• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
The Scent Of Hope And Love Poet Parveen Shakir

پروین شاکر اگر آج اس فانی دنیا میں جسمانی طور پر موجود ہوتیں تو وہ اور ان کا پیارا بیٹا مراد ان کی چونسٹھویں سالگرہ منا رہے ہوتے۔ پروین شاکر کی شاعری میں مجھے یہ تین عناصر تواتر سے ملتے ہیں ۔محبت،امید اور خوشبو۔تقریباً اکیس برس پہلے جب میں شعبہ ابلاغیات جامعہ پنجاب کا طالب علم تھا، پروین کی پہلی برسی پر میں نے لاہور میں پہلی مرتبہ پروین شاکر ایوارڈ کی تقریب منعقد کروائی تھی۔ اسی عنوان کے تحت۔۔’محبت امید اور خوشبو‘ مہمان خصوصی اورینٹل کالج پنجاب یونیورسٹی کے سابق سربراہ پروفیسر ڈاکٹر تحسین فراقی تھے۔ڈاکٹر مغیث الدین شیخ اور تحریک پاکستان کے ممتاز رہنما میاں منظر بشیر بھی موجود تھے‎۔ پروین شاکر چوبیسویں صدی کے نصف آخر میں دریچہ گل سے ”خوشبو“ لے کر اُتری اور اکیسویں صدی کے طلوع ہونے سے پہلے ہی ”ماہ تمام“ کی صورت ہوا کا رزق ہوئی جس کی شاعری نے شہر بے در کے طلسم میں قید لڑکی کی بے نوائی کو زبان بخشی جس نے اُردو شاعری میں ایک نئے لہجے‘ ایک نئی روایت اور نئے آہنگ کی بنیاد رکھی۔ ‎زبان کوئی بھی ہو خوشبو کی‘ بھلی ہو گی۔پروین شاکر ایک حساس ماں بھی ہے اور مائیں مایوس نہیں ہوتیں۔ شاید اسی لئے وہ بھی مایوس نہیں ہے۔ اس کی گہری آنکھیں کسی روشن فردا کا منظر دیکھتی ہیں کہ جس میں اس کے ”مراد“ (گیتو) کو سچ بولنا ہے‘ احسان کرنا ہے‘ پیار کرنا ہے اور خوبصورت لفظ لکھنے ہیں۔ خوشبو کی صورت میں لکھنے ہیں۔‎رات ہرچند سازش کی طرح ہے گہری‎صبح ہونے کا مگر یقین رکھنا ہے‎۔ اپنے محبوب کے لئے ’پوزیٹیو‘ ہونے کے باوجود پروین ایک عجب طرح کی شان بے نیازی بھی رکھتی ہے۔ محبوب کی تمام تر بے اعتنائیوں اور کج ادائیوں کا شعور رکھنے کے باوجود اس کے لئے خواب اور اپنے لئے رتجگوں کی دعائیں کرتی نظر آتی ہے۔ اپنے محبوب کے گلے کا ہار بننے کی خواہش دل میں لئے اس کی دلہن اپنے ہاتھوں سے سجانے کی بات کرنے کا بھی حوصلہ رکھتی ہے ۔محبوب کی تمام تر بے وفائیوں کو اس کی مجبوری سمجھ کر محبت کی بازی میں ہار کر بھی جیت ہی محمول کرتی ہے۔ اس کا ظرف اتنا بلند ہے کہ بے وفائی کا جواب وفا سے اور بے اعتنائی کا جواب محبت سے دیتی ہے۔‎ قریہئ جان پر کوئی پھول کھلانے آئے‎و۔۔ہ میرے دل پر کوئی نیا زخم لگانے آئے کچھ لوگ چھوٹی عمر میں ہی ”بڑا“ کام کر جاتے ہیں اور بہت ہی کم لوگ عین عالم شباب میں اپنا ذہنی سفر اور فکری ارتقاء طبعی عمر میں پورا کر پاتے ہیں۔ یونان کا سکندر محض چھتیس برس کی عمر میں آدھی دنیا فتح کر چکا تھا۔ جان کیٹس نے اٹھائیس برس کی عمر میں صدیوں پر محیط تخلیقی سفر طے کر لیا۔ یہی معاملہ اُردو زبان میں پروین شاکر کے ساتھ ہے۔ بلاشبہ پروین شاکر کا شمار ان لوگوں میں کیا جا سکتا ہے جو تخلیقی سفر میں اپنی طبعی عمر سے بہت آگے نکل جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پروین شاکر نے اپنے ایک ٹی وی انٹرویو میں کہا تھا ‎”اگر کوئی 50 برس بعد مجھے ملنا چاہے تو میری شاعری میں مل سکتا ہے۔“‎ یہ حقیقت ہے کہ اُردو شاعری میں نسائی جذبات کا اظہار جو پہلے مرد کرتے تھے‘ اسے پروین نے اپنی شاعری میں بڑی خوبصورتی اور بے باکی سے کہا: ‎کیسے کہہ دوں کہ مجھے چھوڑ دیا اس نے...‎بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی‎ پروین شاکر کی شاعری میں ”سچائی“ کے اعتراف کا بھرپور حوصلہ بھی ہے جو عموماً مردوں کی شاعری میں ہمیں نہیں ملتا۔ اس کی شاعری کی انفرادیت کی بڑی وجہ محبت میں اس کا ذاتی تجربہ ہے۔ گویا اس کی شاعری دل سے اُٹھتی اور دل میں سما جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کی شاعری اس کی ذات اس کے محبوب اور اس کی پھیلی ہوئی کائنات کا مطالعہ ہے۔ محبت میں ناکامی کا احساس ”خودکلامی“ اور ”صدبرگ“ میں جا بجا ملتا ہے‎۔پ روین شاکر اُردو کی واحد شاعرہ ہے جس کے ہاں ہمیں محبت خوشبو کے ساتھ امید بھی نظر آتی ہے۔ وہ کبھی مایوس نہیں ہوتی‘ ہمیشہ مثبت پہلو دیکھتی ہے اور دعاگو نظر آتی ہے۔ اس کے ہاں محبت کا تصور ہی خوشبو کی طرح ہے جو اپنا احساس خود دلاتی ہے جو امید پیدا کرتی ہے وہ ”امید“ جو ہر عمل بنتی ہے۔ پروین کے ہاں مایوسی کفر ہے‘ اپنی پوری شاعری میں وہ ہمیں مایوس نہیں ملتی البتہ رنجیدہ ضرور ہے‘ دکھی ہے‘ اپنے اردگرد کی تصنع‘ بناوٹ اور روایتی ہٹ دھرمی سے تاہم کبھی کبھی وہ شکوہ بھی کرتی ہے: ‎میرے چھوٹے سے گھر کو یہ کس کی نظر اے خدا لگ گئی....‎کیسی کیسی دعاؤں کے ہوتے ہوئے بددعا لگ گئی (مصنف زابر سعید پچاس کتابوں کے مصنف ہونے کے ساتھ ساتھ ممتاز صحافی،محقق اور ابلاغ عامہ کی درس و تدریس سے وابستہ ہیں)

تازہ ترین