• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمینٹرینز کے صدر، سینئر رہنما مخدوم امین فہیم نے 21؍ نومبر 2015ء کی طلوع ہوتی ہوئی صبح اس دار فانی کو خدا حافظ کہا۔ پیپلز پارٹی میں وفا، وضعداری، شرافت، رکھ رکھائو، اعتدال اور دھیمے پن کی، شاید سب سے بڑی علامت اب موجود نہیں رہی، اپنی جماعت سے تاحیات عہد وفا نبھایا، وزارت عظمیٰ کا متوقع لاحقہ ان کی سیاسی زندگی کے تنازع اور غم کی حیثیت سے آخری سانس تک ان کے ساتھ چپکا رہا۔ تنازع اس لمحے سے جب مشرف کے دور اقتدار میں اسلام آباد کی شکر پڑیاں پر ان کی ان سے چند گھڑیوں پر مشتمل علیحدگی میں ملاقات ہوئی، پھر اس لمحے میں جب لندن کے اس آخری سفر سے پہلے وہ کراچی میں مشرف کی رہائش گاہ پر ملنے گئے، غم کے اس لمحے سے جب بی بی کی شہادت کے بعد پارٹی کی مرکزی قیادت نے مخدوم امین فہیم کے متوقع وزیراعظم ہونے کا تاثر مضبوط کیا جس پر نہ عمل ہوا اور نہ ہی اس تاثر کو ایسے سلیقے طریقے سے نبھایا گیا جس سے ان کا شخصی وقار مجروح نہ ہونے پاتا۔ حالات و واقعات کی داستان، بہرحال خواہ کیسے کیسے ہفت خوانوں سے گزری، پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمینٹرینز کے اس صدر، مخدوم طالب المولیٰ کے صاحبزادے، مخدوم سرور نوح بالا کے 18ویں سجادہ نشین مخدوم امین فہیم نے سیاسی کردار کے اصولی تسلسل کی آن شان کا رتبہ بڑھایا، وہ پاکستان پیپلز پارٹی سے شمولیت سے لے کر آخری سانس تک وابستہ رہے، مخدوم صاحب کے انتقال سے ایک اور سلیم الطبع فرد اور ایک مدبر سیاسی رہنما، پاکستان کے معاشرے اور پاکستان کی سیاست سے رخصت ہوا۔
مخدوم محمد الزماں المعروف طالب المولیٰ کے صاحبزادے مخدوم امین فہیم اگست 1939ء میں کراچی سے 200کلو میٹر کی دوری پر واقع ضلع ہپٹاری کے علاقے ہالہ میں پیدا ہوئے ابتدائی تعلیم 1955ء میں وہیں سے حاصل کی، 1957ء میں میٹرک اور 1961میں سندھ یونیورسٹی سے سیاسیات میں گریجویشن کرنے کے بعد سیاست کے میدان میں قدم رکھا۔ سروری جماعت کے 18ویں سجادہ نشین مخدوم امین فہیم کی گدی کو ’’نولکھی گدی‘‘ بھی کہا جاتا ہے دراصل اس کے مریدوں کی تعداد نو لاکھ کے قریب قریب کہی جاتی ہے۔ سندھ میں پیر حضرات کی دو بڑی گدیوں، پیر پگارا شریف اور مخدوم محمد زمان طالب المولیٰ، پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو مرحوم نے پارٹی بنانے کے بعد طالب المولیٰ گدی سے دست تعاون مانگا، پھر یہ دست تعاون وفا اور قربانی کی قابل فخر تاریخ مرتب کرتا چلا گیا، مخدوم طالب المولیٰ کی پارٹی کے بانی کے ساتھ سیاسی عظمت کی وراثت کو بیگم نصرت بھٹو اور بی بی شہید نے تو چار چاند لگائے مگر آصف علی زرداری کے جماعتی عہد اقتدار اور لیڈر شپ کے اس دور میں اس چاند کو ماند کرنے میں احساس وضعداری کے کسی درجے کو رتی بھر بھی ملحوظ خاطر نہ رکھا گیا، پیپلز پارٹی کے ذاتی اور نظریاتی لوگوں کے اندر اس کا قلق ہی نہیں شدید ردعمل بھی ہے۔ وہ بلاول بھٹو زرداری کی مخدوم امین فہیم کے سفر آخرت میں حاضری کو اصلاً ذوالفقار علی بھٹو، بیگم نصرت بھٹو اور بی بی شہید کی صدائے بازگشت اور امانت سمجھتے ہیں اور یہ کہ آصف علی زرداری کا عہد قیادت بے پناہ جرأت مندانہ اور تاریخ ساز ہونے کے باوجود ایکفرد کے طور پر انہیں ناگزیر قرار دیتے اور پارٹی کے کسی واقعی ’’بڑے آدمی‘‘ کو ’’کٹ ٹو شائر‘‘ کرنے کے رویئے کی شدید ترین الفاظ میں مذمت کرتا ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی اور ذوالفقار علی بھٹو کے نظریات و افکار سے جڑے اور اس نظریاتی ثقافت میں ڈھلے اہل فکر و نظر سے کوئی ’’حاضری‘‘ یا ’’خوشامد‘‘ کی توقع نہ کرے، یہ لوگ اس کائناتی سچائی کو ہمیشہ نگاہ میں رکھتے ہیں، مٹی ہی سب کا مقدر ہے، کسی کو یاد نہ رہنے سے اس مٹی کی حاکمیت اور نفوذ کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔
قومی پریس میں باضابطہ شائع شدہ مواد کو ریکارڈ پر رکھنا کالم کا فنی تقاضا ہے، اس ریکارڈ کے مطابق ’’مخدوم امین فہیم نے 1970ء سے 2013ء تک قومی اسمبلی کے تمام انتخابات میں حصہ لیا، 1988ء میں انتخابات کے علاوہ جن کا پاکستان پیپلز پارٹی نے بطور جماعت بائیکاٹ کیا تھا، مخدوم صاحب نے ان انتخابات میں 8بار کامیابی حاصل کی، مخدوم صاحب بی بی شہید کی وزارت عظمیٰ کے دونوں ادوار کے بعد یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف کی وزارت ہائے عظمیٰ کے ادوار میں بھی کابینہ کے اہم ترین رکن رہے، انہیں 4مرتبہ وزیراعظم کے عہدے کی پیشکش ہوئی لیکن انہوں نے انکار کر دیا۔ زندگی کے آخری ایام میں پیپلز پارٹی کے نوجوان چیئرمین بلاول بھٹو زرداری مخدوم امین فہیم کی عیادت کے لئے پہنچے تھے، یہ تصویر سوشل میڈیا پر کافی سرگرم تھی جس میں امین فہیم بلاول سے محبت سے مل رہے ہیں، ان کی آنکھوں میں چمک ہے، اس تصویر کو کسی نے ’’نانا سے نواسے تک برسوں کی وفاداری‘‘ کا عنوان دیا تھا۔ مخدوم امین فہیم کی شاعری اور نثر پر مشتمل 7کتابیں شائع ہو چکی ہیںآصف علی زرداری کی صدارت اور جماعتی قیادت کے اس دور میں مخدوم امین فہیم کے سیاسی قد کاٹھ پر مخصوص طرز عمل کے خوگر عنصر کے منفی اثرات چھائے رہے، بلاول بھٹو زرداری ہی اب وہ عنصر ہے جسے وقت آواز دیتا اور اس مخصوص طرز عمل میں پوشیدہ خود سر وژن پہ حاوی ہو جانے کی خبر سناتا محسوس ہوتا ہے، دیکھتے اور انتظار کرتے ہیں، دیکھیں گے کہ پاکستان میں ’’ڈیرے داری‘‘ ہی کی سیاست چل سکتی ہے‘‘ کا نظریہ بار آور ثابت ہوتا ہے جس کے لئے منظور وٹو کو ایک علالت اور دلیل کے روپ میں پیش کیا گیا یا بھٹو کا فلسفہ، یہ کہ ’’سیاست کی جنت عوام کے قدموں تلے ہے‘‘ اور ’’آخری قہقہہ غریب عوام کا ہو گا‘‘، بلاول بھٹو زرداری پدری شفقت اور سماجی جبر کے باوجود اس حصے کا سچ ثابت ہوتا نظر آ رہا ہے، مخدوم امین فہیم کی یاد میں پیپلز پارٹی کے نظریاتی کیڈر کو بلاول کے لئے مزید فکری ہمت کا بند باندھنا چاہئے!
گزری سطور میں مخدوم صاحب کو وزارت عظمیٰ کی چار بار پیش کشوں کا تذکرہ رہا، کسی کو تجسس کا پارا ہو تو وہ مخدوم صاحب کی وفات پر شائع شدہ خبروں اور تحریروں میں یہ کہانیاں پڑھ سکتا ہے،’’صدر‘‘ اور شریک چیئرپرسن آصف علی زرداری کے وژن کو ایک بار اور مخاطب کرتے ہوئے تین باتیں کہہ دینی چاہئیں۔ اولاً یہ کہ پاکستان پیپلز پارٹی کی پیدائش نو میں عوام ہی قافلہ سالار ہوں گے ’’ڈیرہ داری‘‘ اور ’’ELECTABLES‘‘ نہیں ثانیاً یہ کہ مخدوم امین فہیم تو ایک باعزت سیاسی نام اور وراثت کا اندوختہ چھوڑ گئے، دیکھتے ہیں آپ کے وژن کے دو شاہکار ’’ذوالفقار مرزا اور فہمیدہ مرزا‘‘ پاکستان کے عوام میں کیسا سیاسی نام اور کیسی سیاسی وراثت چھوڑتے ہیں، جن کے ذہنی معیار کا اندازہ بلدیاتی انتخاب میں ’’محلہ جاتی‘‘ قسم کی جیت کے بعد ’’بدین‘‘ کو پورا پاکستان اور ’’بدین‘‘ کے ووٹروں کو چاروں صوبوں کے پورے پاکستانی عوام ڈیکلیئر کر دینے سے سامنے آ چکا ہے۔ ثالثاًیہ کہ وژنری ہونا یقیناً عطیہ خداوندی ہے تاہم خدا کوئی عطیہ احترام انساں فراموش کر دینے کے لئے عطا نہیں کرتا (گو آپ خود بھی مجموعی لحاظ سے ہرگز اس قبیل کے نہیں ہیں) آپ نے البتہ مخدوم صاحب کو ہی نہیںپاکستان کے تمام حساس افراد کو ان کے معاملے میں ’’احترام انساں‘‘ کا تقاضا بھول جانے کے صدمے سے دوچار کیا۔ آپ کو یاد ہو گا، بی بی شہید کے بعد منعقدہ پاکستان پیپلز پارٹی کی مجلس عاملہ کے بعد اجلاس میں مخدوم صاحب کے کندھے پر ہاتھ رکھ کے کہا تھا!
’’یہ ہمارے مستقبل کے وزیراعظم ہیں‘‘ آپ خود سوچیں، بعد میں مخدوم صاحب جس توہین آمیز عدم شناخت کے مراحل سے گزرے اس میں ’’احترام انسانی‘‘ کی قدر کتنی گہرائی تک دفن کی گئی یا ہوئی!
پاکستان پیپلز پارٹی عوام کا سمندر ہے، عوام کی ملکیت ہے، بہت جلد اس کی بنیادی دستاویز اس دھرتی کے سپوتوں کو انہی صفحات پر یاد کروائی جائے گی۔
تازہ ترین