• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سنتے ہیں کہ ’’سب اچھا ہے‘‘، سب اچھا ہی رہنے میں مملکتِ خداداد کا بھلا ہے! ہمارےوزیرِ داخلہ چوہدری نثار کہتے ہیں کہ اگر کچھ چھوٹے موٹے اختلافات ہیں بھی تو کوئی طوفان آنے والا نہیں۔ اُن کے بقول فوج اور حکومت اب جتنے ایک صفحے پر ہیں، پہلے کبھی نہ تھے۔ اُن پر اعتبار کریں بھی تو خوشی سے مر جانے کی نوبت نظر نہیں آتی۔ اور اگر نہ کریں تو فقط دُعائے خیر ہی کی جا سکتی ہے۔ واشنگٹن سے جنرل راحیل شریف کی کامیاب سفارتکاری کی بڑی خبریں، آئی ایس پی آر کے ذریعے دھوم مچائے ہوئے ہیں۔پھر قیاس آرائی کی کیا گنجائش رہ جاتی ہے۔ لیکن میڈیا ہے کہ خاموش بیٹھ جانے والا نہیں! طمطراق سے کہا جاتا رہا کہ وزیراعظم کا دورہ تو فقط سیاحت تھا، اصلی دورہ اب ہوا ہے۔ جبکہ امریکہ کے نائب صدر جوبائیڈن کا کہنا ہے کہ جنرل راحیل سے اُن کی بات چیت وزیراعظم نواز شریف کے ساتھ اُن کی ملاقات کا تسلسل (Follow up) ہے۔ یہی بات چوہدری نثار نے کہی ہے کہ آرمی چیف کا دورہ وزیراعظم کی باضابطہ منظوری سے طے کیا گیا۔ فوج نے بھی ایسی کوئی بات نہیں کہی جس سے یہ لگے کہ ملک کے چیف ایگزیکٹو کو درخورِ اعتنا نہیں سمجھا گیا۔ آخر میڈیا کے بعض لوگ طاقت کے دو مراکز کے باہمی تصادم کی افواہوں کو اچھال کر کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں؟ سوائے جمہوریت کے ساتھ اپنی آزادی کو کھونے کے؟ جو پہلے ہی گہنا گئی ہے؟ کوئی ملک اس طرح کیسے چل سکتا ہے؟ اور دُنیا پھر ایسے ملک کو کیوں سنجیدگی سے لے؟
دی نیوز کی (انصار عباسی والی) خبر کے حوالے سے یہ اطلاع دی گئی ہے کہ امریکہ روانہ ہونے سے پہلے آرمی چیف اور اُن کے رفقا کی وزیراعظم سے تفصیلی ملاقات ہوئی۔ ظاہر ہے، امریکیوں کو تو بات چیت کو وہیں سے آگے بڑھانا تھا جہاں وزیراعظم نواز شریف پہنچا کر آئے تھے۔ دونوں ملکوں کے سلامتی کے اداروں کے مابین جن مسئلوں پر تبادلہ خیال متوقع تھا، وہ یہ ہیں: (1) افغانستان: پاکستان کی افغانستان کیساتھ بارڈر کی نگرانی کا موثر نظام، افغانستان کے ساتھ قریبی تعاون، بھارت کی افغانستان سے پاکستان مخالف سرگرمیوں کی روک تھام، پاکستان سے مفرور دہشت گردوں کی افغانستان میں سرکوبی اور افغان حکومت اور طالبان میں مذاکرات کی بحالی کیلئے پاکستان کا تعاون۔ اور امریکی CSF کے فنڈز اور ترسیلِ اسلحہ کی بحالی۔ جب کہ افغانستان کے معاملے پر امریکہ کا تقاضہ ہے کہ حقانی نیٹ ورک اور دوسروں کو پاکستان کی سرزمین استعمال کرنے سے روکا جائے اور افغان طالبان پر پُرامن حل کیلئے دبائو ڈالا جائے۔ (2) نیوکلیئر معاملے پر پاکستان کا یہ اصرار کہ اُسے بھی نیوکلیر سپلائرز گروپ میں شامل کیا جائے اور بھارت جیسا نہیں تو پُرامن نیوکلیئر پروگرام کیلئے امریکی تعاون۔ جبکہ، امریکہ کا اصرار یہ ہے کہ دُور مار میزائل اور چھوٹی مار کے تدبیری نیوکلیئر ہتھیار جو بھارت کے علاوہ کسی اور کے خلاف بھی داغے جا سکتے ہوں کی روک تھام۔ امریکہ کا یہ تقاضہ ہے کہ پاکستان طے کرے کہ بھارت کے خلاف اسے کتنی نیوکلیئر استعداد چاہئے اور نیوکلیئر ہتھیاروں کو محفوظ رکھنے کا قابلِ یقین بندوبست۔ (3) بھارت کے حوالے سے پاکستان کا یہ تقاضا کہ لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی اور اشتعال انگیزی روکی جائے، کشمیر سمیت تمام مسئلوں پر بات چیت بحال ہو۔ امریکہ کا مطالبہ یہ ہے کہ کشمیری جہاد میں ملوث تنظیموں پر بندش اور سرحد کے آرپار دہشت گردی کی روک تھام۔ اس معاملے پر پاکستان کی یہ شکایت کہ بھارت پاکستان میں افغانستان کے ذریعے افراتفری پھیلا رہا ہے، بلوچستان، کراچی اور فاٹا میں دہشت گردی کو فروغ دے رہا ہے کا خاتمہ۔ دیکھتے ہیں کہ آئندہ ہفتوں میں علاقائی منظر کتنا بدلتا ہے؟ اور خود پاکستان، بھارت، امریکہ اور افغانستان کی پالیسیوں میں کیا تبدیلیاں آتی ہیں؟ اُنہیں دیکھ کر ہی اندازہ لگایا جا سکے گا کہ جنرل راحیل شریف کے دورے کے کتنے ثمرات ملے ہیں۔
امریکہ جانے سے پہلے، آئی ایس پی آر کی پریس ریلیز اور وزیراعظم ہائوس کی جانب سے جواب آں غزل سے کوئی اچھا بین الاقوامی تاثر نہیں گیا تھا۔ یہ درست ہے کہ عمران خان کے دھرنے سے منتخب حکومت کمزور ہوئی جب کہ فوج نے دہشت گردی کے خلاف جاندار کارروائی شروع کر کے عوامی پذیرائی حاصل کی اور جنرل راحیل اپنی پیشہ ورانہ سرگرمیوں کے حوالے سے توصیفی سرخیوں میں نمایاں نظر آئے۔ دوسری طرف حلقہ 122اور مقامی حکومتوں کے انتخابات میں زبردست کامیابی حاصل کر کے وزیراعظم نواز شریف بھی اپنا اعتماد بحال کر پائے ہیں۔ لیکن ایک جزوقتی وزیر دفاع اور مشیرِ خارجہ کے ساتھ آپ خارجہ و سلامتی کے اُمور پر سلامتی کے اداروں کی کیا رہنمائی کر سکتے ہیں؟ اُس پر مستزاد یہ کہ دہشت گردی کے خلاف متفقہ نیشنل ایکشن پلان پر سویلین سائیڈ اپنے فرائض بدرجۂ اتم انجام دیتی نہیں پائی گئی۔ جبکہ، ابھی بھی چند استثنائوں کے باوجود، بری و ہوائی فوج نے شمال مغربی علاقوں میں دہشت گردوں کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ فوج کو انتظامیہ و حکومت سے علیحدہ کر کے پیش کیا جارہا ہے جو ہماری بدقسمتی ہے۔’’سب اچھے‘‘ کے باوجود، پاکستان میں کبھی بھی سول ملٹری تعلقات متوازن نہیں رہے۔ یہی وجہ ہے کہ جمہوریت اور آئین پسندوں کے ماتھے ٹھنکتے رہتے ہیں۔ انصار عباسی کی نیوز ہی کی رپورٹ کے مطابق دو بڑوں کی ملاقات خوشگوار نہ تھی اور کئی معاملات ایسے ہیں جن پر کھنچائو بڑھ سکتا ہے۔ فوج چاہتی ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امداد کنندگان کا احتساب بھی ہو۔ اور وہ کرپشن کے حوالے سے بہت سوں پر ہاتھ ڈالنے کے حق میں ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ نیشنل ایکشن پلان کے دائرئہ عمل سے باہر نکل کر اُن میدانوں میں برسرِعمل ہونے کی بات ہے جو فقط سویلین دائرئہ کار ہے۔ نیوز کی اس ہی رپورٹ کے مطابق نندی پور پاور پلانٹ اور LNG کی درآمد کے معاہدوں کے حوالے سے بھی بڑے سوالات اُٹھائے جا رہے ہیں اور خواجہ آصف وضاحتیں پیش کرتے کرتے بے حال ہوتے نظر آ تے ہیں۔ جوائنٹ انویسٹیگیشن ٹیمز (JITs) کے حوالے سے دبائو بڑھایا جا رہا ہے اور ایم کیو ایم کے ساتھ معاملہ فہمی بھی شکوے شکایت کا باعث بنی ہے۔
لیکن، سوال یہ ہے کہ کون حکمران ہے اور کونسا ادارہ سپریم۔ تاریخی طور پر تو فوج نے ہی نظام کی صفیں لپیٹی ہیں اور جمہوریت کی واپسی کی راہ مجبوراً چھوڑی ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ماضی میں فوج کے اقتدار سنبھالنے سے معاملات سنورنے کی بجائے بگڑے۔ آخر کب تک یہ سرکس چلتا رہے گا۔ ہم کب ایک سنجیدہ، ادارہ جاتی، آئینی، جمہوری اور قانونی نظام کے مطابق خود کو ڈھال پائیں گے؟ سلامتی کے اداروں کا کردار اپنی جگہ محترم لیکن وہ قوم ہی کے محافظ و خدمتگار رہیں۔ اگر قوم اور اُس کے منتخب نمائندے ہی اُن کے سامنے جواب دہ ہونے لگے تو پھر جس کی لاٹھی اُس کی بھینس۔ ایسے میں کوئی کیا کر سکتا ہے؟ سوائے جمہوریہ کے زوال پر بار بار آنسو بہانے کے، کاش ’’سب اچھا ہے‘‘، اچھا ہی رہے!
تازہ ترین