• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
صدشکر کہ فاٹا کے خیبر پختونخوا میں انضمام پر اجماع امت ہے، شاید یہ تاریخ کا وہ یادگار لمحہ ہے کہ جو پاکستان جیسے متنوع قومیتی و سلامتی پر مشتمل مختلف نظریات والے ممالک میں کم کم نصیب ہوتا ہے۔ پاکستان کی تمام بڑی جماعتیں متفق ہیں کہ فاٹا کو خیبر پختونخوا میں شامل کیا جائے،۔ایک دور تھا کہ قبائلی منتخب نمائندے اسٹیبلشمنٹ کے آلہ کار گردانے جاتے تھے، اور یہ تاثر عام تھا کہ وہ قبائلی عوام کو پولیٹکل ایجنٹ کے ذریعے غلام رکھ کر اپنے ذاتی مفادات حاصل کرتے ہیں، ایسی سوچ کے حامل اراکین اسمبلی و مشران اب سیاسی طورپر زندہ در گور ہیں ۔ پوری قبائلی پٹی میں ایسے منتخب نمائندے آگئے ہیں جنہوں نے نہ صرف فاٹا کو پختونخوا میں ضم کرنے کا نعرہ بلند کیا، بلکہ عملی طورپر وہ اس کے لئے ہر رکاوٹ عبور کرنے کی خاطر تیار بلکہ پوری قوم کو تیار کرچکے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ پھر انضمام میں تاخیر کیوں ہورہی ہے؟ اگلے روز برادر سلیم صافی کے مقبول عام پروگرام جرگہ میں گفتگو کرتے ہوئے قومی اسمبلی میں فاٹا کے پارلیمانی لیڈر حاجی شاہ جی گل آفریدی نے کہا کہ قبائل کو مین اسٹریم میں لائے بغیر پاکستان پر سے دہشت گردی کا لیبل نہیں ہٹ سکے گا، فاٹا اور دیگر پاکستان میں الگ الگ قوانین ہیں، کیا یہ امتیاز نہیں کہ فاٹا کے اراکین ایوان میں پاکستان کے لئے توقانون بناسکتے ہیں لیکن فاٹا کے لئے قانون سازی نہیں کرسکتے۔خیبر پختونخوا میں انضمام میں پیسہ رکاوٹ نہیں ہے، فاٹا کو تین فیصد این ایف سی ایوارڈ سے رقم دی جارہی ہے 2018کے انتخابات میں فاٹا کو خیبر پختونخوا اسمبلی میں نشستیں مل گئیں تو این ایف سی ایوارڈ سے سات فیصد رقم ملےگی، خیبر پختونخوا میں انضمام کے مخالفین کے ذاتی مفادات ہیں، فاٹا کے عوام خیبر پختونخوا میں شمولیت چاہتے ہیں، فاٹا کے انضمام سےایک بڑا صوبہ بننے پر پختونخوا سے بھی ملک کا صدر اور وزیر اعظم بن سکے گا، خیبر پختونخوا کو فاٹا سے اور فاٹا کو خیبر پختونخوا سے فائدہ ہے۔تحریک انصاف کےرکن قومی اسمبلی قیصر جمال نے کہا کہ قبائلی عوام کی اکثریت خیبر پختونخوا کے ساتھ انضمام کے حق میں ہے، اسٹیبلشمنٹ پہلے فاٹا اصلاحات نہیں چاہتی تھی مگر اب لگتا ہے وہ رضا مند ہے۔پیپلز پارٹی کے اخونزادہ چٹان نے کہا کہ خیبر پختونخوا میں مسلم لیگ ن صرف ہزارہ میں ہے، اس لئے وہ سمجھتی ہے کہ پختونخوا میں فاٹا کے ارکان اسمبلی بھی شامل ہوگئے تو اسے نقصان ہوگا۔ مولانا فضل الرحمن کے برعکس جے یو آئی کے کارکن پختونخوا میں انضمام چاہتے ہیں۔
دوسری طرف  مشیر خارجہ و فاٹا اصلاحات کمیٹی کے سربراہ سر تاج عزیز کا کہنا ہےکہ ’’فاٹا کے عوام اب ایف سی آر کو پسند نہیں کرتے اور وہ فاٹا کے خیبر پختونخوا میں ضم ہونے کے حق میں ہیں، تاہم اس عمل میں چار سے پانچ سال لگ سکتے ہیں۔ باجوڑ کے رکن قومی اسمبلی شہاب الدین خان توفاٹا کے پختونخوامیں شمولیت کیلئےجدوجہد میں صف ائول میں ہیں ،الغرض سینیٹر تاج الدین آفریدی، فاٹا سیاسی اتحادکے نثار مہمند سے لے کر عبدالطیف آفریدی ایڈوکیٹ تک، قبائل کے تمام نمائندے و رہنما یک آواز ہیں کہ فاٹا کو پختونخوا میں ضم کیا جائے۔
تحریک انصاف کی حکومت بالخصوص وزیر اعلیٰ پختونخواتو اس حوالے سے قبائلی اراکین اسمبلی و عوام کے نہ صرف شانہ بشانہ ہیں بلکہ فعال کردار کے باعث انہوں نے قوم پرستوں کو سیاسی کچرا کنڈی کے قریب جا پھینک دیا ہے۔
خیبر پختونخوا کی حکومت کی تجویز یہ ہے کہ فاٹاکو 2018 سے قبل صوبے میں ضم کردیا جائے ،پانچ سالہ منصوبے سے سارا معاملہ غیر یقینی کا شکار ہوجائے گا،پرویز خٹک کا کہنا ہے کہ ہم سات قبائلی ایجنسیوں کو سات یا آٹھ اضلاع میں تقسیم کرسکتے ہیں، ہمارے افسران پہلے ہی وہاں فرائض انجام دے رہے ہیں اس لئے انتظامی انضمام میں کسی قسم کی مشکل درپیش نہیں ہوگی، انہوں نے فاٹا کے لئے ہائبرڈ کورٹس کی تجویز پر خدشات کا اظہار کیا جبکہ رواج ایکٹ کے متعلق انکا کہنا ہے کہ ’’جب آپ فاٹا کو پختونخوا سے جوڑنے کی بات کررہے ہیں تو نیا قانونی نظام کیوں متعارف کرارہے ہیں،کیوں آپ ایک اور پاٹا (صوبائی منتظم شدہ قبائی علاقے) قائم کررہے ہیں، کیوں ایک اور مالاکنڈ بنارہے ہیں، ایک صوبہ ایک حکومت اور ایک نظام رہنے دیں‘‘۔مضحکہ خیز رواج ایکٹ کیخلاف پیپلز پارٹی بھی تحریک انصاف سے متفق ہے۔ ترقی پسندوں کی آبرو، بے باک فرحت اللہ بابر صاحب کا کہنا ہے کہ فاٹا کو ڈی ملٹرائز کرنے کی بجائے فاٹا پیکیج میں مزید ملٹرائز کرنے پر زور دیا گیا ہے جبکہ رواج ایکٹ کے ذریعے صوبے میں تین قوانین نافذ ہو جائیں گے، اضلاع ، صوبائی زیر انتظام قبائلی علاقوں اور دیگر قبائلی علاقوں کے لئے الگ الگ قوانین ہوں گے۔ اس طرح صوبے میں ان قوانین سے مشکلات پیدا ہوں گی‘‘۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ دنیا بھر کے پختونوں کے رواج یکساں ہیں، پھر وفاق نہ جانے کیوں تفریق پر بضد ہے۔فاٹا کے پختونخوا میں شمولیت کے حوالے سے بعض حلقے مولانا فضل الرحمن صاحب، اے این پی اور پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے مبہم اور پھُس پھُسانہ طرز عمل کو اسٹیبلشمنٹ کے روایتی لے پالک کرداروں کے تناظر میں دیکھتے ہیں۔ ان حلقوں کے مطابق اگرچہ یہ ایشوسراپالر او بر یو افغان( افغانستان و پختون بیلٹ کے پختون ایک ہیں)کے داعیوں سے متعلق ہے ،لیکن ایک داعی پختونخوامیپ کا تو اس صوبے میں نام و نشان بھی نہیں ہے جبکہ دوسری داعی اے این پی محض دو تین اضلاع میں جزوی حیثیت سے موجود ہے، جنوبی اضلاع میں پہلے ہی اس کی تنظیم تار تار ہے، ہزارہ میں جانے پر تو اس کے پَر جل جاتے ہیں، اب اگر قبائلی علاقے پختونخوا میں شامل ہوجاتے ہیں تو پھر وہ دو تین اضلاع کی بدولت اقتدار کی سنگھا سن سے کیسے ہم آغوش ہوسکے گی ۔ دوسرے معنوں میں صوبے میں ان کی بارگیننگ پوزیشن مزید کمزور بلکہ تحلیل ہوجائے گی۔ راقم اگرچہ ان حلقوں سے متفق نہیں، لیکن یہ غلط بھی نہیں کہ اے این پی کے صف اول کے لیڈروں کی سرگرمیاں محض مردان، پشاوراور ایک آدھ اور ضلع تک محدود ہیں، ہمارے علم میں نہیں کہ ولی خان بابا کی رحلت کے بعد یہ لیڈر کتنی مرتبہ جنوبی اضلاع گئے ہیں، قبائل کی کیا بات کریں۔ بنابریں سیکولر حکومت سمیت ہر حکومت میں رونق افروز مولانا فضل الرحمن صاحب کی سیاسی خلعت کا خلجان اپنی جگہ، خوش آئند امرمگر یہ ہے کہ ملک کی سب سے بڑی مذہبی جماعت، جماعت اسلامی فاٹا کے پختونخوا میں انضمام کے حوالے سے یکسو ہے۔ اب منظرنامہ یہ ہے کہ ایک طرف وہ جماعتیں اور عوام ہیں جو فرنگی استعمار کی باقیات کے خلاف متحد ہیں اور دوسری طرف وہ مٹھی بھر عناصر ہیں جو ان باقیات کو تقدیس دینے کیلئے ایڑی چوٹی کازور لگا رہے ہیں، ایسے عناصر کے لئے پشتو کاایک ٹپہ پیشِ خدمت ہے۔
بلبل بہ خدائے یہ گُلوموڑ کڑی
ملیارا ستا نیم گڑے نیت مےجڑاوینہ...
مفہوم کچھ یوں ہوگا کہ ’’ عندلیب تو شانِ قدرت سے گُلوں سے بوسہ زن ہو ہی جائیگی،پر حیف!اے باغباںتیری بدنیتی جو عیاں ہوچکی!!





.
تازہ ترین