• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
نفسیات دان کہتے ہیں کہ طاقت اور مکمل اختیار انسان کو گمراہ کرتا ہے۔ فیصلہ کن ہو جانے کا مرتبہ اسکے فیصلے کی قوت پر اثر انداز ہوتا ہے ۔ماہرین شماریات خط طلب کی تشریح کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ہر عروج کو زوال ہے۔ بلندی کے بعد پستی فطری عمل ہے۔ معاشیات کے ماہر سیز کے ایک قانون کے مطابق رسد ، خود بخود طلب کو جنم دیتی ہے۔یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ ان تینوں علوم کا بظاہر سیاست سے تعلق ہے نہ ان قوانین کا منشا ء کبھی پاکستانی ریاست و سیاست رہا ہو گا۔ حیرتناک امر یہ کہ یہ تینوں قوانین پاکستان کی موجودہ صورت حال اور گڈ گورننس کے معاملے پر ہونے والی دو طرفہ بیان بازی پر صادق آتے ہیں۔
حکومت نے بہت سا وقت دھرنے اور سابقہ حکومت کی کارکردگی کے ماتم میں گزار دیا ۔لوگ پیٹتے رہے آخر ایک ہزار دنوں کی حکومت میں آپ کی کارکردگی کیا رہی؟ ؟ فلاح کے رستے میں کیا عوامل مانع تھے ، بھلائی سے کون روک رہا تھا؟ عوامی خدمت کیوں نہیں ہو رہی تھی؟ قیمتیں کیوں نہیں کم ہو رہیں؟ لوڈ شیڈنگ کب ختم ہو گی؟ گیس کب آئے گی؟ پولیس کا نظام و نسق کب بہتر ہو گا؟کرپشن کا خاتمہ کیسے ہو گا؟بدعنوان عناصر کے خلاف تادیبی کارروائی کب ہو گئی؟آئی ڈی پیز کی بحالی میں پیش رفت کب ہوگی؟ حالات کب بدلیں گے؟ملک کب ترقی کرے گا؟ لیکن ان سب سوالوں کے جواب میں ایک مدت تک دوسروں پر الزام لگا کر گزارا کیا گیا۔ طرفہ تماشا یہ ہوا کہ عمران خان ہر میدان میں شکست کھاتے رہے ۔ پیپلز پارٹی کرپشن کی دلدل میں پھنسی رہی اور میاں صاحب اسی اثنا میں مطلق العنان ہو گئے۔ اب میدان صاف تھا ، اپوزیشن کوئی تھی نہیں ، دشمن تمام زیر تھے اس لئے گورننس جیسی چیزوں کا جواب دھرنے پر ڈال کر سڑکیں بنانے کا کام شروع ہو گیا۔ اسمبلی میں حاضری مفقود ہو گئی۔ جمہوریت نظام کے بجائے نعرہ بن کر رہ گئی ۔ عوامی مفاد کے فیصلے ذات اور خاندان میں قید ہونے لگے۔فیصلے مبہم اور بے ربط ہونے لگے ۔ طاقت اور عروج کا خمار چڑھنے لگا یہاں تک کہ نفسیات دانوں کا اصول سچ لگنے لگا۔یہ تاثرہے کہ میاں صاحب دشمنوں کی عدم موجودگی میں خود اپنے دشمن کا روپ دھار لیتے ہیں۔پیپلز پارٹی کی محبت میں ایسے گرفتار ہوئے کہ انصاف کرنا بھول گئے، بدعنوانوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کی جو مہم شروع ہوئی اسی میں لیت و لعل سے کام لینے لگے۔ رینجرز کے آپریشن میں دیر لگنے لگی۔سیاسی مصلحتیں آڑے آنے لگیں۔ اربوں کھربوں جو لوٹے گئے انکو وطن واپس لانے کا ارادہ ملتوی کر دیا۔ خدشہ شاید یہ پیش نظر ہو گا کہ آج جو نیب کو اختیار دے دیا ۔ فائلیں کھل گئیں ، بیرون ملک رکھی ہوئی رقم واپس آگئی تو کل شاید یہی تلوار انکے سر پر بھی لٹکنے لگی ۔ ترقی کے منصوبوں میں گھپلوں کا الزام انکے سر بھی آنے لگے۔ طیاروں میں کمیشن کی کہانیاں سامنے آنے لگیں ۔پی آئی اے اور اسٹیل مل کی کارکردگی پھر زباں زد عام ہونے لگے۔نندی پور پروجیکٹ کے راز کھلنےلگیں۔ میٹرو کی تعمیر کے کنٹریکٹ کی بات ہونے لگے۔پاور پروجیکٹس میں حصوں کی خبر عام ہو جائے ۔پنجاب پولیس کی بات ہونے لگے۔ رانا ثنا اللہ کے معاملات کھلنے لگیں۔ ماڈل ٹائون کا واقعہ زندہ ہو جائے۔مجرموں کی پھر تلاش شروع ہو جائے۔ اسی خطرے کےپیش نظر انصاف کا عمل روک دیا گیا۔ کرپشن اور بدعنوانی پر بات کرنا چھوڑ دی ۔ مجرموں کو جمہوریت کی پناہ ملنے لگی ۔ یہ بات پیپلز پارٹی کے لئے تو بہت سود مند رہی مگر وہ لوگ جو اس آپریشن کو منطقی انجام تک پہنچانا چاہتے تھے انکی طبیعتیں اس سارے تعطل پر مکدر ہو گئیں۔فیصلوں کے منتظر جوان بے چین ہونے لگے۔ حکومتی خاموشی کور کمانڈرز کانفرنس کے مشترکہ اعلامیئے کا جواز بن گئی۔تعلقات میں رخنہ پڑ گیا۔ ملاقاتیں محدود ہونے لگیں۔کچھ ہونے کا امکان پیدا ہونے لگا۔اس امکان کو جنم دینے میں شماریات کے ماہرین کا قانون واضح ہونے لگا۔ عروج و زوال کی کہانی پھر یاد آنے لگی ۔ یہ بات تو اب سب پرعیاں ہو گئی ہے کہ جہاں مشکل پڑتی ہے وہاں فوج کو مدعو کیا جاتا ہے۔ سیلاب ہوں یا زلزلے، آفات ہوں یہ یا دھرنے۔ کرپشن کے خلاف جنگ ہو یا کراچی میں امن کی بگڑتی صورت حال ۔ دہشت گردی کے خلاف آپریشن ہو یا ملکی دولت لوٹنے والوں کے خلاف کارروائی ۔فوری منصفانہ انتخابات کی بات ہو یا انصاف کی فراہمی کیلئے عدالتوں کا ذکر ہو فوج کو بلا لیا جاتا ہے۔ فوری آپریشن ہوتا ہے۔ مطلوبہ نتائج حاصل ہوتے ہیں۔ امور زندگی کی بحالی ہوتی ہے۔راستے کی رکاوٹیں منظم طریقے سے ہٹائی جاتی ہیں۔ انصاف ہوتا ہے۔لوگوں کا اعتماد قائم ہوتا ہے۔ پسندیدگی کی لہر اٹھتی ہے۔ الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر توصیفی کلمات کا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔ ایسے میں جب لوگ فوج کے اقتدار کی تمنا شروع کر دیتے ہیں تو یہاں پر معاشیات کے ماہر سیز کا قانون درست قرار پاتا ہے ۔ رسد خود طلب کا باعث بنتی ہے ۔ جواز لوگ خود تلاش کر لیتے ہیں۔
اگر یہ تمام قوانین ملکی صورت حال پر منتج نہیں ہوتے تو بتائیے کہ کور کمانڈر ز کانفرنس کے بعد ایک اعلامیئے نے حکومتی سوچ کیسے بدل دی ۔ سالوں سے رکی جمہوریت کو اچانک گورننس کے پہیے کیسے لگ گئے؟ خواب غفلت میں ڈوبی ہوئی بیوروکریسی کیسے ہوش میں آگئی ؟چند ہی دنوں میں ایف بی آر کی نئی ٹیم کیسے آگئی؟ موٹر وے کے ایم فور کا افتتاح اچانک کیسے ہو گیا؟ ڈاکٹر عاصم کا کیس کیسے زندہ ہو گیا؟ نیب کو پھر دفعتا اختیار کیسے مل گیا؟ چوہدری نثار اتنے سرگرم کیسے ہو گئے؟ یکدم تین سو انسانی اسمگلرز کے پاسپورٹ منسوخ اور اکائونٹ کیسے منجمد ہو گئے؟ بھارت کے ساتھ کرکٹ پر اچانک وزیر اعظم کی مداخلت کیسے ہوگئی؟ ازبکستان کے ساتھ معاشی معاہدوں کی شہ سرخیاں کیسے بن گئیں؟ پاور پروجیکٹس میں بچت کا نعرہ اچانک کیسے لگنے لگا؟اسمبلی میں حاضری کا شور یکدم کیوں ہونے لگا۔ چند ہی دنوںمیںحکومت کام کی رفتار بڑھا کر کارروائی دکھانے لگی۔جمہوریت ایک اچھا نظام حکومت ہے۔ لوگوں کو ووٹ کا اختیار ہوتا ہے۔ اپنے لیڈر کو چننے کا حق ہوتا ہے ۔ عوام کی طاقت عوام کے پاس رہتی ہے ۔ اس نظام کو چلتے رہنا چاہئے۔ لیکن اچھے سے اچھے نظام کو جگانے اور چلانے کے لئے کبھی کبھی ایک مشترکہ اعلامیے کی ضرورت ہوتی ہے۔ خواب غفلت سے بیدار کرنا پڑتا ہے۔ گڈ گورننس کی طرف توجہ مبذول کروانی پڑتی ہے ۔عوام کی حالت زار پر نظر ثانی کی درخواست کرنا پڑتی ہے ۔ورنہ پھر قوانین تو اٹل ہوتے ہیں۔
تازہ ترین