• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
چینی کہتے ہیں کہ’’ پہلے آدمی سگریٹ کو پیئے پھر سگریٹ، سگریٹ کوپیئے اور آخر میں سگریٹ آدمی کو پی جائے ‘‘ ۔ جاپانی کہاوت ہے کہ سگریٹ وہ چوسنی جو چوسنے والے کو ہی چوس جائے اور سگریٹ پینامطلب اپنا خون پینااور عربی محاورہ ہے کہ ’’سگریٹ کے ایک سرے پر راکھ دراصل اُسی کی ہوتی ہے جو دوسرے سرے پر کش مار رہا ہوتا ہے ‘‘ مگر اپنا شیخو جو اعدادوشمار سے ثابت کرچکا کہ’’ ابھی بھی اتنے لوگ سگریٹ سے نہیں مرتے جتنے سگریٹ پر مرتے ہیں ‘‘۔ جسے جب کہا گیا کہ ’’سگریٹ تو گدھے بھی نہیں پیتے ‘‘تو زیرِ لب مسکرا کر بولا ’’ہاں گدھے سگریٹ نہیں پیتے ‘‘ جسے دیکھ کر دوستوں کو یہ پریشانی نہیںہوتی کہ وہ سگریٹ منہ میں ڈال کر اکثر اسے جلا نا بھول جاتا ہے بلکہ انہیں پریشانی یہ ہوتی ہے کہ سگریٹ جلاتے وقت اکثر وہ سگریٹ منہ میں ڈالنا بھول جاتا ہے ،یہی شیخو ایک شام تمباکو نوشی کے نقصانات پر ایک لمبا لیکچر سننے کے بعد اک نیا سگریٹ سلگا کر بولا’’ سگریٹ پینے پر اعتراض کرنے والے انہیں کیوں بھول جاتے ہیں جوغریبوں کے بچوںکا دودھ ،عوام کا خون اورقوم کی عزت وغیرت سب کچھ پی گئے‘‘ ایک سوٹا مار کر کہنے لگا’’ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ سگریٹ نوشی سے صحت خراب ہوتی ہے تو میں نے 10سال کی عمر سے سگریٹ پینے شروع کئےاور اب 60سال کا ہوگیا ہوں مگر میں آج بھی اتنا ہی طاقتور ہوں جتنا سگریٹ پینے سے پہلے تھا ،پوچھا گیا وہ کیسے تو بولا ’’ یہ سامنے پڑا میز سگریٹ پینے سے پہلے بھی میں نہیں اٹھا سکتا تھا اور اب بھی نہیں اٹھا سکتا ‘‘۔
کہاجاتا ہے کہ دنیا میں 4جاندار ایسے کہ جنہیں سردی نہیں لگتی ،برفانی ریچھ ،پینگوئن ، شادیوں میں جاتی خواتین اور رات کو سگریٹ کی تلاش میں نکلا انسان ۔ ولیم واٹسن کہا کرتے کہ جب میرے گرو نے سمجھا یا کہ ’’پینا ‘‘ٹھیک نہیں تو میں نے پینا چھوڑ دیا ،جب گرو نے کہا کہ ’’ محبت انسان کو بیکار کر دیتی ہے تو میں نے اپنی تینوں محبوباؤںکو چھوڑ دیا ‘‘ اور جب میرے گرو نے کہا کہ’’ سگریٹ چھوڑ دو تو میں نے گروجی کو چھوڑدیا‘‘۔ نامور اداکار انتھونی کوئین اپنی سوانح عمری میں لکھتے ہیںکہ ’’ اپنے ڈاکٹر کے مسلسل لیکچرز کے بعد جب ایک دن میں نے سگریٹ چھوڑنے کاتہیہ کیا تو ایک پرجوش جپھی کے بعد میرا یہ ڈاکٹر بولا’’ اچھا ہوا اس لعنت سے تمہاری جان چھوٹ گئی لیکن اب جب تم سگریٹ چھوڑ ہی چکے ہو تو پھریہ سونے کا لائٹر تمہارے کس کام کا ،یہ میں ہی لے لیتا ہوں ‘‘۔ ایک شکاری جس کی زندگی کی سب سے بڑی خواہش شیر کا شکار تھی اسے جب اسکے پیر نے کہا کہ اگلے سوموار کو سگریٹ پی کر شکار کیلئے جانا ، شیر کا شکار کرلو گے تو پیر کے کہنے پر پیر کے دن شکارپر نکلا یہ شکاری شام ڈھلے جب شدید زخمی ہو کر خالی ہاتھ گھر پہنچا تو مرہم پٹی کے بعدگھر والوں نے پوچھا ’’ لگتا ہے کہ تم سگریٹ پی کر نہیں گئے تھے ‘‘ درد سے کراہتا شکاری بولا ’’ میں تو پی کر گیا تھا مگر لگتا ہے کہ شیر نے بھی سگریٹ پی ہوئی تھی ‘‘۔خاوند کی سگریٹ نوشی سے تنگ بیوی ایک دن بولی ’’ تمہیں آج یہ فیصلہ کرنا ہی پڑے گا کہ مجھے چھوڑ دو یا سگریٹ نوشی ‘‘ مگر گہری سوچ میں ڈوبے خاوند نے جب کافی دیرکوئی جواب نہ د یا تو بیوی پھر بولی ’’ گونگے ،اب کیا سوچ رہے ہو ‘‘ خاوند بولا ’’ جانو سوچ رہا ہوں کہ تمہارے بعد کھانا کون بنائے گا ‘‘۔
جس دنیا میںتحقیق یہاںتک پہنچ چکی ہو کہ مرد کی صحت کیلئے شادی ضروری ، مچھلی اینٹی ڈیپریشن ، ہلدی کا استعمال بزدلوں کو بہادر بنادے، سائیکل چلانے والے لمبی عمر پائیں اور موسیقی کا انتخاب کرتے وقت بندے کے ذہنی رجحان کا بھی پتا چل جائے ، جہاں درد ماپنے والا سافٹ وئیر بن رہا ہو، موبائل فون سے بلڈ پریشر اور دل کی دھڑکنیں چیک ہور ہی ہوں، موٹاپے سے نجات دلانے والے کپڑے تیار ہو رہے ہوں ،خرگوش کے سونے کا راز دریافت ہوچکا ہو ، سونگھ کر مرض کی تشخیص ہو رہی ہو ،پانی سے کمپیوٹر اور کار چلانے کے تجربے ہو چکے ہوں، انسانی سوچ سے چلنے والا ٹی وی تکمیل کے آخری مراحل میں ہو، جہاں نابینا افراد اپنی زبان سے دیکھنے کے قریب ہوں ، ڈرون طیاروں کے ذریعے دور دارز علاقوں میں ادویات پہنچائی جارہی ہوں ، جہاں عقل بڑھانے کا نسخہ دریافت ہو چکا ہو، موم بتی سے موبائل چارج ہونے والے ہوں، فوم کے دل بننے والے ہوں، درختوں کے پتوں سے ناکارہ گردے ٹھیک ہورہے ہوں اور جس جہان میں تحقیق سے مریخ پر چوہے کا پتا چلانے کے ساتھ ساتھ یہ بھی معلوم کر لیا گیا ہو کہ کوّے اپنے ساتھی کے جنازے میں شرکت کرتے ہیں اور ایک اوسطً عمر والا انسان اپنی زندگی کے 3سال باتھ روم میں گزارتا ہے وہاں بھلا سگریٹ اور سگریٹ نوش محققین کی نظروں سے کیسے اوجھل رہ سکتے تھے ،لہذا تحقیق دان ہی بتائیں کہ کسی بڑے شہر کی ہوا میں ایک دن سانس لینے کا مطلب ایک ڈبی سگریٹ پینا اورجس محفل میں ایک ڈبی سگریٹ پی جائے اس محفل میں بیٹھا ہر شخص سگریٹ نہ پی کر بھی دو سگریٹ پی لے ،پھر سگریٹ نوش کا 15فیصد دھواں سگریٹ پینے والے کے پیٹ میںجبکہ 85فیصد دھواں ماحول میںپھیلے اور ہر سگریٹ نوش زندگی میں کم ازکم 5مرتبہ سگریٹ چھوڑنے کی کوشش ضرور کرے ۔ تحقیق ہی بتائے کہ اس وقت زمین پر ایک ارب افراد تمباکو نوش مطلب دنیا کا ہر چھٹا شخص اس مرض میں مبتلا ، پھر سگریٹ نوشی میں چین اول نمبر پر جبکہ دوسرا نمبر روس کا اور تیسری پوزیشن امریکہ کی،اسی طرح انڈونیشیا چوتھے، جاپان پانچویں ،جرمنی چھٹے،بھارت ساتویں،ترکی آٹھویں،کوریا نویںاور ویتنام دسویںنمبر پر ۔
یہ بھی محققین ہی بتائیں کہ فرانس جسکی 25فیصد آبادی سگریٹ پیئے ،اسکے ایک شہر پیرس سے محکمہ صفائی والے ہر سال 350ٹن سگریٹوں کے ٹوٹے اُٹھائیں ،اسی طرح برطانیہ میں نہ صرف ہر پانچواں بالغ سگریٹ پیئے بلکہ 26ملین برطانوی ’’ای سگریٹ‘‘ پئیں ۔ جہاں تک بات ہے اپنے پاکستان کی تو یہاں کے مجاہدین صرف گزشتہ سال ڈھائی کھرب کی 64ارب سگریٹیں پی گئے اورگزرے سال سگریٹوں کی غیر قانونی تجارت کی وجہ سے ملک کو 24ارب کا نقصان ہوا ۔ویسے تو گزشتہ سال دنیا بھر میں 6ملین افراد تمباکو نوشی کیوجہ سے مرے مگر خطرے کی علامت یہ کہ ان میں 6لاکھ وہ بھی تھے کہ جو سگریٹ نوشی سے نہیںسگریٹ کے دھوئیں کی وجہ سے جان گنوا بیٹھے ۔
اس وقت کینیڈا ان ممالک میں سرِفہرست جہاں سب سے کم تمباکو نوشی ہو جبکہ آسٹریلیا ان ملکوں میں پہلے نمبر پر کہ جہاں تمباکو نوشی کے حوالے سے سخت ترین قوانین مگر اس کائنات کا کوئی کیا کرے کہ جہاں ایک طرف ٹیکنالوجی کی ترقی کا یہ عالم کہ آسٹریلیا کی مرغی ٹوئیٹ کر چکی ،جاپانی روبوٹ نے شادی کر لی ، درختوں کو ای میلز بھیجی جارہی ہوں ، گریفین نامی مادے سے تیار ہوئی باریک تار اتنی مضبوط کہ اس پر ہاتھی لٹکایا جا سکے ، چیزوںکو غائب کرنیو الا مادہ دریافت ہو چکا اور بڑھاپے کو ریورس گئیر لگانے والے مرکبات تیار جبکہ دوسری طرف اسی دھرتی پر توہمات اور وہم پرستی کی حالت یہ کہ روس کی تمارا پانے نامی خاتون اپنی آخرت سنوارنے کے چکر میں 11افراد کھا گئی، بھارت میں ایک مقبرے کو لوگ اس لئے جوتے ماریں کہ ان کا سفر اچھا کٹے گا اور کینیا کے لوگ دولتمند ہو نے کیلئے گدھ کا مغز سگریٹ میں بھر کر پئیں۔ لیکن اسی دنیا میں چند ماہ پہلے جب ایک کویتی نے شیشہ(امیروں کا حقہ ) پینے پر اپنی بیوی کو طلاق دی تو غالباً پہلی مرتبہ تمباکو نوشی نے کسی خاوند کو کوئی فائدہ پہنچا یا ورنہ شادی ہو یا سگریٹ نوشی نقصان میں خاوند ہی رہے ، جیسے شادی کرکے اِک انجانا سا درد اسکے دماغ کو گھیرے رکھے ایسے ہی تمباکو نوشی کرنے پر انجائنا کا درد اسکے دل کو گھیر لے ، سگریٹ پینے سے اسکے ہونٹ کالے ہوجائیں تو شادی کے بعد اسکی آنکھوں کے اردگرد سیاہ حلقے پڑجائیں اور پھر شادی اور سگریٹ نوشی دونوں کا ڈائریکٹ اثر پڑے ۔خاوند کی جیب پر ، ایک شخص شادی کیلئے روزانہ دو رکعت ’’صلاۃ الحاجات ‘‘پڑھتا تھا اوراب شادی ہونے کے بعد یہی شخص روزانہ دو رکعت ’’صلاۃ التوبہ ‘‘ پڑھتا ہے لیکن اس سب کے باوجود جیسے ہمارے ہاں شادی کیلئے مرنے والے بہت ایسے ہی سگریٹوں پر جان وار دینے والے بھی بے حساب ،ایک دوست کہے کہ سگریٹ میری سستی بھگائے اور ایک جاننے والا بتائے سگریٹ میری تخلیقی صلاحیتوں کو جلا بخشے۔
یقین جانئے یہ تعریفیں سن کر تو وہ بچہ یاد آجائے کہ جو ان سب کا باپ نکلا، ہوا یوں کہ ایک دن اس بچے کے استا دنے اِک کیڑا ’’اسموک جار‘‘ میں ڈالااور جب یہ کیڑا چند لمحوں میں ہی تڑپ تڑپ کر مرگیاتواستا د نے پوچھا ’’ بیٹا اس سے تم نے کیا سبق سیکھا تو یہ بچہ بولا ’’سر اس سے میں نے یہی سیکھا کہ ا سموکنگ سے پیٹ کے کیڑے مر جاتے ہیں ‘‘تو صاحبو! اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ اسموکنگ پیٹ کے کیڑے ماردیتی ہے تب بھی اسموکنگ اس لئے خطرناک کہ اکثر ا سموکنگ اُسے بھی مار دیتی ہے کہ جس کے ساتھ یہ پیٹ لگا ہوتا ہے۔
تازہ ترین