• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
صدر طیب ایردوان کی شخصیت ہر جمہوریت دوست کو اپنی جانب کھینچتی ہے۔ صدر مملکت ممنون حسین بھی بذات خود گزشتہ آمریت میں صعوبتوں کا شکار رہے لہٰذا یہ دو جمہوریت پسندوں کا ملاپ تھا۔ ترک عوام جب گذشتہ ناکام بغاوت کے وقت نرم بستروں کو اجاڑ کر باہر نکلے ہونگے تو اچھی طرح جانتے تھے کہ حوالاتوں اور جیلوں کے ٹھنڈے فرشوں کو آباد کرنے کی غرض سے نکل رہے ہیں مگر عوامی طاقت اور اس کے بروقت رد عمل کی بدولت عوام اپنا حق حکمرانی غصب کرنے کے ناپاک ارادوں کو شکست دینے میں کامیاب ہو گئے۔ جمہوریت کی اہمیت اور قومی ترقی میں اس کے کردار اور آمریت کی چیر پھاڑ سے نبردآزما ہونے کے لئے شعور کی بلندی کی ضرورت ہوتی ہے۔ جمہوریت کو جمہوریت میں گالی دینا آسان مگر آمریت میں آمر کی شان میں معمولی سی کسر شان بھی مصائب آلام کا طوفان وارد کر ڈالتی ہے۔ آمروں سے مقابلہ کرنا کیسا جان جوکھوں کا کام ہے۔ اس کو مصر کی زینب الغزالی جو "سیدات مسلمات " کی سربراہ تھیں کی جمال عبدالناصر کے عقوبت خانے میں اپنی اسیری کی روداد کو قلمبند " ایام من حیاتی" کے عنوان سے کیا ہے۔ وہ تحریر کرتی ہیں کہ "ایک تاریک و خوفناک کوٹھڑی کا دروازہ کھل گیا میں اس میں داخل ہو گئی اور پھر دروازہ بند کر دیا گیا۔ کوٹھڑی میں داخل کیا ہوئی گویا کوٹھڑی نے مجھے نگل لیا۔ میں نے قدم رکھتے ہی کہا بسم اللہ السلام وعلیکم دروازہ بند کر دیا گیا اور نہایت شدید و تیز روشنیاںجلا دی گئی۔ یہ بھی تعزیب کی ایک شکل تھی۔ کوٹھڑی کتوں سے بھری ہوئی تھی۔ نجانے کتنے کتے تھے۔ میں نے آنکھیں موند لیں۔ شدت خوف سے ہاتھ سینے پر رکھ لئے۔ کوٹھڑی کا دروازہ زنجیروں اور تالوں سے مضبوط کر دیا گیا اور کتے مجھے چمٹ گئے۔ میرا سارا جسم ان کی زد میں آ گیا۔ مجھے احساس ہو رہا تھا کہ میرے جسم کے ہر حصے میں کتوں کے دانت پیوست ہو رہے ہیں۔ گھبرا کر پھر میں نے آنکھیں کھول لیں۔ مگر وحشت ناک کیفیت دیکھ کر جلدی سے بند کر لیں۔ ہاتھ بغلوں میں دے لئے۔ جسم کے ہر عضو پر ان کے دانت چبھ رہے تھے۔ میں نے پروردگار کو پکارنا شروع کر دیا۔ میں بے محابا اپنے آپ میں یہ سب کچھ کہتی جا رہی تھی اور کتے اپنے تندو تیز دانت میرے جسم میں گاڑھ رہے تھے۔ زینب الغزالی کا اقتباس صرف اس لئے پیش خدمت کیا کہ اگر وطن عزیز سے کسی جمہوری کارکن کی مثال پیش کرتا تو آج کل جو طوفان بدتمیزی مچا ہوا ہے اس میں سماجی میڈیا تک محدود جمہوریت کے ناقد اپنی پوری افلاطونی جھاڑ دیتے مگر مرحوم جہانگیر بدر کہ اب وہ اس دنیا میں نہیں رہے کے حوالے سے کچھ نہ تحریر کرنا مجھے بے چین رکھے گا۔ میں جہانگیر بدر سے کسی دوستی کا تو دعویدار نہیں ہوں مگر گذشتہ 15برسوں میں ایک محبت بھرا تعلق ضرور رہا اور ان کے ساتھ ان کی دعوت پر ان کے گھر پاوے بھی کھاتے رہے۔ ان کو بجا طور پر اس کا فخر تھا کہ وہ پاکستان کی تاریخ کے چاروں آمروں سے مقابلہ کرتے رہے اور پیپلز پارٹی کو خیر باد کہنے کا کبھی سوچا تک نہیں۔ پرویز مشر ف کی آمریت کا دور دورہ تھا ایک رات پکڑ دھکڑ شروع ہو گئی۔ معلوم ہوا کہ اس دفعہ پس زندان مجھے بھی کرنا ہے۔ اسی وقت گھر چھوڑا اور ایک دوست کے گھر قیام پذیر ہو گیا۔ جہانگیر بدر مرحوم نے اس رات کسی اور معاملے کی بناء پر فون بند ہونے کی وجہ سے ایک مشترکہ دوست کو میرے غریب خانے پر روانہ کیا۔ جہاں سے "مفرور" ہونے کا علم ہوا۔ کچھ دن بعد ملے تو کہنے لگے کہ مہدی صاحب آپ خوش قسمت ہیں کہ آپ کو باعزت فرار ہونا نصیب ہو گیا۔ اور پھر اپنی کمر کی جانب اشارہ کر کے کہنے لگے۔ یہاں کوڑوں کے نشانات ابھی تک ہیں۔ میں نے ہنستے ہوئے کہا کہ دعا کیجئے یہ خوش قسمتی برقرار رہے تو وہ بھی ہنسنے لگے۔ گفتگو بھی بہت کھلی ڈھلی کیا کرتے تھے۔ پیپلز پارٹی کا وفد اپریل 2006ء میں لندن میں میاں نوازشریف کے پاس ڈنر پر آیا۔ مرحوم مخدوم امین فہیم اور جہانگیر بدر بھی موجود تھے۔ جب یہ صاحبان میاں نوازشریف سے ملنے کے بعد نشستوں پر براجمان ہو گئے تو میاں نوازشریف تعارف کروانے لگے۔ میرے تک جب پہنچے تو جہانگیر بدر مرحوم بولے کہ ہم تو ان کو اپنے ساتھ شامل کرنے کے لئے کوشاں تھے مگر یہ آپ سے آ ملے۔ میاں نوازشریف ہنسنے لگے۔ بات صدر ایردوان سے شروع ہوئی اور جہانگیر بدر تک آ پہنچی۔ آ پہنچنی بھی چاہئے تھی کیونکہ دونوں ہی جمہوریت کی بقا اور جدوجہد کے لئے ایک استعارہ اور جمہوری ستارہ بن گئے ہیں۔


.
تازہ ترین