• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کم وبیش ایک دہائی پہلے کی بات ہے جب ملک میں انسانوں کا بیوپارپورے عروج پر تھا۔ غربت، بھوک اور افلاس کے مارے لوگ آسودگی کی امید پر انسانی تجارت کرنے والوں کے چنگل میں پھنس رہے تھے اور اپنے تمام اثاثے فروخت کر کے اپنے نوجوان بچوں کو انسانی اسمگلروں کے روپ میں درندوں کے سپرد کر رہے تھے۔خوشحال زندگی گزارنے کے خواہشمند والدین اپنی اولاد کےلیے موت خرید رہےتھے۔
ان دنوںانسانوں کے بیوپاریوںنے ملک کے پس ماندہ علاقوں میں جہاں دو وقت کی روٹی بھی محال تھی۔ نوجوانوںکویورپ کی رنگینیوں کے ساتھ ساتھ ڈالروں کے سحر میں مبتلا کردیاتھا۔ غیر قانونی طورپر ایران، ترکی اوریونان کے راستے یورپ میں داخل ہونے کی کوششوں کے دوران رونما ہونےوالےواقعات کی دل دہلا دینے والی خبریں حکومت وقت کی بے حسی اور لاقانونیت کی علامات ظاہر کر رہی تھیں۔یہ حادثات دنیا بھر میں پاکستان اور پاکستانیت کی رسوائی کا باعث بن رہے تھے لیکن حکومت وقت خاموش تھی۔
ایسے کئی واقعات ریکارڈ پر موجود ہیںجن میں سیکڑوں انسان بند کنٹینروں میں سرحد پارا سمگل ہوتے ہوئے دم گھٹنے سے ہلاک ہوگئے۔کئی نوجوان کشتیاں الٹنے سے سمندر برد ہوگئے۔یہ قصے عام تھے کہ ترکی سے کشتیوں کے ذریعے یونان اسمگل کیےجانےوالے لوگوں کواس وقت سمندر میں پھینک دیا جاتا تھا جب زیادہ بوجھ ہونے کی وجہ سے کشتی ہچکولے کھانے لگتی تھی۔یورپ کی جانب انسانوں کی زیادہ تر اسمگلنگ شدید سردی کے موسم میں ہوتی تھی۔انسانی اسمگلر ترکی سے بھیجے جانے والے لوگوں کو رات کے اندھیرے میں یونان کے دور دراز ساحل پر اتار دیتے تھے۔غیرقانونی طورپریورپ میں داخل ہونے والوں کو شدید ٹھنڈ اور برفباری میں یونان کے ساحل سے قریبی قصبوں میں پہنچنےکےلیے بھی سو میل سے بھی زائد فاصلہ پیدل طے کرناپڑتا تھا۔قانون نافذ کرنےوالے اداروں اور سرحدی پولیس سے بچنےکےلیے رات کی تاریکی میں سفر کرنا پڑتا تھا۔سردی کی شدت اور مسلسل برفباری میں کم لوگ ہی منزل مقصود تک پہنچ پاتےتھے باقی سردی، بیماری اور بھوک سے راستے میں ہی دم توڑدیتے تھے۔اس قصے کا راوی گوجرانوالہ کاایک نوجوان تھاجویونان کے کسی قصبے کی جانب سفر کے دوران بھوک اور سردی کے نتیجے میں راستے میں ہی بے ہوش ہو کر گیااور صبح سرحدی پولیس نے انتہائی نازک حالت میںاسپتال پہنچایا جہاں اس کی دونوں ٹانگیں Frost Biteکی وجہ سے کاٹ دی گئیں اور اسے پاکستان کے سفارتخانے کے حوالے کر دیا گیا۔اگرچہ یورپ کے بعد مشرق وسطیٰ (خصوصاًمتحدہ عرب امارات، قطر اور کویت)اسمگل کیے جانے والوں کےلیے بھی اسی اندازمیں سمندری راستہ اختیار کیا جاتا تھا لیکن اس روٹ پر اس قسم کے اندوہناک واقعات دیکھنے یا سننے میں نہیں آئے۔جب حالات بدترین رخ اختیار کر گئے اور انسانی اسمگلروں کے ہاتھوں حکومت کی رٹ چیلنج ہونے لگی تو اس دور کے ایف آئی اے کی ڈاریکٹرجنرل مسٹر طارق پرویز نے ایک مربوط اور مؤثر منصوبہ بندی کے ذریعے انسانوں کے بیوپاریوں کے خلاف مہم کا آغاز کیا۔اس منصوبہ بندی کے تحت انسانی اسمگلروںکے خلاف ملک گیر مہم شروع کرنےسے قبل یورپ اور عرب ممالک کی جانب جانے والے راستے سیل کردیےگئے۔قانون نافذ کرنے والے اداروں،کوسٹ گارڈزاورسرحدی فورسزکےعلاوہ علاقائی پولیس پرمشتمل "HARPOONS"اور "Fox Hunt" کے ناموں سےفورسزتشکیل دیں۔ "HARPOONS" کو خلیجی ممالک کےلیے کام کرنے والے انسانی اسمگلرز مافیا کے خلاف کارروائی کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی جبکہ "Fox Hunt"اس مافیا کے خلاف برسر پیکار تھی جو ایران اور ترکی کے راستے ہیومن ٹریفکنگ کرتے تھے۔ایف آئی اے نے زمینی اور سمندری راستوں کو محفوظ کرنےکے بعد ملک کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے 7000سے زائد ہائی پروفائل ہیومن اسمگلروں کو مختصر عرصے میں گرفتار کر کے جیل بھجوا دیا اور چند مہینوں میں ہی اس مافیا کا صفایاکردیا۔تب اور اب کے حالات میں فرق یہ ہے کہ ماضی کے اس دور میں حکومت کی جانب انسانی اسمگلروں کے خلاف اس لیے کارروائی نہیں کی جاتی تھی کہ اس مافیا کے "Base Camp"حزب اقتدار کے حلقہ انتخاب یعنی گجرات اور اس کے گردونواح کے علاقے تھے اور علاقائی پولیس ان پر ہاتھ ڈالنے کی جرأت نہیں کر سکتی تھی۔جبکہ موجودہ دور میں وزیر داخلہ نے خود انسانی تاجروںکے خلاف کریک ڈاون کا حکم دیا ہے۔لیکن موجودہ دور میں غلطی کی گنجائش کہیں زیادہ ہے۔ایک تو یہ کہ اس کریک ڈاون سے پہلے کوئی ٹھوس منصوبہ بندی نہیں کی گئی اور نہ ہی سمندری اور زمینی راستے بند کیے گئے ہیںجن سے یورپ اور خلیجی ممالک کی طرف ہیومن ٹریفکنگ کی جاتی ہے۔کسی ضابطے اور منصوبے کے تحت ڈیپورٹ کیے جانے والوںکے بیانات کی روشنی میں ہیومن اسمگلروں کے خلاف کریک ڈاون کی کوئی حوصلہ افزا اطلاعات نہیں ملیں۔چند روز قبل انسانوںکے تاجروںکے ہتھے چڑھنے والے ایک نوجوان کے بھائی کا چونکا دینے والا خط موصول ہوا۔ چک28شمالی، تحصیل و ضلع سرگودھا کے نوجوان سہیل انجم ولد محمد شریف نے لکھا ہے کہ اس کا بھائی محمد رشید چار سال قبل کرل تروکڑ خوشاب کے ایک ایجنٹ کے ہاتھ چڑھ گیا۔غربت اور افلاس کے ستائے ہوئے اس خاندان نے اس ایجنٹ کو مانگ تانگ کر دو ڈھائی لاکھ روپے دیے اور رشید کو خلیجی ملک بھیجنے کی تیاری مکمل ہوگئی۔لیکن اس ایجنٹ نے اہل خانہ کو ائرپورٹ پر اسے الوداع کہنے کی اجازت نہیں دی اور اسے ساتھ مردان لے گیا۔تقریباًدس روز تک وہاں قیام کیا اور اس دوران اس کے پیٹ میں ہیروئین کی تھیلیاں بھردیں اور اسلام آباد ائرپورٹ سے خلیجی ملک روانہ کر دیا لیکن وہ ائرپورٹ پر پکڑا گیا اور ضابطے کی قانونی کارروائی کے بعد اس کا سر قلم کر دیا گیا۔سہیل انجم کا کہنا ہے کہ اس نے اپنے بھائی سے خلیجی ملک کے جیل میں ملاقات کی اور اس نے یہ تمام روداد بیان کرتے ہوئے ایجنٹ کو ہیروئین اسمگلنگ کا ذمہ دار ٹھرایا۔اب اس کا کہنا ہے کہ اس نے ایف آئی اے اور مقامی پولیس کی بارہا اس ایجنٹ کو گرفتار کرکے قانون کے مطابق سزا دینے کی استدعا کی لیکن سب سنی ان سنی کر دیتے ہیں۔ایف آئی اے کے مقامی دفترسے رابطہ کیا تو ذمہ دار افسر نے اس کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کے بجائے اسے بلا کر صلح صفائی کرادی لیکن اس کے بھائی نے اس ایجنٹ کے جرم کی جو سزا پائی اس کا خمیازہ پورا نہیں ہوا۔ کیونکہ ایف آئی اے بھی آج کل "کارگردگی" کے بجائے "کارگزاری" دکھانے میں مصروف ہے اور گناہگاروں اور بے گناہوں کو ایک ہی لاٹھی سے ہانک رہی ہے۔ "کارگزاری"دکھانے سے انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہو سکتے اور اس طرح انصاف مظلوم کے دروازوں سے دور ہوتا چلا جائے گا۔
تازہ ترین