• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
نئے آرمی چیف، جنرل قمر جاوید باجوہ اپنا منصب سنبھال چکے۔ آنے والے اہم برسوں میں اُن کے کرنے کے کاموں کی فہرست بہت طویل، لیکن یہ فہرست جانی پہچانی ہے ۔ ایک طرف جارحیت پر آمادہ دہلی، دوسری طرف چال باز کابل ، دورہٹتا ہوا ایران اور اب ملک میں منتشر گروہوں کو اپنی طر ف متوجہ کرکے دہشت گردی کا نمایاں ہوتا ہوا چہرہ ، داعش۔ تاہم عمومی تخیل سے دور ایک اور فہرست بھی ہے جس میں شامل امور سے اجتناب برتنا ہوگا ۔ اگر اس فہرست کو غیر جذباتی ہوکر معروضی انداز میں ترتیب دیا جاسکے ، تو اس کے کچھ واضح خدوخال ہونے لگتے ہیں۔
اس فہرست کی تیار کے لئے موجودہ آرمی چیف اپنے پیش رو، جنرل (ر) راحیل شریف کے دور کا جائزہ لیتے ہوئے دیکھ سکتے ہیں کہ اُنہیں کن امور سے دست کش رہناہوگا۔ سب سے پہلے تو نئے آرمی چیف کو فوج میں بطور ادارہ فیصلہ سازی کے عمل کو ایک مستحکم پلاننگ کے تابع کرنا ہوگا۔ سابق چیف صاحب کے دور میں فیصلہ سازی کے پیچھے شخصی اظہار اور خودپارسائی کاتاثر نمایاں رہا۔ اس پالیسی کے بہت سے افسوس ناک نتائج بھی سامنے آئے ۔سب سے پہلا یہ کہ اس رجحان کی وجہ سے آرمی چیف کی شخصیت عوام کی نظروں میں بہت نمایاں ہو گئی لیکن اُن کا ادارہ پس ِ منظر میں چلا گیا ۔ پریس ریلیز اور ٹوئٹ پیغامات میں سنجیدہ معاملات پر سینئر کمانڈرز کی اجتماعی بصیرت اور فہم وفراست کی بجائے جنرل صاحب کی سرگرمیوں کا ذکر سامنے آتا۔ یہ درست ہے کہ فوج پارلیمنٹ کی طرح ارکان کی مساوات رکھنے والا ادارہ نہیں ،اس میں بلند عہدہ زیادہ اختیارات رکھتا ہے ، لیکن یہ ایک فرد پر مشتمل ادارہ تو نہیں۔ آج کے دور میں فرد ِ واحد کی ہی ہمہ گیر فعالیت ممکن بھی نہیں۔ آرمی چیف کی ذاتی پروفائل اپنے ادارے اور اس کی طے شدہ پالیسی کی آئینہ دار ہوتی ہے ۔ نئے آرمی چیف سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ سابق دور کی خود نمائی سے گریز کی پالیسی اپنائیں گے ۔
دوسرا نتیجہ یہ کہ جنرل راحیل کی میڈیا پر نمایاں رہنے کی اسٹرٹیجی کی وجہ سے کچھ ایسے اہداف بھی اجاگر کیےگئے جنہیں بیانات سے بڑھ کر حاصل نہ کیا جاسکا۔ چنانچہ ہم بلند وبانگ دعوے سنتے رہے ، جیسا کہ ’’دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ دیا گیا ہے ‘‘، یا ’’دہشت گردوں پر کاری ضرب لگائی گئی ہے ‘‘، یا ’’ فاٹا کے کچھ حصے سوئٹزرلینڈ بننے کے قریب ہیں‘‘۔ یہ بھی سننے میں آیا کہ دسمبر تک بے گھر ہونے والے تمام افراد گھروں کو واپس چلے جائیںگے ۔۔۔۔ یہ فہرست طویل ہے ۔ اس کے علاوہ حاصل کردہ عام اہداف پر ایسی چکاچوند روشنی ڈالی گئی کہ خدا کی پناہ ۔ جب ایسے دعوئوں کے درمیان دہشت گردی کے خوفناک حملے ہوتے تو ہم مزید بڑھک دار دعوے سنتے ۔ امسال مشرق اور شمال مغربی سرحدوں کی طرف سے پاکستان کی جغرافیائی حدود کی چار سو خلاف ورزیاں ہوئیں۔ تین برسوں میں ان کی تعداد آٹھ سو سے کم نہیں ۔ یہ انتہائی تشویش ناک اعدادوشمار ہیں لیکن ہمارے ملک کے خارجی عوامل خود احتسابی اور پر مغز سوچ بچار کی اجاز ت کہاں دیتے ہیں۔ آج بھی آٹھ لاکھ کے قریب افراد اپنے گھرواپسی کے منتظر ہیں۔ ایک فوجی کمانڈر کو حقائق سے لگاکھانے والے بیانات دینے چاہئیں۔ امید ہے کہ نئے آرمی چیف اپنی اور اپنے ادارے کی ساکھ کو خود نمائی پر ترجیح دیںگے ۔
جنرل راحیل شریف کے میڈیا کو استعمال کرنے کا تیسرا نتیجہ ایسی سیاسی توقعات پیدا کرنا تھا جس کی وجہ سے انواع واقسام کے اینکرز ، صحافی اور دانشور شمشیر بکف ہوکرموجودہ حکومت کے گرم تعاقب میں رہے ۔ گزشتہ تین برس سیاسی میدان ایک شکار گاہ کا منظر پیش کرتا رہا۔ اگرچہ دلیل دی جاسکتی ہے کہ نواز حکومت کو اقتدار میں رہنے کا کوئی حق نہیں ، نیز قبل ازوقت انتخابات کا آپشن خارج ازامکان نہیں لیکن حکومت کی تبدیلی کیلئے آئینی طریقہ موجود ہے ۔ جنرل راحیل شریف کی نظروں کے سامنے بہت سے واقعات پیش آئے جن کے پیچھے حکومت کو نادیدہ ہاتھ کے ذریعے اقتدار سے باہر کرنے کا تاثر دیا گیا ۔ بار ہا اُن کا نام پوسٹر پر دکھائی دیا ، تیسرے امپائر کی باز گشت سنائی دیتی رہی، سنجیدہ سفارتی گفتگوکے درمیان بھی یہ بات سننے کو ملی کہ حکومت کسی بھی لمحے گر سکتی ہے ، لیکن کسی ایک موقع پر بھی آرمی چیف نے ان مفروضات کی تردید نہیں کی اور نہ ہی کہا کہ اُن کے ادارے کا ان سازشوںسے کوئی تعلق نہیں۔
عام طو رپر آرمی چیف بے کار تنازعات میں الجھنے سے غیر معمولی حد تک گزیر کرتے ہیں۔ اس کاایک مظاہرہ حالیہ دنوں دیکھنے میں آیا جب ایک مذہبی تنظیم کے قائد نے آرمی چیف کے عہدے کے لئے پانچ میں ایک امیدوار پر ایک احمقانہ الزام لگایا، لیکن اس پر اتنا سخت رد ِعمل آیا کہ چوبیس گھنٹوں میں ہی اس کی تردید کرنا پڑی۔ جنرل راحیل شریف نے ایسا تاثرقائم کرنے کی اجازت دی جس میں شب خون کادھندلا ماحول گہرا ہوتا دکھائی دیا، نیز اُنھوںنے اپنا نام استعمال کرنے پر کوئی رد ِعمل نہ دیا۔
نئے آرمی چیف کے لئے ضروری ہوگا کہ وہ ضرب عضب جیسے آپریشن کو مکمل طور پر فوجی انداز میں نمٹائیں اور اسے عوامی بنانے سے گریز کیا جائے، آپریشن ضرب عضب کا تسلسل ضروری ہے نیز اس کے نتائج بھی سامنے آنے چاہئیں۔ اس میں شہید ہونے والے جوانوں کو وہی درجہ دیا جو مالا کنڈ، دیر، باجوڑ، بنور، مہمند اورکزئی اور جنوبی وزیرستان میں شہید ہونے والے جوانوں کو دیا گیا۔ ضروری ہے کہ فوجی آپریشن کا ٹائم فریم مقرر کیا جائے۔ ضرب عضب کے بارے میں کہا گیا تھا کہ یہ دو ماہ میں مکمل ہوگا اور اس پر 25بلین روپے خرچ ہوں گے تاہم یہ دو سال سے زیادہ عرصے پر پھیل چکا ہے اور اس پر 200بلین روپے خرچ ہو چکے ہیں اور فی الحال اس کا کوئی اختتام دکھائی نہیں دیتا۔
یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ تجزیہ نگار جادوگروں کی ایک ٹیم میدان میں اتاری گئی جو کئی سال تک ایسی معلومات کا زہر قوم کے ذہن میں اتارتی رہی جس کے بارے میں اُن کی طرف سے ’’راحیل شریف کی سوچ ‘‘ کا تاثر دیا گیا۔ یہ جادوگر کھل کر دفاعی معاملات کا دفاع کرتے رہے ۔ اُن کا دبے لفظوں میں کھلا دعویٰ تھا کہ اُنہیں بریفنگ دی گئی ہے۔ وہ فاٹا کا دور ہ کرتے ہوئے خفیہ گفتگومیں کھلے عام شریک ہوتے رہے ۔ان کے موثر تعاون سے راحیل شریف کو ’’جنرلوں کا جنرل ‘‘ قرار دیا گیا۔ کہا گیا کہ اُن کا ہر اقدام قوم کے فائدے کے لئے بہتر ہے ۔ وہ دنیا کے ہر فوجی اعزاز کے حق دار ہیں۔ نئے آرمی چیف سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ ان تمام امور سے ہاتھ کھینچیں گے ۔

.
تازہ ترین