• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
قوم کو مبارک ہو کہ ایشیائی ترقیاتی بینک نے بھی ایک ارب 40کروڑ ڈالرز کے قرضے کی منظوری دیدی ہے۔ یہ قرضہ توانائی کے بحران پر قابو پانے اور اس شعبے میں اصلاحات لانے کیلئے استعمال کیا جائیگا۔ مبارک باد اس لئے دی ہے کہ موجودہ حکومت عالمی مالیاتی اداروں کی طرف سے قرض کی منظوری کو پاکستانی معیشت پر اعتماد کا اظہار قرار دیتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ عالمی بینک پاکستان کو قرضے سے نوازے یا آئی ایم ایف قرضے کی نئی قسط جاری کرے وزیر اعظم اور وفاقی وزیر خزانہ کو شاباش دیتے ہیں اور جناب اسحٰق ڈار قوم کو خوشخبری سناتے ہیں کہ دنیا کے مختلف ممالک ترس رہے ہیں کہ انہیں بیس سےپچیس سال کیلئے آسان شرح سود پر اس طرح کے قرضے حاصل ہوں لیکن ان مالیاتی اداروں کی نگاہ التفات صرف پاکستان پرآکر ٹھہرتی ہے۔ قرضوں پر اترانے اور نئی نسل کو گروی رکھ کرملکی معیشت کے پہیے کو حرکت پذیر رکھنے والی یہ وہی مسلم لیگ ن ہے جو پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت کو سخت تنقیدکانشانہ بنایا کرتی تھی اور بطوراپوزیشن سابق حکومت کے ہر بجٹ کو عالمی مالیاتی اداروں کا بجٹ گردانتی تھی۔ ویسے تو حکمران جماعت کے پارٹی منشور پر نظر دوڑائی جائے تو اس کا پہلا باب معاشی بحالی ہی ہے جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ بیرونی قرضوں کے حجم کو کم سے کم کیا جائے گا اور خود کفالت کی منزل حاصل کی جائے گی لیکن وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہوجائے۔ عذر یہ تراشا جاتا ہے کہ ماضی کی غلط اقتصادی پالیسیوں کی وجہ سے پاکستان قرضوں کی جس دلدل میں دھنس چکا ہے،ان قرضوں کی ادائیگی کیلئے مزید قرضے لینا مجبوری ہے۔ وفاقی وزیر تو ایوان بالا کے اجلاس میں یہ بھی فرما چکے ہیں کہ وزرات خزانہ کا نام تبدیل کر کے وزارت قرضہ جات رکھ دیا جائے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ حکومت جب بر سراقتدار آئی تو اس وقت ادائیگیوں کا توازن سخت بگڑا ہوا تھا۔ ملکی خزانے میں صرف ایک ماہ کی درآمدات کے مساوی نقد رقم موجود تھی۔آئی ایم ایف نے پیپلزپارٹی کی حکومت کے ساتھ معاشی اصلاحات پر اختلافات کی وجہ سے ساڑھے تین ارب ڈالر قرضے کی آخری قسط جاری کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ زرداری حکومت نے نومبر 2008 میں آئی ایم ایف کے ساتھ ساڑھے سات ارب ڈالرز قرض کے پروگرام پر دستخط کئے تھے جن کو بعد میں ساڑھے گیارہ ارب ڈالرز تک بڑھا دیا گیا تھا۔ آئی ایم ایف کی طرف سے آخری قسط روکے جانے پرپیپلز پارٹی نے امریکی حکام سے بھی مداخلت کرنے اور امریکی اثرو رسوخ سے واجب الاداقساط جاری کرانے کی بہت کوشش کی لیکن کامیابی نہ ملی اور عالمی مالیاتی فنڈ نے زرداری حکومت پر اعتبار کرنے سے معذرت کر لی۔ موجودہ حکومت اقتدار میں آئی تو تب پاکستان نہ آئی ایم ایف پروگرام میں شامل تھا اور نہ ہی اسے انٹرنیشنل بینک فار ری کنسٹرکشن اینڈ ڈویلپمنٹ کی رکنیت حاصل تھی۔ ٹھوس اقتصادی پالیسیوں کی بدولت خود کفالت کی منزل حاصل کرنے کی دعوے دار حکومت نے بڑے جتن کر کے نہ صرف ایک بار پھر آئی ایم ایف کا 7۔6 ارب ڈالر کا پروگرام حاصل کر کے پاکستان کو واپس ماضی کی ڈگر پر ڈال دیا بلکہ عالمی بینک سے بھی 12 ارب ڈالر قرضے کی منطوری حاصل کر لی۔ عالمی بینک سے لی جانے والی 1 ارب ڈالرز کی پہلی قسط تو انہی قلیل المیعاد قرضوں کی واپسی میں صرف ہوگئی جو انتہائی مہنگی شرح سود پر حاصل کئے گئے تھے۔ خیر وہ دن اور آج کا دن موجودہ حکومت نے بھی قرضوں پر انحصار کو ہی آسان نسخہ جانا اور گزشتہ صرف دو سال میں 7 ارب ڈالر کا خطیر قرضہ حاصل کر لیا۔ بعض قرضہ جات تو اس قدر مہنگی شرح سود پر حاصل کئے جا رہے ہیں کہ موجودہ حکومت کی اقتصادی ماہرین کی ٹیم کی اہلیت پر سوالات اٹھ رہے ہیں۔ گزشتہ ستمبر میں یورو بانڈز کے ذریعے 50 کروڑ ڈالرز کا حصول اس کی بہترین مثال ہے جو ملکی تاریخ کی ریکارڈ شرح یعنی 25۔8کی شرح پرلئے گئے۔ یہ بانڈز اس وقت جاری کئے گئے جب نہ صرف عالمی منڈی میں کساد بازاری کا رجحان تھا بلکہ دوست ملک چین کے یو آن کی قدر میں نمایاں کمی واقع ہوچکی تھی۔ رہی سہی کسر عید کی چھٹیوں میں روڈ شوز منعقد کرنے سے پوری ہو گئی۔ یورو بانڈز کے اس غیر دانشمندانہ اجراء نے دنیا کے پاکستان کی اقتصادی پالیسیوں پر اعتماد کا پول بھی کھول دیا کیوں کہ صرف ایک سال قبل پاکستان نے جب بانڈز کا اجراء کیا تھا تو اسے دو ارب ڈالر حاصل ہو گئے تھے لیکن اس بار صرف پچاس کروڑ ڈالر ہی مل سکے۔ بیرونی ممالک اوراداروں سے سخت شرائط اور مہنگی شرح پر قرضوں کی وصولی اس حوالے سے بھی تشویشناک ہے کہ قرض پر حاصل کی گئی یہ رقم کبھی لاہور اورنج لائن میٹرو ٹرین پر خرچ کی جاتی ہے تو کبھی اس سے کسان پیکج کا اعلان کر کے اس سے سیاسی فوائد حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہ صورتحال تو ایسے ہی ہے کہ…قرض کی پیتے تھے مے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں … رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن۔
یہاں قارئین کو یہ بھی آگاہ کر دوں کہ پاکستان پیپلزپارٹی کی حکومت نے جب اقتدار چھوڑا تو پاکستان کا مجموعی قرضہ 60 ارب 89 کروڑ 90 لاکھ ڈالر تھا جو موجودہ دور حکومت میں تقریبا 67 ارب 36 کروڑ 50 لاکھ ڈالر تک پہنچ چکا ہے۔ آئی ایم ایف کے اعدادو شمار کے مطابق موجودہ حکومت جب اقتدار سے رخصت ہو رہی ہو گی تو پاکستان کے ذمہ مجموعی قرضوں کی مالیت تقریبا 75 ارب ڈالر تک پہنچ چکی ہو گی۔اس طرح موجودہ حکومت کو پانچ سال میں تقریبا 15 ارب ڈالر کا مزید مقروض بنا دے گی۔ رواں مالی سال میں اندرونی اور بیرونی قرضوں پر صرف شرح سود کی ادائیگی کیلئے 1 ہزار 279 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔یہاں یہ پہلو بھی غور طلب ہے کہ عوام کسی بھی حکومت کو پانچ سال کیلئے اقتدار کا مینڈیٹ دیتے ہیں لیکن وہ حکومت عالمی مالیاتی اداروں سے بیس سے پچیس سال کی مدت کے قرضے کیسے حاصل کرنے کی مجاز ہو سکتی ہے۔وزیر خزانہ اپنی تقاریر میں بارہا سیاست کو معیشت سے الگ کرنے کیلئے میثاق معیشت کی ضرورت پر زور دیتے ہیں تاکہ آئندہ بیس ،پچیس سال کیلئے ایسا اقتصادی ایجنڈا تیار کیا جا سکے جس پر بعد میں آنے والی تمام حکومتیں عمل درآمد کی پابند ہوں۔ بلا شبہ یہ نہایت احسن تجویز ہے جس پرعملی طور پر بھی کوئی قدم اٹھایا جانا چاہئے لیکن اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ جو حکومتیں پارلیمنٹ کے منظور کردہ فزکل رسپانسیبیلٹی اینڈ ڈیبٹ لمیٹیشن ایکٹ 2005 ءکی پاسداری نہ کریں وہ سیاسی جماعتوں کے مابین ہونیو الے کسی معاہدے کو خاطر میں لائیں گی۔اس ایکٹ کے تحت حکومت ملک کی مجموعی قومی پیداوار یعنی جی ڈی پی کے 60فیصد سے زائد قرض نہیں لے سکتی لیکن گزشتہ نو سال سے اس حد سے زیادہ قرض لینے کا سلسلہ جاری ہے۔ حکومت نہ صرف اس ایکٹ پر فوری عمل درآمد یقینی بنائے بلکہ کوئی بھی قرضہ حاصل کرنے سے پہلے اسے پارلیمنٹ میں بھی پیش کرے۔ ملک کو قرضوں کی دلدل سے نکالنے کیلئے یہ بھی ضروری ہے کہ ٹھوس معاشی پالیسیاں اختیار کی جائیں جن کے تحت نہ صرف بجٹ خسارے پر قابو پایا جائے بلکہ ٹیکسوں کے ذریعے حاصل ہونے والی آمدنی کو آئندہ تین سال میں جی ڈی پی کے پندرہ فیصد تک لایا جائے ورنہ یونان کا حشرہمارے سامنے ہے۔
تازہ ترین