• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
25نومبر کو "خواتین پر تشدد کے خاتمے کا عالمی دن " منایا جاتا ہے۔ ابھی چند روز قبل ہم نے بھی یہ دن منایا ہے۔ سرکاری اور غیر سرکاری سطح پر اس دن کے حوالے سے تقاریب کا انعقادبھی کیا گیا۔ گزشتہ کچھ برسوں سے ہم حقوق نسواں سے متعلق دن بہت اہتمام سے مناتے ہیں۔ یہ ایک اچھی روایت ہے۔ حقوق نسواں کے حوالے سے مخصوص دن منانے کا رواج تو مغرب سے آیا ۔ تاہم حقوق نسواں کا درس ہمیں چودہ سو برس قبل ہمارے پیارے نبیﷺ نے دیاتھا۔ اسلام سے قبل صورتحال اسقدر ابتر تھی کہ لڑکیوں کو پیدائش کیساتھ ہی زندہ دفن کر دیا جاتا تھا۔ اسلام نے اس قبیح روایت کا خاتمہ کیا اور بیٹی کو اللہ کی رحمت قرار دیا۔ عورت کو جس قدر حقوق اور عزت و تکریم مذہب اسلام نے دی ۔ اس قدر کسی بھی مذہب میں حاصل نہیں۔مذہب کے علاوہ ہمارا آئین بھی عورت کو ہر طرح کی آزادی فراہم کرتا ہے۔ خود قائد اعظم آزادی نسواں کے علمبردار تھے۔ یہی وجہ ہے کہ انکی بہن محترمہ فاطمہ جناح انکے شانہ بشانہ کام کرتی رہیں۔ متحدہ ہندوستان میں مسلمان اقلیت ہونے کی وجہ سے استحصال کا شکار تھے اور ہر طرح کی ترقی کے دروازے ان پر بند تھے۔ لیکن اس گھٹن زدہ ماحول میں بھی قائد اعظم نے جب تحریک پاکستان کا آغاز کیا تو عورتوں کی شمولیت کی حوصلہ افزائی کی۔ یہی وجہ ہے کہ تحریک پاکستان میں مسلمان خواتین بہت متحرک رہیں۔ پاکستان بننے کے بعد بھی خواتین سیاست سمیت ہر شعبہ زندگی میں شامل رہیں۔ وقت گزرنے کیساتھ ساتھ انکی شمولیت کا دائرہ کار وسیع ہوتا گیا۔
2015 کے پاکستان میں عورت ہر شعبے میں نمایاں دکھائی دیتی ہے۔وہ جہاز اڑارہی ہے۔کھیل کے میدان میں فتح کے جھنڈے گاڑرہی ہے۔ سیاست، صحافت، وکالت،غرض ہر ہر میدان میں سرگرم ہے۔ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ مذہب اور آئین کی جانب سے دی گئی تمام تر آزادی اور حقوق کی فراہمی کے باوجود، صورتحال ہرگز مثالی نہیں ہے۔ خواتین کو مکمل آزادی حاصل ہے اور نہ ہی حقوق۔ تشدد کے واقعات تواتر سے رونما ہوتے ہیں۔غیرت کے نام پر قتل،زیادتی،تیزاب پھینکنا، ہراساں کرنا،اغوا،جبری شادی جیسے واقعات آئے روز رپورٹ ہوتے ہیں۔ یہ صورتحال فقط دور افتادہ علاقوں تک محدود نہیں۔ شہروں میں بھی ایسی وارداتیں عام ہیں۔
عورت فائونڈیشن کے مرتب کردہ اعداد و شمار کے مطابق اس سال جنوری سے جون تک یعنی چھ ماہ میں عورتوں پر تشدد کے4308 واقعات درج ہوئے۔ان میں اغواء، قتل، خود کشی، غیرت کے نام پر قتل، گھریلو تشدد، تیزاب پھینکنے، جیسی دیگر واردات شامل ہیں۔ یہ صرف چھ ماہ میں درج ہونے والے واقعات ہیں ۔یقیناغیر اندراج شدہ واقعات کی تعداد اس سے کئی گنا زیادہ ہو گی۔ کیونکہ میڈیا ، عدلیہ اور دیگر اداروں کی تمام تر آزادی کے باوجود ، آج بھی عورت خود پرہونے والے ظلم کے خلاف آواز اٹھانے سے ڈرتی ہے۔ اسکی بڑی وجہ بطور سماج ہمارا رویہ ہے۔ابھی تک ہماری ذہنی سطح میں زمانہ جاہلیت کا عکس دکھائی دیتا ہے۔بیشتر پڑھے لکھے گھرانوں میں بھی صنفی تفریق موجود ہے۔ خاندان میں مرد کو عورت پر برتری دی جاتی ہے۔ آج بھی بیٹے کی پیدائش پر خوشیاں جبکہ بیٹی کی پیدائش پر سوگ منانے کا رواج عام ہے۔سو اصلاح احوال کی ضرورت اپنی جگہ پر موجود ہے۔
ایسا بھی نہیں کہ ہمارے ہاں اصلاح احوال کی کاوش نہیں ہوئی۔بلا شبہ ہر دور حکومت میں خواتین کے حقوق کو یقینی بنانے کے لئے قانون سازی ہوتی رہی ۔خواتین کی آزادی اورتحفظ کے حوالے سے قوانین کی ایک لمبی فہرست موجود ہے۔ وفاقی اور صوبائی سطح پر خواتین کی بہبود کے حوالے سے بہت سے ادارے بھی قائم ہیں ۔جو باقاعدہ حکومتی سرپرستی میں کام کرتے ہیں۔ سینکڑوں غیر سرکاری تنظیمیں یعنی این جی اوز بھی آزادی نسواں کے حوالے سے متحرک ہیں۔ تاہم حقیقت یہ ہے کہ قانون اور اداروں کی موجودگی سے محدودثمرات حاصل کیے جا سکے۔ مہنگے ہوٹلوں میں منعقدہ سیمینار اور لمبی لمبی تقاریر نچلے طبقے ،دیہات اور دور دراز علاقوں کی عورت کی زندگی میں کوئی خاص تبدیلی لانے سے قاصر رہے۔ ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ قانون تو موجود ہیں مگر انکا نفاذ نہ ہونے کے برابر ہے۔ اسی طرح ادارے تو قائم کر دئیے گئے ہیں مگر انکے حوالے سے آگاہی موجود نہیں۔ مثلاََ2004 میں سندھ ہائی کورٹ نے جرگہ کو غیر قانونی قرار دیا تھا۔ مگر دس سال گزرنے کے باوجود جرگے پوری قوت کیساتھ موجود ہیںاور فیصلے جاری کرتے ہیں۔اسی طرح وفاقی اور صوبائی سطح پر وومن کمیشن قائم ہیں۔ظلم کی دادرسی کیلئے ادارے موجود ہیں۔ خواتین محتسب بھی مقرر ہیں۔ لیکن بیشتر پڑھی لکھی اور دفاتر میں کام کرتی خواتین بھی انکی موجودگی سے لا علم ہیں۔ انہیں معلوم ہی نہیں کہ انکے حقوق کو تحفظ دینے سے متعلق ادارے کام کر رہے ہیںاور وہ ان کے ذریعے ریلیف حاصل کر سکتی ہیں۔ وجہ یہ کہ ان اداروں کی جانب سے مناسب تشہیر کا انتظام ہی نہیں کیا جاتا۔ میڈیا کو بھی سیاسی تماشا گری کو زیر بحث لانے سے فراغت نہیں۔اسی لئے مفاد عامہ سے متعلق ان اداروں کازیادہ ذکر نہیںہوتا۔ بس عورتوں کی آزادی اور حقوق سے متعلق دن مناتے ہوئے ہم سال میں دو چار بار اس حوالے سے بات کر لینا کافی خیال کرتے ہیں۔ اچھا ہو کہ ایک طرف تو ان اداروں کی تشہیر کی جائے اور دوسری طرف اس بات کا جائزہ بھی لیا جائے کہ کروڑوں روپے کے خرچ سے جو ادارے بنائے گئے ہیں انکی کارکردگی کیا ہے۔
اس معاملے کا ایک افسوسناک پہلو یہ بھی ہے کہ ہم نے خواتین کی شمولیت کو تو یقینی بنادیا ہے۔تاہم انکی کارکردگی کو بہتر بنانے پر توجہ نہیں دے سکے ۔مثلاََ اسمبلیوں میں خواتین کی ایک بہت بڑی تعداد برسوں سے موجود ہے۔ تاہم متحرک خواتین کے نام ہم انگلیوں پر گن سکتے ہیں۔ بیشتر خواتین برائے نام کارکردگی کی حامل ہیں۔ وہ قانون سازی میں حصہ لیتی ہیں نہ کسی اور معاملے میں دلچسپی۔ ملک و قوم کو ایسی شمولیت کا بھلا کیا فائدہ ؟ دیگر شعبوں میں بھی ایسی صورتحال نظر آتی ہے۔ ان سب معاملات کو بہتر ہونا چاہئے۔حقوق نسواں کی مکمل فراہمی صرف اسی صورت میں ممکن ہے کہ ہم مغرب کی تقلید کے بجائے اپنے مذہب اور آئین کی اصل روح کے مطابق عورت کا حق تسلیم کریں۔ ہر سطح پر لڑکیوں کی تعلیم کی حوصلہ افزائی کریں۔ انہیں معاشی طور پر مضبوط بنائیں۔ قوانین سے متعلق آگاہی کا اہتمام کریں۔ حکومتوں کی بھی ذمہ داری ہے کہ قوانین بنانے تک محدود نہ رہیں بلکہ ان کے موثر نفاذ کو یقینی بنانے پر بھی توجہ مرکوز کریں۔
تازہ ترین