• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آرمی چیف جنرل راحیل شریف کا حالیہ دورہ امریکہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے ۔ اس دورے کو دنیا خصوصاً ہمارے خطے کے سیکورٹی ایشوز کے تناظر میں دیکھنا چاہئے۔ دو سال کے مختصر عرصے میں پاکستان کے آرمی چیف کا امریکہ کا یہ تیسرا دورہ ہے ۔ اس دورے کی خاص بات یہ ہے کہ جنرل راحیل شریف نے امریکی اعلیٰ عسکری قیادت کے ساتھ ساتھ اعلیٰ سویلین قیادت سے بھی اہم ملاقاتیں کیں اور ان ملاقاتوں میں علاقائی سیکورٹی کے پاکستانی تناظر اور دنیا خاص طور پر مشرقی وسطیٰ کے حالیہ بدلتے ہوئے حالات پر ہمارے نقطہ نظر کو نمایاں کیا ۔ اس حوالے سے یہ ملاقاتیں بہت اہمیت کی حامل ہیں کیونکہ ہمارے خطے اور دنیا کی سلامتی میں پاکستان کے کردار کو امریکی قیادت نے بھی تسلیم کیا ہے ۔ امریکہ میں جنرل راحیل شریف کی امریکی نائب صدر جوبائیڈن ، امریکی وزیر خارجہ جان کیری کے علاوہ امریکی وزیر دفاع ، نائب وزیر دفاع ، امریکی سی آئی اے کے سربراہ ، جوائنٹ چیفس آف اسٹاف ، سینٹرل کمانڈ کے کمانڈر اور دیگر اہم عہدیداروں سے ملاقاتیں کیں ۔ انہوں نے کیپٹل ہل پر امریکی سینیٹر کی کمیٹی سے بھی ملاقات کی اور ایک امریکی تھنک ٹینک سے بھی خطاب کیا ۔ آرمی چیف کی یہ تمام مصروفیات غیر معمولی تھیں ۔ امریکی قیادت نے ان کے ساتھ نہ صرف پاک امریکہ تعلقات بلکہ خطے اور دنیا کی سیکورٹی کی صورت حال پر بھی تبادلہ خیال کیا ، جو اس امر کا ثبوت ہے کہ امریکہ کی عسکری اور سیاسی قیادت یہ محسوس کر رہی ہے کہ جنرل راحیل شریف دنیا کی موجودہ سیکورٹی کی صورت حال میں ایک اہم کردار ادا کر سکتے ہیں ۔
اس وقت دنیا دہشت گردی اور بدامنی کی آگ میں سلگ رہی ہے ۔ جنوبی ایشیا میں پاکستان اور افغانستان سب سے زیادہ اس آگ کی لپیٹ میں ہیں ۔ مشرق وسطیٰ میں یہ آگ نشاۃ ثانیہ کی عظیم دانش اور اقدار کو جلا کر بھسم کر رہی ہے ۔ یورپ کا وجود بھی اس آگ سے جھلس رہا ہے ۔ پوری دنیا غیر محفوظ ہو گئی ہے ۔ پیرس میں 13 نومبر کے دہشت گردی کے واقعہ نے امریکہ کے نائن الیون کی یاد تازہ کر دی ہے اور دنیا میں جاری جنگوں کے ماحول میں جلتی پر تیل کا کام کیا ہے ۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ پوری دنیا سیکورٹی ایشوز میں الجھ کر رہ گئی ہے ۔ ’’ جہاں آگ بھڑکے ، وہی جگہ جلے ‘‘ کے مصداق پاکستان بدامنی اور دہشت گردی کا سب سے زیادہ شکار ہوا ۔ دہشت گردی کے واقعات میں صرف نائن الیون کے بعد پاکستان میں ایک لاکھ سے زیادہ شہری اور 10ہزار سے زیادہ ملٹری اورسویلین سیکورٹی فورسز کے افسران اور جوان شہید ہوئے۔ اتنا زیادہ نقصان کسی ملک میں نہیں ہوا ۔ پاکستان کی مسلح افواج ، پیرا ملٹری فورسز اور سویلین فورسز کو دہشت گردی کے خلاف اپنی سرزمین پر طویل اور انتہائی پیچیدہ جنگ لڑنا پڑی ، جو اب تک جاری ہے ۔ پاکستان کو ’’ گریٹ گیم ‘‘ کا تختہ مشق بنایا گیا ۔ اس صورتحال سے سب سے زیادہ پاکستان کی عسکری قیادت کو نمٹنا پڑا ۔ اس صورت حال میں فوج کو بحیثیت ادارہ اپنے عہد میں غیر معمولی تجربات سے گزرنا پڑا ، جس کی وجہ سے فوج کی اجتماعی دانش کا ارتقاء ہوا ۔ اسی صورت حال میں فوج نے بحیثیت ادارہ خطے اور دنیا کی صورت حال کو دیکھتے ہوئے اپنے ’’ ڈاکٹرائن ‘‘ بھی تبدیل کیا اور وسیع تر تناظر میں نئی حکمت عملی بھی وضع کی ۔ اس تناظر میں آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے کردار کو سمجھا جا سکتا ہے ۔
پہلی دفعہ پاکستان کے کسی آرمی چیف نے ایک جنرل سے بڑھ کر ایک عالمی لیڈر کی حیثیت سے اپنا قد و قامت ( Stature ) بنایا ہے ۔ جنرل محمد ایوب خان ، جنرل یحییٰ خان ، جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف کے پاس پاکستان کا بلا شرکت غیرے اقتدار رہا ۔ لیکن وہ بوجوہ اپنا عالمی کردار نہیں بنا سکے ۔ ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے بعد کوئی سیاسی لیڈر بھی اپنا عالمی Stature نہیں بنا سکا ۔ بدلتے ہوئے عالمی حالات میں پاکستان کو جس طرح گریٹ گیم کا تختہ مشق بنایا گیا ۔ اسی عرصے میں جنرل پرویز مشرف پاکستان کو اس کھیل میں پھنساتے گئے اور سیاسی قیادت معاملات سے لاتعلق ہوتی گئی ۔ موجودہ عسکری قیادت نے علاقائی اور عالمی صورت حال کے تناظر میں معاملات کا ادراک کرکے نہ صرف نئی حکمت عملی وضع کی بلکہ پاکستان کو دہشت گردی سے نجات دلانے کے ساتھ ساتھ خطے اور دنیا کے سیکورٹی ایشوز کے تناظر میں پاکستان کے کردار کو نمایاں کرنے کی حکمت عملی وضع کی ۔ جنرل راحیل شریف نے ایک جرنیل کی حیثیت سے کامیاب سفارت کاری کی اور روس، چین ، برطانیہ ، سعودی عرب، مشرق وسطیٰ ، ایران ، افغانستان اور دیگر ممالک کے ساتھ ساتھ دو سال میں امریکہ کے تین دورے کرکے علاقائی سیکورٹی کے پاکستانی تناظر کو نمایاں کیا اور دنیا کو دہشت گردی اور انتہا پسندی کیخلاف لڑنے کا نیا vision بھی دیا ہے۔ یہ اسلئے ضروری ہے کہ پاکستان نے اگر قائدانہ کردار ادا نہیں کیا تو پاکستان کو دہشت گردی اور بدامنی کی پیچیدہ صورت حال سے نکالنا ممکن نہیں ہو گا کیونکہ اس صورت حال کے ڈانڈے علاقائی اور عالمی قوتوں کے مفادات سے جڑے ہوئے ہیں ۔ پاکستان کی فوج نے دہشت گردی کیخلاف آپریشن ضرب عضب اور دیگر آپریشنز میں کامیابیاں حاصل کی ہیں ۔ یہ عہد نو کی پہلی فوج ہے ، جس نے دہشت گردی اور گوریلا جنگوں میں فتوحات حاصل کی ہیں ۔ راحیل شریف پہلے آرمی جنرل ہیں ، جنہوں نے داخلی سطح پر فوجی حکمت عملی کو خطے اور دنیا کی سیکورٹی کی صورت حال سے جوڑتے ہوئے اپنا بھرپور کردار ادا کیا ہے ۔ دہشت گردی کیخلاف جی 20 ممالک سمیت چین ، روس اور امریکہ اور یورپ کے جرنیل مشترکہ پالیسیاں مرتب کرنے کی ضرورت پر زور د ے رہے ہیں اور انہیں لازمی طور پر جنرل راحیل شریف کے تجربے اور وژن سے فائدہ اٹھانا چاہئے ۔ جنرل راحیل شریف کو ان کے غیر ملکی دوروں میں جو اہمیت دی جا رہی ہے ، اس سے محسوس ہوتا ہے کہ دنیا ان سے کام لینا چاہتی ہے ۔ جنرل راحیل شریف کی امریکی نائب صدر جوبائیڈن ، امریکی وزیر خارجہ ، وزیر دفاع اور دیگر اعلیٰ عہدیداروں سے ملاقاتوں کے بعد وائٹ ہاؤس کی جانب سے جو بیان جاری کیا گیا ہے ، اس میں اس خواہش کا اظہار کیا گیا ہے کہ امریکہ پاکستان کے ساتھ مل کر افغانستان میں مصالحت کا عمل دوبارہ شروع کرنا چاہتا ہے اور امریکہ دہشت گردی کیخلاف اور دیگر سیکورٹی امور پر پاکستان کیساتھ مضبوط پارٹنر شپ قائم کرنا چاہتا ہے۔
یوں محسوس ہو رہا ہے کہ افغانستان کیساتھ ساتھ مشرق وسطیٰ کے بحرانوں کو بھی حل کرنے میں جنرل راحیل شریف کا کردار بہت اہم ہو گا ۔
جنرل راحیل شریف نے اپنی سفارتکاری سے پاکستان کو اس مقام پر پہنچا دیا ہے ، جہاں پاکستان سپر پاور ممالک کی صف میں شامل ہو سکتا ہے ۔ سپر پاور بڑی فوجی یا اقتصادی طاقت کے حامل ہونے کا نام نہیں ہے بلکہ سپر پاور ایک کردار کا نام ہے ، جسے دنیا تسلیم کرتی ہو ۔ بھارت جنوبی ایشیا کا بڑا ملک ہے اور وہ ہمیشہ اس خطے میں سپر پاور بننے کے خواب دیکھتا رہا ہے ۔ لیکن پچھلے چند سالو ں میں بھارت کا بین الاقوامی سیاست میں قد چھوٹا ہوتا جا رہا ہے ۔ اس وقت دنیا میں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی بجائے جنرل راحیل شریف کو ان کی حکمت عملی ، Vision، فعالیت اور محنت کی وجہ سے بہت زیادہ اہمیت دی جا رہی ہے ۔ دہشت گردی کے خلاف اس جنگ میں پاکستان اور جنرل راحیل شریف کا کردار تسلیم کیا جا رہا ہے ۔ دنیا کو یہ جنگ جیتنی ہے ۔ داعش ، طالبان ، القاعدہ ، بوکوحرام یا اس طرح کی دیگر تنظیمیں دنیا کے امن ، آزادی اور خوش حالی کی دشمن ہیں ۔ پاکستان سب سے زیادہ ان دہشت گرد اور ا نتہا پسند تنظیموں کا شکار رہا ہے اور ان سے نجات کیلئے سب سے زیادہ پاکستان کا کردار اہم ہے ۔ اگر جنرل راحیل شریف کو پاکستان میں گڈ گورننس اور کرپشن فری قوم کی صورت میں حمایت حاصل ہو جائے تو پاکستان کا اس خطے اور دنیا میں کردار بہتر انداز میں تسلیم کرایا جا سکتا ہے اور پاکستان اور خطے کو دہشت گردی سے نجات دلا کر دنیا کو بھی امن کا تحفہ دیا جا سکتا ہے ۔
تازہ ترین