• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
دہشت گردی کی ’’اصل جڑ‘‘ اوراس کی حقیقت سمجھنے کی مخلصانہ کوشش ایک طرف، پیرس حملوں کا اُسی طرح کوئی جواز نہیں پیش کیا جاسکتا جس طرح ممبئی اور پشاور حملوں کا۔ مسلمانوں کی ایک بھاری اکثریت دہشت گرد تنظیموں ، جیسا کہ القاعدہ، تحریک ِ طالبان پاکستان اور داعش کی مذمت کرتی ہے۔ تاہم اس دوران ہمیں یہ بات تسلیم کرنی چاہئے کہ توسیع پسندی کی طرف مائل انتہا پسند مذہبی نظریات گزشتہ تین عشروںسے مسلمان معاشروں میں سرایت کرچکے ہیں۔ ان کا مقصد مسلمان ریاستوں پر غلبہ پانا ، مسلمان نوجوانوں کو مذہبی جنون میں مبتلا کرکے باقی دنیا کو فتح کرنے کی طرف قدم بڑھانا ہے۔
جب ہم مغربی پالیسیوں پر تنقید کرتے ہوئے یہ کہتے ہیں کہ دہشت گردی کو بڑھانے کی ذمہ داری مغرب پر عائد ہوتی ہے تواس میں ہمارے سیکھنے کے لئے بہت سے اسباق ہیں۔ یہ بات درست ہے کہ دہشت گردی کے واقعات اور ان کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتیں زیادہ تعداد میں مسلمانوں کے حصے میں آئیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ چاہے شام ہو یا عراق ، لیبیا، افغانستان یا پاکستان، یہاں دہشت گردی کا ارتکاب کرنے والے گروہوں کا فوری مقصد ریاست کو فتح کرکے ’’بھٹکے‘‘ ہوئے مسلمانوں کو راہ ِ راست پر لانا اور’’حقیقی ‘‘ مسلمان بنانا ہوتا ہے۔ مختصر یہ کہ دہشت گردی کافوری نشانہ اسلامی ریاستیں اور مسلمان ہیں۔
اگرچہ ہم مغرب کو مورد ِ الزام ٹھہراتے، بودی دلیلیں دے کربیرونی دنیا کے دل میں مسلمانوں کے لئے مزید تعصب پیدا کرتے ہیں ، لیکن اس دوران ہمیں یہ سمجھ کیوں نہیں آتی کہ القاعدہ اور داعش کی طرح دہشت پھیلانا مغربی اسٹائل نہیں ہے۔ نائن الیون، لندن اور حالیہ پیرس حملوں کے بعد ہماری فوری توجہ اس بات پر ہو گئی کہ اب دنیا بھرمیں مسلمانوں کو ناروا سلوک کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ہمیں شکایت ہے کہ مغربی دنیا اپنی جانوں کی ہماری جانوں کی نسبت زیادہ پروا کرتی ہے۔ ہمیں افسوس ہوتا ہے کہ پیرس میں ہونے والی ہلاکتوں پر بیروت میں ہونے والی ہلاکت کی نسبت زیادہ سوگ منایا جاتا ہے۔ چنانچہ اگر مغرب اپنی جانوں کی قدر کرتا ہے تو ہم اپنی جانوں کی قدر کیوں نہیں کرتے؟ اس بات کی کیا وضاحت ہے کہ جب دہشت گردمسلمان ریاستوں کو ہدف بناتے ہوئے مسلمانوں کو مارتے ہیں تو غم وغصے کی سطح اتنی بلنددکھائی نہیں دیتی؟
اسی طرح یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ ایک عشرے تک دہشت گرد نہتے عوام کا خون بہاتے رہے، پچاس ہزار سے زائد قیمتی جانیں ضائع ہوگئیں لیکن آرمی پبلک اسکول پشاور پر حملے کے نتیجے میں ہی فوج نے ریاست پر حملہ کرنے والے دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کرنے کے لئے اتفاق ِ رائے پیدا کرا یا؟اُن پچاس ہزار شہریوں کی جان کو اتنا بے وقعت کیوں سمجھا گیا؟اسلام آباد کی مسجد کے ایک مولانا کی طرف سے آتشیں نظریات پھیلانے کی وجہ سے مسلمانوں کی ایک اسلامی ریاست میں جانیں خطرے میں نہیں پڑرہیں؟کئی لوگ یہ سوال اٹھا سکتے ہیں کہ کیا اس میں بھی مغرب کی سازش ہے جو ہم پر مولانا عبدالعزیز کو مسلط کرتے ہوئے مسلمانوں کے لہو کواس قدر ارزاں ثابت کیا جارہا ہے؟
ہم میں سے بہت سے یہ نکتہ اٹھاتے ہیں کہ امریکی قیادت میں مغربی کولیشن فورسز کے اسلامی ریاستوں پر حکومتیں تبدیل کرنے کے لئے کئے جانے والے حملوںنے عراق، شام اور لیبیا میں ریاستوں کی عملداری کو ختم یا کمزور کردیا۔ اس سے پیدا ہونے والے خلامیں دہشت گردگروہوں کو پنپنے اور اپنے محفوظ ٹھکانے قائم کرنے کاموقع ملا۔ اس کی سب سے بڑی مثال داعش ہے جس نے شام اور عراق کی حکومتوں کی کمزوری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک بڑے حصے پر اپنی اسلامی خلافت قائم کی اور اب یہ قدم آگے بڑھانے کے لئے دنیا بھر سے مسلمان نوجوانوں کو اپنی طرف راغب کررہی ہے۔ بہت سے لوگ یہ دلیل بھی دیتے ہیںکہ یورپ کو لاحق خطرہ دراصل یورپ میں ہی رہنے والے ایسے مسلمان گروہوں کی طر ف سے ہے جنہیں تعصب کی بنا پر مرکز ی دھارے سے الگ کردیا گیا۔ ایسے نوجوان اب داعش کی طرف کشش محسوس کررہے ہیں۔
اگر حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے سوچیں تو کیا اسی منطق کا اطلاق پاکستان پر نہیں ہوتا؟ ہم 80اور90کی دہائیوں سے فاٹا میں جہادی دستوں کو پناہ دئیے ہوئے تھے، تاہم نائن الیون کے بعد وہ ہمارے دشمن بن گئے اور دہشت گردی کی کارروائیاں شروع کردیں۔ اس کے بعد ہم نے فاٹا میں فوج بھیج دی لیکن بھرپور کارروائی کرنے کی بجائے اُن کے ساتھ مختلف معاہدے کرنے کا سلسلہ شروع کردیا۔ گاہے بگاہے اُن کے ساتھ لڑائی بھی ہوتی رہی۔ کیا قومی سلامتی کی ایسی ناقص، بلکہ تباہ کن پالیسیوں نے فاٹا میں روایتی قبائلی اور سول اتھارٹی کو تحلیل کرتے ہوئے وہاں خلا پیدا نہیں کیا؟ پاکستان نے اس خلاکو پرُ کرنے کے لئے کیا کیا؟کیا قبائلیوں کو پاکستانی شہریت دینے کے لئے سیاسی پالیسیاں آگے بڑھائی گئیں؟
ہم جانتے ہیں کہ امریکہ، یورپ، ترکی اور ایک برادر عرب ملک شام میں اسد حکومت کے خاتمے کی کوشش کررہے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ خطے میں داعش کو تقویت دینا بھی مبینہ طور پر اسی کوشش کا حصہ ہے ۔ اس الائنس کی پہلی ترجیح اسد حکومت کا خاتمہ ، اور پھر اس کے مضمرات، داعش، سے نمٹنا ہے۔ اس دوران روس اور ایران اور حزب اﷲ اسد کے ساتھ کھڑے ہیں۔ایسا لگتاہے کہ اس خطے میں اب روس اور امریکہ کے درمیان ایک نئی پراکسی جنگ ہونے جارہی ہے۔ اس مرتبہ اس کا تھیٹر مشرق ِ وسطیٰ ہوگا۔ اس کا جوبھی نتیجہ ہو، ان طاقتوں کے درمیان تنائو کا فائدہ صرف داعش کوہوگا۔
جو بھی اس کھیل کو سائڈلائن سے دیکھ رہا ہے ، وہ جانتا ہے کہ مسابقت پر آمادہ عالمی طاقتوں کی ترجیح داعش کو شکست دینا نہیں۔ اگر ایسا ہوتا، امریکہ اس خطے میں دیگر انتہا پسند گروہوں کو ہتھیار فراہم نہ کرتاجو آخر کار داعش کے پاس ہی پہنچتے ہیں۔ اور نہ ہی ترکی داعش کی ’’معیشت‘‘ کو تقویت دینے کے لئے اُس سے تیل خریدتا اور روس،امریکہ، فرانس اور ترکی اپنے اپنے مقاصد کے لئے شام پربمباری نہ کرتے۔ ایک سادہ لوح شخص کے لئے مغربی اور اسلامی ریاستوں کی متضا د پالیسیوں کے نتیجے میں داعش جیسے گروہ وجود میں آتے اور ان ممالک کے شہریوں کو نقصان پہنچاتے ہیں ؟ نظر آتا ہے کہ پہلے افغان جہاد کے دوران امریکہ نے اچھے اور برے جہادیوں کے درمیان امتیاز برتا۔ اس امتیاز کی بنیاد اس بات پر تھی کہ جو دشمن(سوویت فورسز) پرحملہ کرے ، وہ اچھے طالبان ، اور جو ایسا کرنے سے انکار کردیں، وہ برے طالبان۔ آج ایک مرتبہ پھر امریکی مشرق ِوسطیٰ میں بالکل یہی غلطی کررہا ہے۔ الزام لگایا جاتا ہے کہ پاکستان نے بھی عشروں سے یہی غلطی کی ہے۔ یہ بھی اچھے اور برے نام نہاد جہادیوں کی الجھن میں رہا ہے۔ اس دوران جو بات نظر انداز کر دی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ یہ جنگجو کوئی عام مجرم نہیں، یہ نظریات سے مسلح گروہ ہیں اور ان کی اساس ایک ہی ہے۔ ایک مرتبہ جب کسی کوبرین واشنگ کے بعد تربیت دے کر جنگجو بنادیا جاتا ہے تو پھر اس کی واپسی ناممکن ہوجاتی ہے۔ اس کے باوجود ہم اُن میں سے کچھ کو اچھے قرار دے کر اُنہیں کنٹرول کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ اس کے لئے القاعدہ کے مصری رہنما کی مثال لے لیں۔ اُس نے افغانستان میںجہادی دستے تربیت دے کر امریکی فورسز پر حملےکئے اور اسی نے نے عراق میں شیعہ سنی تصادم کی راہ ہموار کی۔ اس کے عراق کے گروہ نے ہی بعد میں داعش کی شکل اختیار کی۔ ایک اور مثال الیاس کشمیری کی ہے۔ وہ بھی نظریاتی جہادی تھاجس کے اہداف کشمیر سے لے کر افغانستان تک اور پاکستانی سیاست دانوںسے لے کر فوجی افسران تک پھیلے ہوئے تھے۔ یاد رہے، کسی فعال اور غیر فعال دہشت گردکے درمیان تمیز کرنا کم و بیش ناممکن ہے۔ ایسے گروہوں کو اثاثے قراردینا انتہائی بھیانک غلطی ہے جس کی سزا ہم نے بہت بھگتی ہے۔
تازہ ترین