• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کوئی شبہ نہیںکہ وزیرداخلہ معاشرے کی تطہیر کےلیے انتہائی سنجیدہ ہیں۔اس کےلیے وہ کچھ بھی کرنے کےلیے تیارہیں۔برائیوں کا خاتمہ ان کی سیاسی زندگی کا بنیادی مقصد ہے۔اداروں کو گندگی سے پاک کرنے اور حرام خوروں کا صفایاکرنے کے مقصد کے حوالے سے ان کی نیک نیتی پر شبہ نہیں کیا جاسکتا اور اپنے ان مقاصد کے حصول کےلیے وہ بیوروکریسی کا سہارا لینے پر مجبور ہیں یقیناًجن میں ایسے افسران بھی شامل ہوں گے جو "کارکردگی "سے زیادہ "کارگزاری"پر یقین رکھتے ہیں۔ان کے اعمال سے غلطیوں کی گنجائش موجود ہوتی ہیںجن کا علم "کارگزاری" پر یقین رکھنے والوں کو بخوبی ہوتا ہے۔جس کے نتیجے میں قیادت کے بنیادی مقاصد کی ساکھ کو نقصان پہنچ سکتاہے۔اس تمہید اور تحریر کا مقصد گندگی کے خلاف چلائی جانے والی مہم کو نقصان پہنچاناہرگزنہیں اور نہ ہی درست کام کرنے والوں کے حوصلے پست کرنا ہے۔بلکہ ایسے بے گناہ اور معصوم لوگوں کو بچانا ہے جنہوں نے عبادت سمجھ کر ملازمت کی اور بچوں کی رگوںمیں رزق حرام نہیں جانے دیا۔تنقیدبرائے تعمیر کے تناظرمیںیہاںاس غیرقانونی عمل کی نشاندہی ضروری ہے جس میں گزشتہ دنوں کپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے)کے 42اعلیٰ اور ادنیٰ ملازمین کے خلاف قانونی تقاضے پورے کیے بغیر مقدمات قائم کردیے گئے۔ جنہیں تحقیقات کے عمل سے نہیں گزارا گیاتھا۔شائد معصوم اور مجرم میں تمیزنہ کرنے اور"کارگزاری"پر یقین رکھنے والوں کے مقاصد کچھ اورہوںلیکن وزیرداخلہ کی ترجیحات یقیناً معصوم لوگوں کوانصاف دلاناہے۔انصاف کرنے والوں کا ایمان ہے ایک معصوم اور بے گناہ کو بچانے کے لیے کی کئی گناہنگاروں کو نظر انداز کیا جاسکتا ہے لیکن اس ایف آئی آر میں ایسے کئی بے گناہوں اور معصوم لوگوں کے نام شامل ہیںجن کی ایمانداری کی گواہیاں موجود ہیں۔یہاں کے لوگ اس بات کے ضامن ہیں کہ انہوں نے عبادت کی طرح ملازمت کی اور پاکدامنی میں اس حد تک قائم رہے کہ وہ اپنی پوری سروس کے دوران رشوت کے طور پر ایک چائے کی پیالی کے بھی روادار نہیںتھے۔لیکن ان پاکدامن اور ایماند ار افسروں کو کسی تفتیش کے بغیر بے توقیر کر دیا گیا۔ایف آئی آر کے ایک خانے میں قانون اور انصاف کا اس تحریر کے ساتھ تمسخر اڑایا گیا کہ "I shall investigate the case."یہ جملہ انصاف کو طاقت کی زور پر کچلنے کی علامت ہے۔ان معصوم لوگوں کو ان حالات میں بھی انصاف کی توقع ہے لیکن ان کی وزیرداخلہ تک رسائی نہیںہے۔اس کے علاوہ ان کی آواز سننے والا کوئی نہیں کیونکہ کارگزاری دکھانے والے بڑے طاقتور ہیں۔اس ایف آئی آر میں ایک ایسے عمر رسیدہ "ملزم"کا نام بھی موجود ہے جو صرف 23روز انفورنسمنٹ میں اسسٹنٹ ڈاریکٹر رہا اور اس پر میں غیر قانونی کچی آبادیاں قائم کرنے کا الزام ہے۔اس عمر رسیدہ شخص کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ اس نے انتہائی ایمانداری کے ساتھ مدت ملازمت پوری کی اور چند ماہ قبل ریٹائرڈ ہو گیا۔لیکن "کارگزاری"دکھانے والوں نے اس کی عزت تار تار کردی اور مدتوں کی ریاضت برباد کر دی۔اس فہرست میں ڈائریکٹر کے عہدے کے ایک افسر کانام بھی شامل ہے جس نے اسلام آباد کی ضلعی انتظامیہ میں بھی مختلف مناصب پر کام کیا اور ایمانداری پر حرف نہیں آنے دیا۔یہی پاکدامنی اس نے سی ڈی اے میں بھی قائم رکھی ۔دو سال قبل صرف چھ ماہ تک انفورنسمنٹ میں ڈائریکٹر کے عہدے پر فائض رہنے والے اس افسر کے ریکارڈپر درجنوں کچی آبادیاںگرانے کا اندراج تو موجود ہے لیکن بنانے کا نہیں۔بے گناہوں کی نشاندہی کرنے کا مقصد ہرگز یہ نہیں ہے کہ کرپٹ عناصر کو بھی معصوموں کی فہرست میں شامل کر لیا جائے اور کرپشن میں ملوث لوگوں کو معاف کر دیا جائے۔ ظاہر ہے اسلام آباد میں کچی اور غیر قانونی آبادیوں کی تعمیرکی راہ ہموار کرنے والے بدعنوان اور راشی افسر موجود ہیںلیکن انہیں علحیدہ کرنا قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ذمہ داری ہے۔جس کے لیے ایف آئی آرمیں ملزموں کی نامزدگیوں سے پہلے تحقیقات ضروری تھیں لیکن کیا مقدمات درج کرنے اور گناہنگاروں اور بے گناہوں کو گرفتار کرنے سے قبل تحقیقات کا عمل مکمل کیا گیا۔اس سوال کاجواب نفی میں ملتا ہے۔اور "کارگزاری"دکھانے والوں کے ان غلط اقدامات کا خمیازہ حکومت کو بھگتنا پڑے گا۔
تازہ ترین