• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
حب الوطنی کے بارے میں فرض کیا جاتا ہے کہ یہ ایک ایسی فعال شناخت ہے جس کا مقصد شہریوں کے دل میں دیگر ہم وطنوں کااحساس اور اپنائیت پیدا کرنا ہے، لیکن مذہب اور دیگر الجھے ہوئے تصورات کے ادغام سے وجود میں آنے والی مبہم حب الوطنی ہمارے ہاں پروان چڑھتے ہوئے سماجی اور ثقافتی خدوخال کے علاوہ ہماری قومی سلامتی پر اثر انداز ہوتی ہے۔ اس میں تشدد اور سخت گیررویوں کا پہلو نمایاں دکھائی دیتا ہے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم ایسی شناخت کو پنپنے کا موقع کیوں دیتے ہیں جوہمیں منقسم اور انتہاپسند بناتے ہوئے آپس میںتلخیوں کو بڑھادے؟
گزشتہ ہفتے فارن آفس نے بنگلہ دیش نیشنل پارٹی کے لیڈر، صلاح الدین قادرچوہدری اور محمد علی احسان مجاہد کی پھانسی پر ’’گہری تشویش اور دکھ‘‘ کا اظہار کیا۔وہ رہنمائوں، جن کا تعلق بنگلہ دیش کی جماعت ِاسلامی سے تھا، پارلیمنٹ میں شامل اور اپوزیشن کا حصہ تھے۔ اُنہیں بنگلہ دیشی ٹریبونل کے سامنے پیش کرکے مقدمہ چلایا گیا کیونکہ ان پر 1971ء کی جنگ کے دوران بنگلہ دیشی شہریوں کے خلاف تشدد، قتل و غارت، آبروریزی اور اغوا جیسے جرائم کے مقدمات تھے۔ ہوسکتا ہے کہ ان مقدمات اور سزائوں کے پیچھے سیاسی محرک کارفرما ہو یا انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں نے بنگلہ دیشی کرمنل جسٹس سسٹم کی شفافیت اورغیر جانبداری پر سوال اٹھایا ہو لیکن پاکستان کے پاس بنگلہ دیش کو لیکچر دینے کا کیا اخلاقی اور قانونی جواز ہے کہ وہ 1971ء کی جنگ کی باقیات سے کیسے نمٹے؟یا کیا ہم یہ کہنے کی کوشش کررہے ہیں کہ چوہدری اور مجاہد جنگی جرائم میں ملوث نہ تھے؟
1971ء کی جنگ کی یادیں بہت تکلیف دہ ہیں۔ اس کے نتیجے میں پاکستان دولخت ہوگیا تھا ، لیکن ہم نے اُس سانحے سے کوئی سبق نہ سیکھا۔ چونتیس سال بعدبھی ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ یہ ریاست ِ پاکستان اور اس کی پالیسیاں تھیں جن کی وجہ سے اس کی آبادی کا چھپن فیصد حصہ، جو مشرقی بازومیں رہتا تھا، الگ ہوگیا۔ پاکستان کی اُس وقت کی حکمران اشرافیہ نے علیحدگی کے بیج بودئیے تھے، انڈیا نے صرف اس عمل میں’’ ہاتھ بٹایا‘‘۔ اس میں کوئی شک نہیں مشرقیِ حصے میں علیحدگی سے پہلے بہت ظلم و جبر ہواتھا، بہت سی ایسی کارروائیاں بھی روا رکھی گئیںجو انسانیت سے گری ہوئی تھیں اور دشمن سے جنگ کے دوران ان کا ارتکاب جنگی جرائم کے زمرے میں آتا ہے۔ حمود الرحمٰن کمیشن رپورٹ اور جنرل مشرف کا پاکستان کی طرف سے معافی مانگنا ایک طرف، ہم نے 1971ء کے جنگی جرائم کو کبھی دل سے تسلیم نہیں کیا اور نہ ہی اُن پر کبھی ندامت محسوس کی۔ ہمارا ریاستی بیانیہ ہمیں یہ باور کراتا رہا ہے کہ ریاست اپنے ہی شہریوں پر جنگ مسلط کرسکتی ہے اگر وہ ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھالیں۔ اور جب جنگ شروع ہوجائے توہتھیار اُٹھانے والے شہری خودبخود دشمن کا درجہ پاتے ہوئے انسانی اور قانونی حقوق سے محروم ہوجاتے ہیں۔
انسداد ِ دہشت گردی ایکٹ اور آرمی ایکٹ میں ترامیم، تحفظ ِ پاکستان ایکٹ اور اکیسویں ترمیم کے ذریعے پاکستان نے لیگل فریم ورک کے اندر کرمنل جسٹس سسٹم کو اس طرح تبدیل کرلیا ہے کہ یہ اپنے شہریوں کے جرائم کو بھی جنگی جرائم قراردے کر سزادے سکتا ہے۔ دفاعی اداروں کی سرپرستی میں آگے بڑھایا جانے والا ریاستی بیانیہ یہ ہے کہ اگر ہم دہشت گردی کا ارتکاب کرنے والوں کو شہری حقوق عطا کریں تو دہشت گردی جیت جائے گی جبکہ ریاست اور شہری ہار جائیں گے۔ ہمیں بتایا گیا ہے کہ ریاست کی طرف سے شہریوں کو دہشت گردی سے بچانے اور فیئرٹرائل، جو مشتبہ افراد کو جرم ثابت ہونے تک مجرم نہیں سمجھتا،کے تقاضے پورے کرنے میں تنائو یقینا موجود ہے ، لیکن شہریوں کو دہشت گردی سے بچانے کے لیے انصاف کے مروجہ تقاضوں سے صرف ِ نظر کرنا پڑے گا۔ہمیں بتایا جاتا ہے کہ چونکہ فوجی جوان ہماری حفاظت کے لیے اپنی جانوں کی قربانی دے رہے ہیں، اس لیے اُ ن کی طرف سے دہشت گردی کے خلاف لڑنے اور تفتیش کرنے کے لیے اپنائے گئے طریق ِ کار پر سوال اٹھانا اُن کی قربانیوں کی توہین کے مترادف ہے۔ہمیں باور کرایا جاتا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف لڑائی کے دوران شہری آزادیوں کے تقاضے پورے کرنا ممکن نہیں۔ یہ ایک لامتناہی بیانیہ ہے۔ اگرتحریک ِ طالبان پاکستان کے دہشت گرد اپنے قیدیوں کے سرقلم کرکے دہشت پھیلائیں تو ریاست کواجازت ہے کہ وہ اُنہیں اُڑتے ہوئے ہیلی کاپٹرسے نیچے گرا کر ماردے تاکہ عوام کویقین آجائے کہ ریاست اور شہریوں کے خلاف ہتھیار اٹھانے والوں کو سزا مل کر رہے گی۔ تو پھر یہ بھی درست ہے کہ ریاست جب چاہے کسی کو ہلاک کرکے اُس کی لاش کہیں ٹھکانے لگادے تاکہ دیگر کوعبرت ہو اور وہ ریاست کے خلاف اقدامات اٹھانے سے باز آجائیں۔ آگے بڑھیں تو حب الوطنی یہ بھی تقاضا کرتی ہے کہ جو افراد ’’دہشت گردوں‘‘ کی ہلاکت پر رورہے ہوں، وہ ’’غائب ‘‘ ہو جائیں کیونکہ اُن کاکسی دہشت گرد کے لیے رونا اُن کے ہاتھوں ہلاک ہونے والے شہریوں اور فوجیوں کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف تھا۔
ریاست کی تشدد پر اجارہ داری کی تاریخ بہت المناک واقعات سے لبریز ہے۔اگرچہ کشمکش کے دوران ریاست کی طرف سے تشدد کے استعمال پر نگاہ رکھنا ضروری ہوتا ہے، لیکن اُس وقت حالات اس بات کی اجازت نہیں دیتے۔ یقینا جنگ کے دوران احتساب کی تلوار بے نیام نہیں کی جاسکتی۔ تاہم ہمارے نئی فعالیت اس پر سوال بھی اٹھانے کی اجازت نہیں دیتی۔ ایسا کرنے والے کو دہشت گردوں کا حامی اور ریاست اور اس کی خاطر قربانیاں دینے والوں کا غدار سمجھا جاتا ہے۔ ایک طاقتور فوج قومی اثاثہ ہوتی ہے۔ چونکہ ہم ایک پریشان کن ہمسائیگی میں رہتے ہیں ، اس لیے ہماری سلامتی اور استحکام کا دارومدار ہماری فوج پر ہی ہے۔ اس میں کوئی دوآراء نہیں ہیں، لیکن جہاں تک تاریخ کا تعلق ہے ، ماضی میںہماری فوج ہمارے داخلی سیاسی عدم استحکام کا باعث بھی رہی ہے۔ چنانچہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دوران فوج کو حاصل بالا دستی اور احتساب سے آزادی کو دیکھتے ہوئے یہ خدشہ ذہن میں آتا ہے چونکہ انسداد ِ دہشت گردی کے قوانین کو بناتے ہوئے فوج کی صوابدید کوترجیح دی گئی ہے، اس لیے جنگ ختم ہونے کے بعد کہیں ان کا منفی استعمال دیکھنے میں نہ آئے۔
مولانا عبدالعزیز اور ڈاکٹر عاصم حسین کے کیسز تشویش ناک تضاد کو ظاہر کرتے ہیں۔ لال مسجد کے مولانا عبدالعزیز نے 2007ء میں ریاست کے خلاف بھرپور جنگ کی تھی اور دارالحکومت میں فوجی ایکشن اور جانی نقصان کا باعث بنے تھے۔ ایک کرنل رینک کے افسر بھی آپریشن کے دوران ہلاک ہوئے تھے۔ تاہم ریاست نے مسجد کی مرمت کرا کے مولانا عزیز کو واپس ویسے ہی نظریات پھیلانے کے لیے آزادکردیا جن کی وجہ سے آپریشن کرنا پڑا تھا۔ ا ب وہ تحریک ِ طالبان پاکستان کی کامیابی کے لیے دعائیں کراتے اور داعش کی آمد کی دھمکیاں دیتے ہوئے ہمارے سینوں پر مونگ دل رہے ہیں۔ دوسری طرف ڈاکٹر عاصم حسین حراست میں ہیں۔ سندھ رینجرز نے اُنہیں طویل حراست میں رکھا اور نوّے دن کی تفتیش کے بعد یہ بات سامنے آئی کہ اُن کے اسپتال میں مشتبہ دہشت گردوں کا علاج ہوتا تھا۔ کیا اُن کے اسپتال میں کوئی خصوصی وارڈ تھا جسے دہشت گردوں کے لیے مختص کیا گیا تھا؟کیا ہم اُن ڈاکٹروںپربھی مقدمے قائم کررہے ہیں جنھوں نے مبینہ دہشت گردوں کا علاج کیا تھا؟ کیا نرسیں بھی اسی الزام کی زد میں آئیں گی؟کراچی میں رینجرز کی کارکردگی قابل ِتحسین ہے اور اُنھوں نے شہر سے جرائم پیشہ عناصر کا بڑی حد تک خاتمہ کردیا ہے، تو پھر وہ بدعنوانی کا خاتمہ کیوں نہ کریں۔ آخرحب الوطنی کا تقاضا ہے کہ ریاست کو نقصان پہنچانے والوں کو ہرگز نہ بخشا جائے؟ تو پھر اس الجھن میں کیوں پڑا جائے کہ اصل الزام دہشت گردی ہے یا بدعنوانی؟کیا دونوں ایک جیسی برائیاں نہیں؟
یہاں سوال یہ نہیں کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ ہماری سلامتی کی جنگ ہے یا نہیں، سوال یہ ہے کہ اسے کس طریقے سے لڑا جارہا ہے؟جنگ لڑنے والے یقینا وطن کی خدمت کرتے ہیں، فوجی اور اُن کے اہل ِخانہ کو قربانی دینا پڑتی ہے، چنانچہ ان کو سراہنا اور ان کا اعتراف کرنا ضروری ہے۔ لیکن جب جنگ ہورہی ہوتو خوفناک جرائم بھی ہوتے ہیں۔ انسانی قدریں ان کی وضاحت طلب کرتی ہیں۔ ان کی مذمت کی جاتی ہے، لیکن ان کا جواز پیش نہیں کیا جاتا کہ جنگ میں ایسا ہوجاتا ہے۔ دوسری طرف جنگ کے تقاضے ایسے سوالات اٹھانے کی اجازت نہیں دیتے۔ حب الوطنی کومکمل طور پر ریاست کی تحویل میں دے دینا درست نہیں، اس پر انسانی رویوں اور قانون کی حکمرانی کا بھی کچھ حق ہونا چاہیے۔ سموئل جانسن غالبا ً جنگی جنون کی مذمت کررہے تھے جب اُنھوں نے کہاتھا۔۔۔حب الوطنی لفنگے افراد کی آخری پناہ ہوتی ہے۔‘‘
تازہ ترین