• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ایک معروف طبعیات دان نے کہا تھا کہ یہ درست ہے کہ سائنس ابھی تک کائنات کے ارتقاء کے بارے میں کوئی بھی موثر ثبوت دینے سے قاصر ہے لیکن یہ وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ جب بھی یہ راز انسان کے اختیار میںآئے گا تو سب ہی یہ کہیں گے کہ یہ بات تو اتنی سہل اور سامنے کی بات تھی تو پھر نہ جانے کیوں سائنس صدیوں اس راز کو فاش کرنے لئے فارمولوں سے سر پٹختی رہی۔معلوم کے ہوتے ہوئے نا معلوم کی تلاش میں بھٹکتی رہی۔بلدیاتی انتخابات کچھ ہو گئے اور کچھ ابھی باقی ہیں۔نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ جہاں جس کی حکومت تھی وہی سرفراز ہوا۔ بس ایک تبدیلی ہے جو کہیں نہیں آئی۔ بلدیاتی انتخابات کا بنیادی مقصد اختیارات کی عوام تک منتقلی لیا جا تا ہے۔ جہاں اختیار بھی عوام کا ہو اور ذمہ دار بھی وہی قرار پائیں۔ فیصلہ بھی انہی کا ہو اور فیصلہ کن اختیار بھی انکے پاس ہو۔ ایک ایسا نظام جس میں دست طلب کو بڑے بڑے ایوانوں کے دروازے کھٹکھٹانے کی ضرورت نہ پیش آئے۔ مقامی سطح پر مسائل کا حل ہو۔ اپنی جیب سے اپنی ضرورت پوری کی جائے۔ اپنے مسائل پر اپنے وسائل سے قابو پا یا جائے۔ صحت ، تعلیم ، امن وا مان، عدلیہ، پولیس، معیشت اور انصاف کے فیصلے عوام کے اختیار میں ہوں۔ صوبائی حکومتوں کی مداخلت کم سے کم ہو۔فیصلے کہیں بڑے ایوانوں سے مسلط نہ کئے جائیں۔ لوگ اپنے مسائل خود شناخت کر کے انکے حل نکالیں۔اپنے حق کے لئے خود کھڑے ہوں۔ خود ہی نعرہ لگائیں ، خود ہی سوال کریں ، خود ہی وسائل مہیا کریں اور پھر خود ہی ان مسائل کے حل سے بہرہ مندہوں۔تھیوری کے مطابق تو اس سے بہتر نظام نہیں ہو سکتا لیکن عوام کی بڑی تعداد نے بلدیاتی انتخابات میں اس نظام سے مستفید نہ ہونے کا فیصلہ اس طرح کیا ہے کہ کہیں بھی کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ پنجاب میں مسلم لیگ نے اکثریت پائی، کراچی میں ایم کیو ایم ، سندھ میں پیپلز پارٹی اور خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی کی اکثریت قرار پائی۔اس کے معنی کہیں بھی یہ نہیں ہیں کہ لوگ ان حکومتوں سے مطمئن ہیں۔ انکے مسائل حل ہورہے ہیں۔ انہیں انصاف مل رہا ہے۔ انکی آواز سنی جا رہی ہے۔ انکے حق میں فیصلے ہو رہے ہیں یا پھر یہ کہ وہ اپنی صوبائی حکومتوں کی کارکردگی سے اتنے خوش ہیں کہ اب انہیں اس کے سواکچھ سجھائی نہیں دیتا۔
کیسے ممکن تھا کہ پنجاب میں پی ایم ایل ن جیت جائے۔ اسی پنجاب میں جہاں لاہور کے سوا کہیں ترقی نہیں ہوئی۔ جہاں پسماندہ علاقوں میں اب بھی غربت و افلاس کا بھوت ناچ رہا ہے۔ جہاںدور افتادہ علاقوں میں سرکاری ا اسکولوں میں اب بھی مویشیوں کے باڑے بنے ہوئے ہیں۔ جہاں سرکاری اسپتالوں میں موت بٹ رہی ہے۔ جہاں انصاف کے متلاشی نسلوں سے صوبائی دارالحکومت کی عدالتوں میں جوتیاں چٹخا رہے ہیں۔ جہاں اب بھی چوہدری حاکم ہے،اور تھانیدار کم از کم خدا ہے، جہاں برادریوں اور ذاتوں میں انسان تقسیم ہیں۔ جہاںفرقے اور جہالت حکومت کرتے ہیں ۔ جہاں عورت کو ووٹ دینے کا حق اس صدی میں بھی نہیں ہے۔پنجاب کاذکر چھوڑ بھی دیں تو کیا ایم کیو ایم نے کراچی میں لوگوں کو وہ دے دیا جس کے وہ متمنی تھے؟ رینجرز کے آپریشن سے بہت حد تک امن و امان بہتر ضرور ہو ا ہے لیکن کیا امن قائم ہو گیا؟ کیا بھتے لینے والوں کا تدارک ہو گیا؟ کیا شہر کی ٹرانسپورٹ کے مسائل حل ہو گئے؟ سیوریج کا مسئلہ درست ہو گیا؟ گندے پانی کی نکاسی اور صاف پانی کی فراہمی یقینی ہو گئی؟ تھانے بکنا ختم ہو گئے؟ امتحانی سینٹر ز کی فروخت بند ہو گئی؟ سرکاری ا سکولوں میں تعلیم کا نظام بہتر ہو ا؟ سرکاری اسپتالوں میں علاج کی بہتر سہولتیں ملیں؟ قبرستانوں میں قبریں بلیک ہونا ختم ہو گئیں؟ اندرون سندھ کا حال اس سے بھی برا ہے۔ جہالت اور غربت اب لوگوں کے ذہن مائوف کر چکی ہے۔ ترقی نام کی چڑیا سے اب سندھ میں کوئی واقف نہیں ہے۔ تھر میں لوگ اب بھی بھوک سے مر رہے ہیں۔ اندرون سندھ نہ کہیں سڑک بنی ہے نہ ا سکول کھلا ہے، نہ تعلیم عام ہوئی ہے نہ انصاف ملا ہے۔ نہ روشن مستقبل کی کوئی نوید ملی ہے نہ نئے زمانے کا شعور نصیب ہوا ہے۔نہ کسی یونیورسٹی کا افتتاح ہوا ہے نہ کوئی نیا اسپتال بنا ہے۔نہ عوام کو کوئی حق ملا ہے نہ ہی اپنے حق کا انہیں ادراک ہو ا ہے۔ عوام وڈیروں کی جاگیروں میں بدل گئے ہیں۔خواہشیں ، امیدیں اور آرزوئیں اجرک اور سندھی ٹوپی میں دفن کر دی گئی ہیں۔ بس ایک بھٹو ہے جو ٹوٹی پھوٹی سڑکوں میں، بے آباد ریگستانوں میں، کچے سیم زدہ مکانوں میں اور مرتے انسانوں میں زندہ گھوم رہا ہے۔ جمہوریت کے نام پر جھوم رہا ہے۔کے پی کے میں بھی کچھ نہیں بدلا۔ تبدیلی کا نعرہ لگانے سے تبدیلی نہیں آئی۔ پشاور سے ذرا ہی دور جائیں تو زندگی پھر پتھر کے زمانے میں آجاتی ہے۔ وہی رسم و رواج کی قید، وہی قدامت پسندی ، وہی عورتوں پر ظلم ، وہی جہالت اور فاقہ کشی نظر آتی ہے۔ نہ کوئی نئی سڑک بنی ہے نہ صحت کے معاملات بہتر ہوئے ہیں ۔ نہ لڑکیوں کی تعلیم عام ہوئی ہے نہ انصاف کی فراہمی ہوئی ہے۔ نہ غربت ختم ہوئی ہے نہ روزگار کے نئے مواقع تخلیق ہوئے ہیں ۔ سب کچھ وہی ہے جو صدیوں سے تھا ۔صرف ایک تبدیلی کا نعرہ ہے جو غریب اور غیور پٹھان کو منہ چڑا رہا ہے۔بلدیاتی انتخابات کے نتائج اس بات کا بین ثبوت ہیں کہ لوگ اب مطمئن نہیں مجبورہو گئے ہیں۔ مسائل کے حل کی تلاش میں عوام نے چپ سادھ لی ہے۔ خوابوں کو لگام دے دی ہے۔ امیدوں کو تھام لیا ہے۔ دست طلب کو سمیٹ لیا ہے۔ لوگوں کو اپنے مسائل کا حل درکار ہے مگر راستہ سجھائی نہیں دے رہا۔ کہانی کا سرا ہاتھ نہیں آرہا۔ وہ وقت دور نہیں جب لوگوں کو ادراک ہو جائے گا کہ جو مسائل انہیں درپیش ہیں وہ خود ہی انہی مسائل کا حل بھی ہیں۔ جو لوگ انکے حاکم ہیں وہی انکے مطیع بھی ہیں۔ عوام جس نظام کے غلام ہیں اسی میں آقا کے منصب پر بھی عوام ہی فائز ہیں۔ لوگوں کے مسائل کا حل نہ فوج کے پاس ہے نہ روایتی سیاسی جماعتوں کے پاس۔ عوام سب سے بڑی طاقت ہیں۔ سب سے بڑا سچ ہیں۔ سوال یہ ہے کہ یہ سب کب اور کیسے ہو گا؟ حقیقی تبدیلی کیسے آئے گی ۔ حالات کیسے بدلیں گے ۔ مسائل کیسے حل ہو ں گے ۔ترقی کیسے ہو گی ۔ تعلیم کیسے ملے گی ۔ صحت کے مسائل کیسے حل ہوں گے ۔ ہر جگہ سڑک کیسے بنے گی ۔کیا کوئی نئی سیاسی جماعت بنے گی؟ انقلاب آئے گا؟ سیاسی جماعتیں خود اپنا قبلہ درست کریں گی؟ تو صاحبان اس ضمن میں ، میںصرف اس طبعیات دان کی پیشگوئی دہرا سکتا ہوں جس سے بات کا آغاز ہوا تھا۔جب بھی یہ راز عوام کے اختیار میںآئے گا تو سب یہ کہیں گے کہ یہ بات تو اتنی سہل اور سامنے کی بات تھی تو پھر نہ جانے کیوں اس ملک کے عوام اس راز کو فاش کرنے کےلئے سر پٹختی رہی۔معلوم کے ہوتے ہوئے نامعلوم کی تلاش میں بھٹکتی رہی۔
تازہ ترین