• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
دوسری جنگ عظیم کے دوران جرمن طیاروں کی بمباری نے اتحادی ممالک کی اینٹ سے اینٹ بجا دی‘ بطور خاص اپنے پرانے اور اصل حریف برطانیہ (جو اس زمانے میں برطانیہ عظمیٰ ہوا کرتا تھا) کو اس بری طرح کھدیڑ ڈالا کہ کوئی گھر‘ عمارت تو ا یک طرف سنگ و خشت تک ٹکڑوں میں بٹ گئے۔ خورونوش کی قلت‘ جنگ کی تباہ کاریاں‘ سفاک دشمن سے شکست کا خوف‘ موسم کی شدت‘ سر ڈھانپنے کا کپڑا ‘ نہ پناہ لینے کو چھت‘ ہزار ہا جنگی طیاروں کی اندھا دھند بمباری‘ جان سے بے زار بجھی امیدوں کے ساتھ عوام کا ایک جم غفیر برطانوی وزیراعظم چرچل کی رہائش گاہ کے باہر جمع ہو گیا‘ اپنی پریشانی اور بے چارگی کے اظہار میں ہرکوئی سبقت چاہتا تھا ۔ چرچل کو بے چین اور ناآسودہ شہریوں کا سامنا کرنے میں کوئی دشواری نہ تھی کہ وہ انہی کا منتخب نمائندہ اور بھروسے کا لیڈر تھا۔ وہ یوں گویا ہوا’’میرے ہم وطنو! جو کچھ تمہارے اور تمہارے خاندانوں پر بیت رہی ہے‘ میں سب جانتا ہوں‘ آپ یہ فرمائیے کہ کیا برطانیہ عظمیٰ میں عدالتیں موجود ہیں؟ جو اب ملا جی ہاں عدالتیں موجود ہیں، پھر پوچھا کیا وہ اپنا کام کررہی ہیں؟ جواب آیا ہاں عدلیہ بخوبی کام انجام دیتی ہے، تیسرا سوال تھا‘ کیا برطانیہ عظمیٰ کی عدلیہ انصاف کرتی ہے؟ جواب ہاں‘عدلیہ کی طرف سے انصاف کیا جاتا ہے۔ چرچل نے کہا آپ گھروں کو واپس جائیے‘ اس اطمینان اور یقین کے ساتھ کہ کوئی ہمیں شکست نہیں دے سکے گا اور برطانیہ سرخرو ٹھہرے گا۔ اپنے وزیراعظم کے اس یقین پر سب کو بھروسہ اور اطمینان تھا۔ تاریخ گواہ ہے کہ محوری طاقتیں برباد ہو گئیں‘ ایک عبرتناک شکست نے ان کی کمر توڑ ڈالی‘ چرچل اور اس کی قوم ان کٹھن مرحلوں سے سرخرو نکلے،اگر کسی قوم میں عدل کانظام مروج ہو تو جنگ کا میدان بھی کمرۂ عدالت کی نیک نیتی سے متاثر ہوتا ہے۔
زیرزمین پلیٹوں کے ردوبدل نے زمین کو جھنجھوڑ ڈالا، خوفناک زلزلے سے در و بام لرزنے لگے‘ مسلمانوں کے خلیفہ ثانی عمر فاروقؓ زمین پر نشست کئے کاروبار خلافت میں مصروف تھے‘ زمین نے زور کا جھٹکا کھایا تو خلیفہ وقت نے اس پر دایاں ہاتھ رسید کیا‘ جیسے کسی کو زور دار تھپڑ دے مارا ہو اور فرمایا ’’اے کرۂ ارضی ! کیا عمرؓ تمہارے اوپر بیٹھ کر عدل نہیں کرتا؟ اس کے ساتھ ہی زلزلہ تھم چکا تھا‘ لرزیدہ درو بام ساکت اور پرسکون ہو گئے۔ قابل بھروسہ نظام انصاف سے حاصل ہونے والی ذہنی رو اور روحانی حالت جنگ کے نقشے بدل ڈالتی اور تہہ زمین اٹھنے والے بھونچال کو روک دیتی ہے۔
دوسری طرف ایک مغربی دانشور کا قول ہے کہ ’’جنگ کے میدانوں میں اس قدر ظلم روا نہیں رکھا گیا جس قدر انصاف کے ایوانوں میں ہوتا ہے۔‘‘ نکلتے قد‘ تنومند جسم کا سال خوردہ بزرگ‘ سن و سال کی طویل مسافت نے جس کی کمر کو قدرے خمیدہ کر دیا تھا‘ مگر چہرے کی تازگی‘ آنکھوں کی چمک اور دل کا اطمینان یوں کہ ایک بچے کی معصومیت اس کی شخصیت کا حصہ تھی۔ زنداں خانے میں تنہا گہرے غور و فکر میں غرق‘ خرد کی گتھیاں سلجھاتا‘ روح کی گہرائیوں کو ٹٹولتا ہوا، گردا گرد تنہائی میں کچھ اضطراب سا تھا، بے چینی سی، بے دھیانی میں نظر اٹھتی ہے تو زنداں کی سلاخوں کے ساتھ اس کے کتنے ہی شاگرد اور سربرآوردہ شہری خاموشی سے دبے پائوں چلے آئے‘ کوئی آواز پیدا کئے بغیر جانے کب سے دیوار کی طرح ساکت کھڑے تھے کہ استاد کا انہماک متاثر نہ ہو‘ اب استاد کو اپنی طرف نگراں دیکھا تو ان کے ہونٹ لرزنے لگے‘ آنکھیں رواں ہو گئیں ‘ استاد اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا‘ اب وہ سلاخوں کو پکڑکے کھڑا تھا‘ پھر آنے والوں سے مخاطب ہوا ’’میرے بچو! میں تمہیں کچھ مضطرب اور پریشان دیکھتا ہوں‘ میرے عزیزو ! وہ کون سا انجانا روگ ہے جو تمہیں افسردہ کئے دیتا ہے؟ شاگردوں میں سب سے چہیتا ایک قدم آگے بڑھ کے گویا ہوا ’’استاد آپ بے گناہ مارے جا رہے ہیں اور یہی غم ہمیں گھن کی طرح کھائے جاتا ہے۔‘‘ استاد تعجب سے دیکھتے ہوئے ’’تو کیا آپ چاہتے ہیں کہ میں بے گناہ کی بجائے گنہگار بن کے مارا جائوں؟ کیا تم چاہتے ہو کہ میںبے گناہی کی موت کی سعادت سے محروم کر دیا جائوں؟ وہ زہر کے پیالے کو یوں گھونٹ گھونٹ پیتا رہا جوں خوشگوار امرت سے سیراب ہو اجاتا ہے۔ اسے مر جانے میں اس قدر عجلت تھی‘جیسے کوئی جوان رعنا یاسمن بو سے ہمکنارہونے میں جلدی کرے۔ گزرے زمانوںسے آج تک کے فلسفیوں‘ شاعروں‘ ادیبوں اور دانش وروں کے استاد ’’سقراط‘‘ کیا زہر خورانی سے مر گئے؟ نہیں تین ہزار سال سے آج تک اب بھی زندہ ہیں‘ توانا اور جواں۔ زہر ہلال نے ان کی خمیدہ کمر کو سیدھا کر دیا ہے‘ اب وہ 39 برس کا جوان ہے‘ ہمارے درمیان چلتا پھرتا ‘ سرحدوں‘ لکیروں‘ جنگلوں‘ بیابانوں‘ سمندروں‘ پہاڑوںکی رکاوٹوں سے بے نیاز‘ ساری دنیا او رسارے زمانوں کے شاگردوں کو تہذیب و دانش‘ فہم و ادراک کی تعلیم دیتا ہوا‘ ایٹم اورہائیڈروجن بم کی تباہ کاریوں سے جب انسانیت دم توڑ دے گی ‘ وہ تب بھی زندہ سلامت رہے گا‘ اگلے زمانوں کی رہنمائی کیلئے۔
بے خودی میں انا الحق پکارنے والا منصور حلاج‘ کامل صوفی‘ بے ریا‘ بن پئے سرشار رہنے والا‘ ننگی زمین پر بیٹھ کے آسمانوں کی سیر کرتا‘ بادشاہ کے چغل خوروں اور ہم عصر صوفیوں کی چشمک کا شکار ہوا، جسے جنید ِبغداد نے دو لکڑیوں کی خبر دی‘ دو لکڑیوں کی سولی پر جھولتے جسم پر ‘ تماشائی سنگ باری کر رہے تھے تو شبلیؒ نے پھول مارا (پھینکا) تو ’’سولی‘‘ کی اذیت اور پتھروں کی ضرب سے جس کی آہ نہ نکلی‘ شبلیؒ کے پھول پر تڑپ اٹھا، پھر اگلے دن ایک لاشہ زیر زمین دفن کر دیا گیا اور آج فیصلہ دینے والا قاضی‘ حکم صادر کرنے والا بادشاہ‘ لباس بدل کے آنے والا صوفی‘ پھول مارنے والا دوست‘ سب تہہ خاک اس کے ہمسایہ ہیں‘ مگر کیا منصور حلاج مر گیا؟ نابود ہوا؟ بے نام ٹھہرا؟
اب پاکستان کی محبت اور قوم سے وفاداری کی قیمت مولوی فرید کا خون ہوا‘ پروفیسر غلام اعظم کی جیل میں قضا آئی‘ مطیع الرحمن‘ میر قاسم علی‘ علی احسن مجاہد‘ صلاح الدین قادر چوہدری ؟
جہاں ہم ہیں وہاں دار و سن کی آزمائش ہے
لوگو! گواہ رہنا ان بہادر پاکستانیوں نے عزت ‘ وقار اور دلیری کے ساتھ موت کو لبیک کہا‘ جلا وطن ہوئے‘ آہ وفغاں کی نہ معافی کے طلبگار بنے ‘ مگر پھر بھی یہ زندہ رہیں گے‘ آنے والوں کی رہنمائی کیلئے
آہ! بے خطائوں کو خطا کاروں نے مار ڈالا
سیاست اور عدالت کا غیرمقدس اتحاد ازل سے یہی گل کھلاتا رہا ہے، آج بھی پاکستان اور بنگلہ دیش میں عجیب مماثلت پائی جاتی ہے۔ وہاں عدالتیں سیاست کے ایماء پر بے گناہوں کو پھانسی پر لٹکا رہی ہیں اور یہاں تاثر ہے کہ گنہگاروں کو بے گناہی کے پروانے بٹ رہے ہیں۔
آج کوئی ہے جو زمین کو دو ہتڑ دے اور کہے ٹھہر جا، کیا میں تیری پیٹھ پر بیٹھ کر انصاف نہیں کرتا؟ اور لرزہ زمین ساکت اور پرسکون ہو جائے۔ آج شرق و غرب میں سب مذاہب اور تہذیبوں میں کوئی ایک تو چرچل کی طرح اپنی قوم کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دعویٰ کرے کہ ہماری عدالتیں انصاف کرتی ہیں اور اس انصاف میں اتنی طاقت ہے کہ وہ میدان ’’وغا‘‘ کا نقشہ بدل دے۔
تازہ ترین