• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مٹی کے گھروندوں کی سوندھی خوشبو آپ کو بڑی پسند ہے ۔ چوبیس گھنٹے کسی مٹی کے گھروندے میں رہنا پڑے تو لگ پتہ جائے گا۔ فریج نہ اے سی ، پانی نہ باتھ روم، بجلی نہ گیس، صوفہ نہ بیڈ، فقط کھٹملوں سے لبریز ٹوٹی چارپائیاں اور مٹی کی سوندھی خوشبو…رہے نام اللہ کا۔ مٹی کے گھروندوں میں گائیں ، بکریاں اور مرغیاں بھی مکینوں کے ساتھ برابری کی سطح پر قیام پذیر ہوتی ہیں ۔ ان کی سحر انگیز خوشبو بھی مٹی کی سوندھی خوشبو میں شامل ہوکر اسے دو آتشہ کر دیتی ہے ۔ آزمائش شرط ہے ۔
شہروں میں با صلاحیت اور ذہین مصورخواتین دیہی زندگی کے پورٹریٹس بنا کر ان کی عالیشان گیلریوں میں نمائش کرتی ہیں ۔ لش پش کرتی با ذوق خواتین دیہی زندگی کے حسن کو اجاگر کرنے والے ان فن پاروں کو دلچسپی سے دیکھتی ہیں ۔ اخبارات میں ان کے فوٹو چھپتے ہیں اور کیپشن میں لکھا ہوتا ہے کہ ’’خواتین آرٹ کے نمونوں کو دلچسپی سے دیکھ رہی ہیں‘‘ حالانکہ یہ نہ بھی لکھا جائے تو بھی دلچسپی ان کے اَنگ اَنگ سے عیاں ہوتی ہے ۔ ان فن پاروں میں دیہاتی عورتیں سر سبز لہلہاتے کھیتوں کے درمیان بل کھاتی پگڈنڈیوں پر پانی کے دو دو گھڑے سروں پر اور ایک ایک بغل میں اٹھا کر جاتے ہوئے بڑی پر کشش لگتی ہیں ۔ تاہم ان فن پاروں کی فاضل تخلیق کاروں اور ان کو دلچسپی سے دیکھنے والیوں کو اگر ان سر سبز لہلہاتے کھیتوں کے درمیان بل کھاتی پگڈنڈیوں پر پانی سے بھرے تین گھڑے اٹھاکر پچاس قدم بھی چلنا پڑے تو ان کو لگ پتا جائے ۔ کئی تصویروں میں دہقان کھیتوں اور کھلیانوں میں سونا اگاتے نظر آتے ہیں ۔ اگر ایسے خوبصورت فوٹو بنانے والے فوٹو گرافروں کو یہ ’’سونا اگانا‘‘ پڑے تو ان کی آنکھیں ابل پڑیں ۔
آپ کو گائوں کی کھلی اور صاف فضا بھی بڑی پسندہے ۔ اس کھلی اور صاف فضا میں چند دن سانس لینے کاموقع مل جائے تو لوڈ شیڈنگ آپ کا بھرکس نکال دے گی ۔ ان کھلی فضائوں میں واپڈا اس جانفشانی سے اپنی گراں قدر خدمات انجام دیتا ہے کہ آپ کا لیپ ٹاپ چلے گا نہ موبائل چارج ہوگا۔ ہم دیہاتیوں سے تو خیر کچھ بعید نہیں کہ دیر سویر سے مجبوراً سفر کرنا پڑے تو ترنگ میں آ کر سواری کے لئے اپنا ٹریکٹر ہی نکال لیں ۔ آپ کوہماری ٹوٹی پھوٹی سڑکوں پر ایسی آرام دہ گاڑی میں سفر کرنا پڑے تو کمر ایسی دوہری ہو گی کہ اپنے وٹس ایپ کے ذریعے دنیا سے رابطہ منقطع ہونے کا غم بھی بھول جائے گا۔ ہمارا ایک کزن موٹر سائیکل پر ہم سے ملنے آیا ۔ راستے میں اسے تیز بارش اور اولوں نے آ لیا۔ ہمارے گھر تک پہنچتے پہنچتے اس کا حشر نشر ہوگیا۔ اس نے سواری سے اترتے ہی پہلا جملہ یہ کہا ’’ جو لوگ ٹریکٹر اور موٹر سائیکل کو گاڑی کہتے ہیں ، جی کرتا ہے کہ ایک جھانپڑ دوں ان کے منہ پر ‘‘ بہت ممکن ہے کہ یہاں کے کسی ایسے خوشگوار سفر کے بعد آپ کے جذبات بھی کچھ ایسے ہی ہو جائیں ۔
ہاں یاد آیا! مٹی کے گھروندوں کی چھتوں میں سانپ اور بچھو وغیرہ بھی رینگتے رہتے ہیں ۔ یہاں بھِڑیں بھی بکثرت پائی جاتی ہیں ، جن کے کاٹنے سے بقول خالد مسعود خان ’’منہ سُج بھڑولا‘‘ ہوتا ہے ۔اس سلسلے کی ایک آپ بیتی آپ کو سناتے ہیں ۔گزشتہ موسم گرما میں ہماری بیٹھک کے برآمدے میں بھِڑوں نے متعدد چھتے قائم کر لئے ۔ وہ کئی ماہ تک وقتاً فوقتاً ہم لوگوں کو کاٹتی رہیں ۔ ہم نے ہمیشہ صبر اور برداشت سے کام لیا اور ان کے ڈر سے بھِڑوں کے کسی بھی چھتے میں ہاتھ ڈالنے سے گریز کیا۔ پھر ایک دن جب وہ وہاں کھیلتے ہمارے بچوں پر حملہ آور ہو گئیں تو ان کی چیخ و پکار سے ہمارے دل دہل گئے ۔ ہمارے جذبات اس وقت وہی تھے جو نائن الیون کے بعد امریکیوں کے تھے یا پیرس میں دہشت گردی کی حالیہ وارداتوںکے بعد اہل مغرب کے ہیں ۔ پس ہم لوگوں نے ان کے خلاف انتہائی قدم اٹھانے کا فیصلہ کیا اور ’’ہتھیاروں‘‘ سے مسلح ہوکر انہیں گھیر لیا۔ خدا نے ہمیں ایسی ہمت دی کہ چند ہی منٹوں کے اندر بیٹھک کے صحن میں جا بجا بھِڑوں کی ’’ڈیڈ باڈیز‘‘ بکھری پڑی تھیں ۔ غلطی ہم سے یہ ہوئی تھی کہ ہم نے شروع میں بھڑوں کے چھتے قائم کرنے کے عمل سے جان بوجھ کر صرف نظر کیا تھا ، ورنہ یہ نوبت نہ آتی۔
بر سبیل تذکرہ ! یہ بھڑوں کا قضیہ بھی عجیب ہے ۔ دنیا میں ان کو تخلیق کرنے اور ان میں زہر بھر کر دشمنوں پر چھوڑنے والی بڑی طاقتیں یہ نہیں سوچتیں کہ وہ کبھی خود ان پر بھی حملہ آور ہوسکتی ہیں ۔ مانتے ہیں کہ ہمارے بہت سے ’’ گھر کے چراغ ‘‘ اپنے گھر کو آگ لگانے میں یدِ طولیٰ رکھتے ہیں اور
میں اگر سوختہ بخت ہوں تو یہ روزسیاہ
خود دکھایا ہے میرے گھر کے چراغوں نے مجھے
لیکن سوچنا چاہئے کہ ان بھِڑوں کو ہمارے گھر کا چراغ بنایا کس نے اور اپنی جنگوں کے ایندھن کے لئے ان میں زہر کس نے بھرا؟ ہم ’’پینڈو‘‘ تو اپنی عاقبت نا اندیشی کے طفیل خام مال مہیا کرتے ہیں لیکن انکے اصل موجد کون ہیں اور فنڈنگ کر کے انہیں زہریلا کون بناتا ہے ؟ پوچھنا چاہئے کہ ہم’’ دیہاتیوں‘‘ کو جہالت کے خچروں پر بٹھا کر پتھر کے دور کی طرف ہانکنے والوں کا اصل مالک کون ہے؟ بلا شبہ ہم نے خود بھی جنونی بھڑوں کو زہر سے مسلح کر کے انہیں اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرنے میں نام کمایا ہے مگر ’’اہل شہر‘‘ سے سوال کرنے میں کیا حرج ہے کہ یہ کارِ خیر کس کی سرپرستی میں شروع ہوا اور کمال کایہ ہنر ہمیں سکھایا کس نے ؟
بجا کہ وحشی بھڑوں کی کسی بھی درندگی کے حق میں تاویلیں گھڑنا غیر انسانی، غیر اخلاقی اور نیچ فعل ہے اور بلا تخصیص مذہب و ملت اور رنگ و نسل کوئی بھی با ضمیر انسان ایسی وحشیانہ کارروائی کی حمایت نہیں کر سکتا۔ تاہم ضروری ہے کہ تیسری دنیامیں بھی انسانیت کے خلاف بھڑوں کے کسی حملے کی اتنی ہی مذمت کی جائے اور ان کے خلاف ویسے ہی اقدامات کئے جائیں ، جیسے پہلی دنیا میں ان کی کسی انسانیت سوز حرکت کے بعد اٹھائے جاتے ہیں۔ ’’لگژری گھروں ‘‘ میں اگر بارود کی بُو ناگوار ہے تو ’’ مٹی کے گھروندوں ‘‘ میں کیوں رَوا ہے صاحب ؟ ’’شہروں ‘‘ میں بھڑوں کے کاٹنے سے جب ’’منہ سُج بھڑولے‘‘ ہوتے ہیں تو جذبات شیش ناگ ہو جاتے ہیں جبکہ ’’دیہاتیوں‘‘ کو ہمیشہ ’’ڈو مور‘‘ کا سبق دیا جاتا ہے ، بھڑوں کی تخلیق کے دوران بھی اور ان کے خاتمے کے وقت بھی ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارے سمیت ساری دنیا اپنے اپنے گریبان میں جھانکے کہ ان کی کن پالیسیوں کے طفیل تخریب بدوش بھڑیں پید ا ہوتی ہیں اور دنیا کا امن تباہ کرتی ہیں ۔یاد رہے کہ بھڑیں تو بھڑیں ہوتی ہیں چاہے اچھی ہوںیا بری۔ پس ان کا قلع قمع کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی مینو فیکچرنگ انڈسٹری بھی ہر جگہ بند کرنا ہو گی ، ’’فقیروں کے ڈیرے ‘‘ بھی اور خصوصاً ’’امراء کے دولت کدوں‘‘ میں بھی کہ
وہ دن بھی آئے صلیب گر صلیب پر ہو
یہ شہر ایک بار تو روزِ حساب دیکھے
تازہ ترین