• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان میں جمہور اور جمہوریت کی جنگ اشرافیہ اور عوام کے درمیان تیز ہوتی نظر آتی ہے۔ دنیا بھر میں اچھی طرز حکومت کسی نظریے سے وابستہ نہیں ہے بلکہ اس کا تعین مارکیٹ اکانومی کرتی ہے کہ اگر ملک کی معیشت مضبوط ہے تو طرز حکمرانی عوام کے حق میں ہوگی۔ اگر ملک کی معیشت اور کاروبار زوال پذیر ہو تو طرز حکمرانی مشکوک اور جمہوریت مخدوش ہو جاتی ہے اس وقت ملک میں سرمایہ کاری کا فقدان ہے جبکہ بنکوں کی شرح سود اس وقت سب سے کم سطح پر ہے۔ کوئی ملکی سرمایہ دار، ادارہ یا سرکار سرمایہ کاری میں دلچسپی نہیں لے رہے جبکہ ملک بھر میں عوام کو بھی کاروبار کے معاملات میں مشکلات کا سامنا ہے۔ حالیہ دنوں میں ملک میں ٹیکس دینے والوں کی تعداد بڑھانے کے لئے جو طریقے اختیار کیے گئے۔ اس سے تمام طبقات فکر مند و پریشان ہیں اور اسی وجہ سے بنکوں میں لین دین کا نظام بھی متاثر ہوتا نظر آرہا ہے۔ جبکہ اس مشکل صورت حال کے درمیان وزیر خزانہ نے ٹیکس کے محکمہ میں بڑی تبدیلیاں بھی کردی ہیں۔
میاں نوازشریف نے جب سے حکومت کی باگ ڈور سنبھالی ہے وہ منصوبہ بندی کے فقدان کی وجہ سے مشکلات کا شکار ہیں۔ سب سے اہم مشکل تو ان کو سیاست دانوں اور اشرافیہ سے ہے۔ ان کو اپنے ساتھ رکھنے کی قیمت ان کی ساکھ کو خراب کررہی ہے۔ ان کی اپنی کابینہ ایک دوسرے سے شیر و شکر نہیں ہیں۔ میاں نوازشریف سرکار کا سب سے بڑا مسئلہ اہم فیصلوں کی تاخیر کا ہے۔ کئی معاملات میں عدالتی عمل بھی میاں صاحب کی رہنمائی کرتا نظر آیا۔ مگر کتنے ہی اہم معاملات تاخیر کا شکار ہیں مرکزی حکومت کے کافی محکمہ جات سیکرٹری کی سطح کے سربراہوں سے عرصہ دراز سے محروم ہیں۔ پھر نوکر شاہی بھی اشرافیہ اور سیاست دانوں کے حسن سلوک سے خوش نظر نہیں آتی۔ خود نوکر شاہی کا رویہ بھی عوام سے احترام آمیز نظر نہیں آرہا۔
پھر میاں صاحب اوران کی کابینہ کو پاکستان کے میڈیا سے بہت ہی شکایات ہیں۔ اگرچہ میڈیا پوری کوشش کرتا ہے کہ خبر کی حیثیت متاثر نہ ہو اور فریقین کا نقطہ نظر عوام کو معلوم ہو۔ حالیہ دنوں میں بنیادی سطح کے شہری اور دیہی حلقوں میں جو انتخابات ہوئے اور ہورہے ہیں اس میں میڈیا نے بڑا موثر کردار ادا کیا اور کئی ایسی خبروں کا تذکرہ بھی ہوا جن پر حکومت کی جانب سے فوری توجہ دینا ضروری تھا مگر سرکار بے بس ہی نظر آئی۔ اس تمام صورت حال میں الیکشن کمیشن کے کردار پر کئی سوال اٹھائے گئے۔ الیکشن کمیشن کا رویہ روایتی نوکر شاہی کا سا رہا ہے۔ اس کو اپنی خودمختاری کا اندازہ نہیں ہے۔ پھر ان کے پاس جو انتخابات کے حوالے سے مقدمات آتے ہیں وہ بھی تاخیر کا شکار ہیں اگرچہ اب چیف الیکشن کمشنر سردار رضا نے اپنی پالیسی بھی واضح کردی ہے۔ ملک کی اعلیٰ ترین عدالت نے الیکشن کمیشن کو اپنے اختیار استعمال کرنے کی مکمل آزادی بھی دے دی ہے۔ الیکشن کمیشن بھی ملک کے دوسرے اداروں کی طرح کمزور اور مشکلات کا شکار ہے۔ اگر ان انتخابات میں الیکشن کمیشن نے اپنی حیثیت منوا لی تو الیکشن کمیشن آنے والے دنوں میں جمہوریت کے لئے کچھ کردار ادا کرسکے گا۔ جبکہ جمہوریت کا پرچار کرنے والے لوگ عوام کی نظر میں قابل اعتماد نظر نہیں آتے۔ اس کے باوجود نظام کی بقا کے لئے ایسے تجربات کرنا ضروری ہیں۔ خواہ ان سے عوام مزید پریشان ہوتے ہوں۔
اس وقت سرکار کو ایک اور اہم مسئلے پر یکسوئی کی ضرورت ہے مگر حکومت کی بے چینی سیاست میں انتشار پیدا کردیتی ہے۔ اس وقت میڈیا میں بحث ہے کہ کیا عسکری ادارے اور سرکار ایک پیج پر ہیں۔ اگرچہ عسکری دوست اس معاملے پر اپنی رائے کا اظہار کر چکے ہیںلیکن سرکار کے ایوانوں میں ردعمل مثبت نظر نہیں آتا۔ پھر اس پر وزیر خزانہ کا بیان بھی موقع کی مناسبت سے نہیں تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’ضرب عضب پر بہت خرچ آرہا ہے مگر دوست فقط وعدہ کرتے ہیں دیتے کچھ نہیں‘‘۔ ضرب عضب دہشت گردی کی جنگ کے لئے اہم ترین کارروائی ہے اور فوج کو کامیابی بھی حاصل ہے اور ملک میں دہشت گردی کو کافی حد تک کم کرلیا گیا ہے مگر اس دہشت گردی کو فروغ دینے والے معاشی سہولت کاروں کے خلاف سول سرکار کوئی مؤثر کار روائی کرتی نظر نہیں آتی۔ اس ہی معاملے پر عسکری حلقے نے توجہ دلوائی تھی۔ مگر ردعمل میں وزیر خزانہ نے جو کچھ کیا وہ وقت کے تقاضوں کے مطابق دکھائی نہیں دیا ۔جبکہ ملک کے معاشی معاملات میں بھی شفافیت نظر نہیں آتی۔ جو بھی معاہدے حکومت کرتی رہی ہے ان کے بارے میں کوئی بھی مسودہ قومی اسمبلی میں پیش نہیں کیا گیا۔
قومی اسمبلی کی پبلک اکائونٹس کمیٹی ڈھائی سال گزرنے کے باوجود کوئی ایسی کارروائی کرنے سے قاصر ہے جس سے معلوم ہوسکے کہ عوامی اور قومی مفاد میں کرپشن کو ختم کرنے میں اس کا کردار سنجیدہ ہے۔ اس کمیٹی کے سربراہ حزب اختلاف کے لیڈر خورشید شاہ ہیں۔ ان کا رویہ اور کارکردگی انتہا درجہ مایوس کن ہے اور سب سے اہم معاملہ یہ ہے کہ جن معاملات کی بدنظمی یا بدانتظامی میں ان کانام آتا ہے اس معاملے پر بھی ان کو جج بنا دیا گیا ہے۔ یہ ہے جمہوریت کا قانون ۔ ایسے میں اچھی طرز حکومت کا تصور بھی کیسے کیا جاسکتا ہے پھر جب وزیراعظم ایک ہی جملے میں کئی لوگوں کو لپیٹ لیتے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ سرکار کو اپنے آپ پر اعتماد نہیں ہے۔ حکومت اسٹیل مل کے سلسلے میں قوت فیصلہ سے محروم ہے۔ نندی پور کی تحقیقاتی رپورٹ آچکی ہے۔ اس پر وزیر پانی و بجلی کا ردعمل بڑا حیران کن ہے ایک طرف ان پر مناسب توجہ نہ دینے کا الزام لگ رہا ہے پھر صوبے کے خادم اعلیٰ پر بھی انگلی اٹھائی جارہی ہے مگر سب کچھ ہونے کے باوجود سرکار کوئی ایسی کارروائی کرنے پر تیار نہیں جس سے اندازہ ہوسکے کہ وہ سنجیدگی کے ساتھ معاملات کو درست کرنا چاہتی ہے۔
چند دن پہلے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے بھی سول سرکار کو مشورہ دیا ہے کہ طرز حکمرانی کی سمت درست نہیں ہے جس کی وجہ سے ملک میں عدم برداشت کو فروغ ملا ہے اور بدنظمی نے ملک کا مستقبل دائو پر لگا دیا ہے پھر جمہوری ناخدائوں نے اسمبلی اور سینیٹ سے 18 وی ترمیم منظور کروا کے صوبوں کو امتحان میں ڈال دیا ہے۔ اس وقت کئی محکمے اب صوبوں کی ذمہ داری ہیں۔ اس سلسلے میں کوئی منصوبہ بندی اور پیش رفت نہیں ہے اور سب سے زیادہ صحت اور تعلیم کے معاملات خراب نظر آرہے ہیں۔ سرکاری اسکولوں کا نظام برباد ہو چکا ہے۔ نصاب تعلیم پر زبانی جمع خرچ کے علاوہ کچھ بھی نظر نہیں آتا ابھی جو رپورٹ تعلیم کے بارے میں اور اسکولوں کی حالت زار پر آئی وہ ایک چارج شیٹ ہے۔
ملک بھرمیں ترقیاتی اخراجات پسند اور ناپسند کی بنیاد پر کیے جارہے ہیں حکومت کا دعویٰ تو یہ ہے کہ ملک میں مہنگائی کم ہوئی ہے مگر دوسری طرف غریب لوگوں میں اضافہ نظر آتا ہے۔ ملکی آبادی میں پڑھے لکھے لوگوں کی تعداد کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ پھر ملازمتوں کا فقدان ہے جس کی وجہ سے معاشرے میں جرائم کا اضافہ ہورہا ہے اور جو لوگ سرکار کی نوکری کر بھی رہےہیں ان کے وسائل کم ہیں مگر ان کی زندگی گزارنے کا انداز شاہانہ ہے۔ ایسے میں لوگ سرکار پر کیسے بھروسہ کرسکتے ہیں۔ عوام بولنے سے محروم اور دیکھنے سے معذور ہوتے جارہے ہیں۔ اگرچہ میڈیا کوشش کرتا ہے کہ وہ سرکار کی رہنمائی کرسکے۔ یہ سب کچھ ملک کے مستقبل کو مشکوک بنا رہا ہے۔ اگر اب بھی سرکار نے اپنی روش نہ بدلی تو یہ جمہوریت اور جمہور ہی اشرافیہ اور سیاست دانوں کو نشانہ ستم بنا دینگے۔ ہمارے حکمرانوں کو اپنا آپ بدلنا ہوگا۔ رسل کا کہنا ہے کہ ہمارے پاس دو قسم کی اخلاقیات ہیں ایک وہ جس پر ہم عمل کرتے ہیں اور دوسری وہ جس کی ہم صرف تبلیغ کرتے ہیں پتہ نہیں کیوں گونگوں سے کہا جاتا ہے بہروں کو پکارو۔
تازہ ترین