• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
خبر گرم بھی ہے۔ اور عوام میں بے چینی بھی پیدا ہو سکتی ہے۔ پاکستان کے عوام کی پسندیدہ حکومت جس کو عوام کی ہر وقت فکر رہتی ہے۔ وہ بیرونی دبائو پر ایک اور منی بجٹ لانے کی منصوبہ بندی کرنے کے بعد اس پر عمل کے لئے اپنے آپ کو تیار کر چکی ہے۔ پہلے بجٹ کے ثمرات سے عوام کو جو کچھ ملا تھا۔ اس کو ہضم کرنا مشکل تھا کہ ہماری عوامی سرکار ایک اور مہربانی کے لئے تیار ہے۔ ہمارے ملک کی معیشت دعوئوں کے مطابق گزشتہ کئی سالوں کی نسبت کافی بہتر لگ رہی ہے۔ زر مبادلہ کے ذخائر ایک ریکارڈ حد کو چھو چکے ہیں۔ اسٹیٹ بینک کی رپورٹ بھی سب اچھا کی خبر دیتی ہے۔ مگر ہماری پسندیدہ کرنسی ڈالر آئے دن اپنی قیمت میں اضافہ کر رہی ہے۔ پاکستان کی معیشت قرضوں کی وجہ سے پہلے ہی مخدوش ہے۔ ہمارے مشہور زمانہ وزیر خزانہ قرضے کو ملکی ترقی کے لئے ضروری خیال کرتے ہیں۔ اس کے لئے جو بھی شرائط ہوں وہ ان کو منظور ہوتی ہیں۔ آئی ایم ایف کے لوگوں کو بڑی حیرت ہے پاکستان قرضوں کے بدلے میں آئی ایم ایف کی شرائط پر زیادہ اعتراض بھی نہیں کرتا۔ مگر آئی ایم ایف قرضوں کے ذریعے ملکی نظام میں جن تبدیلیوں کے لئے رہنمائی کرتا ہے ان پر عمل درآمد مقررہ وقت میں نہیں ہوتا اور سوچا جاتا ہے کہ سب کچھ ملک کے بہترین مفاد میں ہے۔ کاش ہمارے حکمران اتنا سوچ لیں کہ عوام نے ان کو قرضوں کے ذریعے ملک چلانے کے لئے ووٹ نہیں دیئے تھے۔ ان کا الیکشن سے پہلے سابقہ حکومتوں پر سب سے بڑا اعتراض ہی قرضوں اور آئی ایم ایف کے حوالہ سے ہوتا تھا۔ مگر معاشیات کا کونسا اصول ہے جو مقروض لوگوں کو ترقی اور آزادی دیتا ہے۔
میاں نواز شریف اس وقت بہت ہی دبائو میں نظر آرہے ہیں۔ وہ ذاتی حیثیت میں نئے منی بجٹ کے بارے میں وزیر خزانہ سے متفق نہیں ہیں۔ مگر ان کی مجبوری یہ ہے کہ آئی ایم ایف ٹیکسوں میں ایک ہدف دے چکی ہے۔ اس کے لئے ضروری ہے اور سب سے آسان بھی کہ منی بجٹ بنا کر مطلوبہ رقم کا بندوبست کیا جائے۔ میاں صاحب کو اندازہ ہے کہ منی بجٹ کے اعلان سے ان کی سیاسی مخالفت میں اضافہ ہو گا۔ پھر ان کے اور زرداری صاحب کے درمیان رومانس کو بھی خطرات کا سامنا ہے۔ زرداری صاحب نے چند دن پہلے وزیراعظم پاکستان سے بلاول کے حوالے سے درخواست کی تھی کہ وہ اپنے دوست کے بیٹے کی پنجاب میں اپنی نگرانی میں سیاست کے لئے رہنمائی کریں مگر اس میں سب سے بڑی مخالفت جناب حمزہ شریف کی تھی۔ اس معاملے میں وزیراعلیٰ پنجاب بھی حمزہ کے طرف دار نکلے۔ جبکہ مریم نواز بلاول کے لئے نرم گوشہ رکھتی ہیں۔ وقتی طور پر وزیراعظم نواز شریف نے سیکورٹی کے خطرات کا ذکر کر کے بلاول زرداری کی تربیت کے بارے میں معذرت کر لی ہے سو یہ معاملہ وقتی طور پر ٹل گیا ہے۔
اس نئے منی بجٹ پر مسلم لیگ نواز کی اسمبلی میں حلیف جماعت جو عرف عام میں پیپلز پارٹی اور اپوزیشن کہلاتی ہے اس کے رہنما خورشید شاہ کو نئے اور منی بجٹ پر اپنا کردار نظر آ رہا ہے۔ اس سلسلے میں ان کی مدد کے لئے پاکستان تحریک انصاف کے شاہ محمود قریشی بھی نئی حکمت عملی کے مطابق میدان عمل میں اتر چکے ہیں۔ اب تحریک انصاف اسپیکر کو اپنے نئے حلیفوں کے ساتھ مل کر زچ کرسکے گی اگرچہ اس وقت تحریک انصاف اپنی حکمت عملی بدل رہی ہے۔ وہ دھرنوں کے سلسلے میں خورشید شاہ کو اعتماد میں لے چکے ہیں۔ خورشید شاہ کو اندازہ ہے کہ بلاول بھٹو زرداری کی سیاست کے لئے ان کا اسمبلی میں ایک نیا روپ بہت ضروری ہو گیا ہے پھر پنجاب میں وہ تحریک انصاف کو ہر طرح کی مدد دینے کو تیار نظر آتے ہیں۔ اس کے بدلے میں تحریک انصاف کراچی میں پیپلز پارٹی کو سیاسی طور پر سپورٹ کرے گی اور یہ سب کچھ آئندہ کے بلدیاتی انتخابات کے بعد ممکن ہو سکے گا۔
اس وقت مسلم لیگ نواز سرکار کی سب سے زیادہ توجہ صوبہ پنجاب پر ہے۔ ملک کے سیاسی انتشار میں یہ سب کچھ غیر ضروری لگتا ہے وہ جو کچھ پنجاب کے کسانوں کے لئے کر رہے ہیں اس سے دوسرے صوبوں کے کسان خوش نہیں ہیں۔ پاکستان میں زراعت کی ایک اہمیت اور حیثیت ہے مگر کسانوں کی حالت زار پر توجہ نہیں ہے۔ ابھی چند دن پہلے نواز حکومت نے کھاد کے سلسلے میں سبسڈی دینے کا اعلان کیا ہے اس میں نوکر شاہی نے چالاکی یہ کی ہے کہ یہ سبسڈی ان لوگوں کو ملے گی جو کھاد کو بیرون ملک سے درآمد کریں گے اور حکومت سے مدد وصول کریں گے۔ اس سے کسانوں کو کیا حاصل ہو گا۔ پھر کھاد کی قیمتوں پر کنٹرول بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ کھاد بنانے والے کھاد منگوانے والے اور منڈی کا تاجر سب سے زیادہ منافع حاصل کرتے ہیں۔ کسان کو فی ایکڑ پانچ ہزار کی مدد اصل میں خیرات ہے کہ یہ ایسی رقم ہے جس سے ایک مہینے کی بجلی کا بل یا تیل کا خرچا بھی پورا نہیں ہوتا۔ جب فصل تیار ہوتی ہے تو پہلے اس کو اپنے پرانے قرضے ادا کرنے ہوتے ہیں اور فصل کی قیمت بھی فوراً ادا نہیں ہوتی۔ بیوپاری فصل کی قیمت بھی قسطوں میں دیتا ہے۔ ایسے میں دوسرے صوبے کے کسان وزیراعظم کی پنجاب پر توجہ کو تعصب کا نام دیتے ہیں۔ وزیراعظم کو کسانوں کے معاملات پر خصوصی توجہ دینی چاہئے ورنہ شہروں کی سیاست کسانوں کو بھی دھرنوں کی راہ پر لگا سکتی ہے۔
صوبہ سندھ میں بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے تو آسانی سے مکمل ہو گئے اگرچہ پیپلز پارٹی کو بدین میں خاصا بڑا دھچکا لگا ہے۔ بلاول کے دورے اور زور بیان بھی کوئی خاص اثر نہ دکھا سکے اس ہی وجہ سے حضرت زرداری نے سندھ کے وزیر اعلیٰ کو پوری کابینہ کے ساتھ دبئی حاضری کے لئے بلا رکھا ہے۔ پاکستان کی سیاست کا یہ نیا رنگ ہے۔ زرداری صاحب کو کراچی میں عسکری اداروں کی کارروائی پر سخت اعتراض ہے۔ اگر وہ اس معاملے پر ایم کیو ایم کے ساتھ مل کر کچھ کرنے کا سوچیں تو اس کے لئے پارٹی تیار نہیں۔ اگر احتجاج کر کے اسمبلی سے باہر آ جائیں تو عزت سادات جاتی ہے۔ پھر این آر او کی وجہ سے ان کو خطرہ ہے جو کچھ حاصل کیا ہے وہ بھی انقلاب پسندی کی نذر نہ ہو جائے۔ بلاول سے ان کو زیادہ تیزی کی امید نہیں۔ ایم کیو ایم کے ساتھ اس موقع پر ملنا بھی ان کے مفادات کے لئے مناسب نہیں۔ ایسے میں وہ مسلسل کوشش میں ہیں کہ پاکستان کے عسکری حلقے ان کی گزارشات کو نظر انداز نہ کریں۔
پھر اندرون ملک زرداری صاحب اور میاں نواز شریف کے دوستوں پر بھی مشکل وقت آ ن پڑا ہے۔ زرداری صاحب اور نواز شریف کے مشترکہ دوست ایک ایسی مصیبت میں مبتلا ہیں کہ کسی فقیر یا پیر کا کوئی عمل بھی کام نہیں آ رہا۔ ایک زمانے میں وہ ملک میں سب سے زیادہ خیرات دیا کرتے تھے۔ مگر حالیہ زلزلے میں ان کی طرف سے کسی مدد کا اعلان سامنے نہیں آیا اور وہ میڈیا میں سرمایہ کاری کر رہے تھے وہ معاملات بھی سست روی کا شکار ہیں۔ پہلے وہ حکومت اور اشرافیہ کے معاملے حل کروایا کرتے تھے۔ مخالفین کہتے ہیں کہ اب وہ خود حالات کے جبر کا شکار ہیں۔ ایک طرف سرکار کے ٹیکسوں کی ادائیگی کا مسئلہ ہے۔ دوسری طرف دوست اور بڑے لوگ ان کی مدد کرنے سے قاصر نظر آتے ہیں۔ اگر وہ اس وقت زرداری صاحب کے ایک پیر کا دامن تھام لیں تو ان کی مشکلات آسان ہو سکتی ہیں۔
پیر اعجاز شاہ کو بلاول کے لئے پنجاب میں مقرر کیا گیا ہے مگر بلاول کو پھوپھی کی طرف سے اجازت نہیں مل رہی۔ اس لئے پیر اعجاز فارغ ہیں مگر انہوں نے چند دن پہلے ہی اعلان کیا تھا کہ زرداری صاحب نیب کے مشہور زمانہ مقدمہ سے بری ہو جائیں گے اور کل ہی عدالت نے ثبوت کے اصلی کاغذات نہ ہونے کی وجہ سے زرداری صاحب کو باعزت بری کر دیا ہے۔ یہ بھی پیر اعجاز کی توجہ سے ہو سکا ہے۔ اگر پیر اعجاز کی خدمات ہماری مرکزی سرکار حاصل کر لے تو منی بجٹ پر عوامی ردعمل کا خطرہ ٹل سکتا ہے۔ وہ لوگوں پر ایسا عمل کریں گے کہ مہنگائی بھی لوگوں کو جمہوریت کی طرح اچھی لگنے لگے گی۔
تازہ ترین