• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ابھی ان حقائق کا پتہ لگنا باقی ہے کہ خیبرپختونخوا میں آنے والا دور سابق وزیرداخلہ آفتاب احمد خان شیرپائو کی جماعت قومی وطن پارٹی کا ہے اوراس جماعت کو وہی کردارملنے والا ہے جواس سے قبل پختون قوم پرستی کی بنیاد پرعوامی نیشنل پارٹی کا تھایعنی وہ صوبے میں حکومت بنانے کے معاملے میں ڈرائیونگ سیٹ پرہوگی اگرایسا ہواتویہ کوئی انہونی نہیں ہوگی کیونکہ جس طرح موجودہ دورحکومت میں قومی وطن پارٹی نے اپنی شرائط منواکرتحریک انصاف کی حکومت میں دوبارہ شمولیت اختیارکی ہے اس سے ایک بات توثابت ہوگئی کہ قومی وطن پارٹی تعداد میں کم ہی سہی لیکن اس نےاپنی قوت کومجتمع رکھا ہے وہ کم ازکم تحریک انصاف کے مقابلے میں توزیادہ منظم ہے جسے صوبے میں حکومت کے قیام کے پہلے دن سے ہی بیرونی سے زیادہ اندرونی انتشار کا سامنا ہے اس چھوٹی جماعت نے پرویزخٹک کی قیادت میں بننے والی تحریک انصاف کی حکومت کو یہ سبق بھی دیا کہ توقع توپرویزخٹک سے کی جارہی تھی کہ وہ اپنی کابینہ میںکسی خاتون کووزیربنائیں لیکن یہ اعزازبھی اس "چھوٹی" جماعت قومی وطن پارٹی کے حصے میں آیاجس نے موجودہ دورحکومت میں پہلی بارانیسہ زیب طاہرخیلی کووزیربنایااورتحریک انصاف منہ دیکھتی رہ گئی، اب اس کے بعد اگرکبھی تحریک انصاف کی حکومت اس حوالے سے کریڈٹ لینا بھی چاہے گی تووہ دراصل آفتاب خان شیرپائوکی جماعت کی تقلید ہی کررہی ہوگی۔ بات ہورہی تھی تحریک انصاف سے چھوٹی جماعت قومی وطن پارٹی کی کہ سال 2013کے عام انتخابات میں بھی جب عوامی نیشنل پارٹی اورپیپلزپارٹی کوکارکردگی یا دیگروجوہ کی بنا پرعوام کامینڈیٹ نہ مل سکا توقومی وطن پارٹی ایسی جماعت تھی جس نے نہ صرف سیٹیں نکال لیں بلکہ صوبے میں بننے والی حکومت میں حصہ داربھی بن گئی وہ دوسری بات ہے کہ تحریک انصاف کے ساتھ اس کے اتحاد کی یہ بیل منڈھے نہ چڑھی اورحکومت سازی کے چند ماہ بعد ہی تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے ببانگ دہل قومی وطن پارٹی پرکرپشن کے الزامات لگاکراس کے ساتھ اتحاد ختم کردیااورایسا کرتے وقت عمران خان کے لہجے میں جوکڑواہٹ اورزبان میں سختی سامنے آئی اس سے سب اس بات کو سمجھ گئے تھے کہ وہ قومی وطن پارٹی کواپنی جماعت سے چھوٹی سمجھ کراس کی تضحیک کررہے ہیں۔ پورے ملک میں تحریک انصاف کے ٹائیگرزنے اس بات کو اپنے لئے کریڈٹ جانا اوراس عمل کو مثال بنا کرکافی عرصے تک اس کواپنی سیاست کا بنیادی نقطہ بھی بنایا ۔ قومی وطن پارٹی کو نہ صرف حکومت سے نکالاگیا بلکہ عمران خان نے کنٹینرپراورہرجگہ اس کا چرچا بھی کیاکہ قومی وطن پارٹی کے وزیرچوراورکرپٹ ہیں ۔ جبکہ قومی وطن پارٹی کی قیادت نے روایتی سیاست کے مطابق عمران خان کے خلاف زبان نہ کھول کراس بات کا ثبوت دیا کہ وہ اسمبلی میں عدد کے اعتبارسے اگرچہ کم ہیں لیکن وہ تحریک انصاف کے مقابلے میں زیادہ بہترسیاسی سوجھ بوجھ اوربالغ سوچ کی حامل ہے پھرآسمان نے وہ منظربھی دیکھا کہ تحریک انصاف کے وزیراعلیٰ پرویزخٹک اپنی حکومت کی کارکردگی بہتربنانے اوراس کی ساکھ کوبچانے کے لئےاسی چھوٹی جماعت کے پاس دوبارہ اتحاد کی درخواستیں لے کرجاتے رہے بلکہ عمران خان کو بھی سمجھایا تاکہ دونوں پارٹیوں کوایک دوسرے کے بارے میں راضی کیا جاسکے۔
تحریک انصاف کیوں ایسا کرتی رہی اسمبلی میں سب سے زیادہ اراکین اورجماعت اسلامی وعوامی جمہوری اتحاد کے ساتھ اتحاد کے ہوتے ہوئے وہ واضح اکثریت کی حامل بھی ہے لیکن اسے پریشانی کیا لاحق تھی کہ وہ قومی وطن پارٹی کے پاس جانے اوراسکی تمام شرائط ماننے پرمجبورہوئی وجہ واضح ہے کہ تحریک انصاف کے اراکین میں ایسے افراد کی کمی واضح طور پر محسوس کی جاتی ہے جو اسمبلی میں فعال،متحرک اور دبنگ کرداراداکرسکیں، سیاسی ناپختگی بھی ایک ایسی وجہ ہے جس کاپارٹی کوسامنا ہے وزراء کی کارکردگی بھی ایسی نہیں جو زیادہ دیرانہیں اپنے محکموں کیساتھ اٹکارہنے دے۔ صوبے میں وزارتوں کی تقسیم اوربلدیاتی انتخابات میں اپنوں کو نوازنے کی پالیسی نے صوبائی اسمبلی میں موجود اراکین کا پارٹی پرسے اعتماد قائم رہنے نہیں دیا۔ ملک کے دوسرے تین صوبوں اوراسلام آباد میں بیٹھ کریہ بات کہناکافی آسان ہے کہ صوبے میں تحریک انصاف کے اصولی لوگوں کی نہ صرف حکومت ہے بلکہ طرزحکمرانی کے میدان میں یہ حکومت باقی صوبوں کے مقابلے میں سب سے اعلیٰ کارکردگی کی بھی حامل ہے لیکن کیا ان لوگوں کو اس بات کا پتہ ہے کہ صوبے کی تاریخ میں تحریک انصاف وہ جماعت ہے جوصوبائی اسمبلی میں موجوداپنے اراکین پراتنا اعتمادنہیں کرسکتی کہ اکثریت ہونے کے باوجود بھی وہ ڈپٹی ا سپیکرکی خالی نشست پر انتخاب ہی کراسکے کیونکہ خود پرویزخٹک کو اس بات کا یقین نہیں کہ پارٹی کے تمام ایم پی ایزپارٹی کے امیدوارکوہی ووٹ دینگے۔ حکومت کی کمزوری کی حالت تویہ ہے کہ گڈگورننس کے ثبوت کے طورپروہ پولیس کومثال بناکرپیش کرتے ہیں لیکن جرائم اس مثالی پولیس کی موجودگی کے باوجود خوب آب وتاب کے ساتھ جاری رہنے کی وجہ نہیں بتائی جارہی۔ منشیات کا وسیع وعریض کاروبار اور غیرملکی اورغیرقانونی اشیاء کی اسمگلنگ، قماربازی اورقحبہ خانوںکوماضی کی روایتی پولیس ختم کرسکی اورنہ ہی یہ بدلی ہوئی پولیس جس کی نہ ختم ہونے والی مثالیں تحریک انصاف کاہرچھوٹا بڑا رہنما دیتے نہیں تھکتا۔صوبائی حکومت نے اپنا ہی احتساب کرنے کا کریڈٹ لے کراحتساب کا قانون بنایا لیکن جب کارروائیاں شروع کیں تب یاد آیا کہ اس قانون پرعمل درآمد کرنے میں تووہ خود بری طرح سے پھنس چکی ہے اس کے گردانے ہوئے ’’مجرموں‘‘ میں سے کسی پرجرم ثابت نہ ہونا اورقانون میں سقم خود حکومت کے گلے پڑچکے ہیںاوریہ صرف ایک قانون نہیں بلکہ اسپتالوں میں ادارہ جاتی پریکٹس سے لے کررائٹ ٹوانفارمیشن اورہرقانون نظام کوچلانے میں مدد کی بجائے رکاوٹ کا باعث بن رہا ہے یہی صوبائی حکومت بلدیاتی انتخابات کرانے کا کریڈٹ بھی لیتی ہے لیکن کوئی بتا سکتا ہے کہ اتنے ماہ گزرنے کے باوجود وزیراعلیٰ پرویزخٹک اس نظام میں منتخب ہونے والوں سے کوئی کام کیوں نہیں لے پائے۔ بہت سے ایسے سوالات کے جواب دینا ابھی باقی ہے اس سارے تناظرمیں ایک بات جووثوق سے کی جاسکتی ہے وہ یہ ہے کہ تحریک انصاف جس بہترقانون سازی کا کریڈٹ لیتی رہی آج انہی پرعمل درآمد نہ کرنا اس کے گلے کی ہڈی بن چکا ہے ہاں اس کے اتحادیوں نے اسے ایک میدان میں پچھاڑدیا ہے وہ ہےکسی خاتون کووزارت دینا، جس پروہ بجا طورپرمبارکباد کے مستحق ہیں جبکہ تحریک انصاف اب بھی اپنے انتخابی منشورپرعمل درآمد کے میدان میں وہیں کھڑی ہے جہاں سے اس نے وہ سفرشروع کیا تھا جس کا ابھی شاید پہلا ہی قدم لینا باقی ہے۔
تازہ ترین