ اُسے پاکستان میں رہنے کا قانونی جواز مہیا کرے گااور وہ گرفتاری اور ڈی پورٹ کرنے کے خطرے سے بچ جائے گی۔ آخر میں، اگرچہ کافی تاخیر سے ، افغان حکومت نے اُسےسہارا دینے کا فیصلہ کرتے ہوئے وطن واپس آنے کی دعوت دی، اور اسے مالکانہ بنیادوں پر ایک مکان دینے کے علاوہ ہپاٹائٹس سی ، جس میں وہ کئی سالوںسے مبتلا ہے اور اس کے شوہر کا انتقال بھی اسی بیماری سے ہواتھا، کے علاج کا وعدہ کیا ہے ۔
2002 ء میں بھی ایسی ہی سازش کی بازگشت سنائی دی تھی جب پشاور کے قریب ، جہاں افغان مہاجرین کی موجودگی کا ارتکاز تھا، ’’ایک افغان لڑکی کی تلاش‘‘ جاری تھی ۔ تاہم اُس وقت سازش کی تھیوری کے پیچھے پاکستانی نہیں بلکہ ایک شہرت یافتہ برطانوی صحافی کا ہاتھ تھا، جنہوںنے ایک مضمون لکھتے ہوئے ایک عجیب سادعویٰ کیا کہ نیشنل جیوگرافک ٹیلی وژن کی ٹیم اور امریکی فوٹو گرافر اسٹیو میک کری کی ’’افغان لڑکی کی تلاش‘‘درحقیقت القاعدہ کے لیڈر، اسامہ بن لادن کا کھوج لگانے کی کوشش تھی۔ مذکورہ برطانوی صحافی کے مطابق منصوبہ یہ تھا کہ شربت گلہ کو تلاش کیا جائے اور پھر اس کی مدد سے بن لادن تک پہنچا جائے کیونکہ وہ القاعدہ کے لیڈر کی بیویوں اور بیٹیوں کی ٹیچر رہی تھی ۔ کہا گیا کہ اس ساز ش کے پیچھے مبینہ طور پر امریکہ کی صف اوّل کی انٹیلی جنس ایجنسی کا ہاتھ ہے ، تاہم مصنف نے اپنے دعوے کا کوئی ثبوت پیش نہ کیا۔ برطانوی صحافی کا دعویٰ اس لئے بھی بعید ازحقیقت تھا کیونکہ شربت گلہ اپنی زبان میں اپنا نام تک نہ لکھ سکتی تھی، چہ جائیکہ وہ بن لادن کی عربی بولنے والی بیویوں اور بیٹیوںکی ٹیوٹر بن سکتی ۔ یہ خام خیال کے سواکچھ نہ تھا۔ مزید یہ کہ مذکورہ صحافی نے پاکستانی ذرائع سے حاصل کردہ معلومات کی بنیاد پر دورلندن میں بیٹھ کر مضمون لکھ دیا تھا۔ اس مضمون میں اُن سے غلطی ہوگئی تھی، چنانچہ ا س کا بہترین حل یہ تھا کہ اس کا اعتراف کرکے آگے بڑھ جائیںکیونکہ آپ اپنی غلط رپورٹ کو درست ثابت کرنے کی جتنی کوشش کرتے ہیں، اُتنے ہی جھوٹ بولنے پڑتے ہیں۔
اس سے ایک مقامی صحافی یاد آتے ہیں جنہوںنے ایک مرتبہ دعویٰ کیا تھا کہ افغانستان کے کمیونسٹ صدر، ڈاکٹر نجیب اﷲ استعفیٰ دے کر چوری چھپے پشاور آگئے ہیں۔ یہ کہانی درست نہ تھی لیکن وہ روزانہ کی بنیادپر رپورٹ کرتے رہے کہ ڈاکٹر نجیب پشاور میں ہیں اور اپنے مستقبل کے بارے میں پاکستانی حکام سے بات چیت کررہے ہیں۔ کچھ دیر تک اُنھوںنے وہ صحافتی ڈرامے بازی جاری رکھی، لیکن پھر اس سے ہاتھ کھینچ لیا۔ عام طو رپر صحافیوں کی ایسی غلطیوں کو’’بشری غلطیاں ‘‘ قرار دے کر بھلااور معاف کردیا جاتا ہے ۔ بہرحال موجودہ کہانی میں پاکستان نے عالمی شہرت یافتہ شربت گلہ کے ساتھ ہمدردانہ سلوک کرنے کی بجائے اُسے گرفتار اور ڈی پورٹ کرتے ہوئے اچھا رویہ دکھانے کا موقع گنوا دیا ۔ جب اسلام آباد نے اُسے نکال دیا تو کابل نے کھلے دل سے اُس کا استقبال کیا۔ ضروری ہے کہ اُس گھریلوخاتون پر لگائے جانے والے بے بنیاد الزامات کا سلسلہ بند کیا جائے ۔


.
تازہ ترین