• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بھولی بسری داستان، گزرا خیال۔ ڈاکٹر عافیہ سے متعلقین میں سے کسی کا ان سے رابطہ نہیں۔ نہیں معلوم کہ وہ کس حالت میں ہے؟ بس اتنا معلوم کہ ریاست ٹیکساس کے ایک فوجی میڈیکل سنٹر، فورٹ ورتھ میں سائنسی اور نفسیاتی تجربات کے لئے زیراستعمال ہے۔ پچھلے چند دنوں سے رات سوتے جاگتے، ڈاکٹر عافیہ، وزیراعظم پاکستان تک اپنا ایک خط میرے تصور کو ازبر کرواتی رہی ہے۔ا ٓج جو کچھ تصور سے اکٹھا کر پایا، وزیراعظم کی خدمت میں پیش ہے۔ جناب وزیراعظم اگرچہ ایسا مشورہ سوئے ادب ہے، مجبوراً پیش خدمت ہے۔ صدر اوباما اگلے چند دنوں میں خواتین قیدیوں کو فراخدلی سے معافی دینے والے ہیں۔ جناب وزیراعظم اگر آپ بنفس نفیس اوباما کو فون کرکے ذاتی منت ترلا کرڈالیں، تو یقیناً رہائی ممکن ہوگی۔ عافیہ بی بی کا خط ملاحظہ فرمائیں۔ محترم وزیراعظم اسلامیہ جمہوریہ پاکستان! السلام و علیکم ورحمۃ: میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی،مملکت خداداد پاکستان، جس کے آپ وزیراعظم ہیں، کی ایک حقیر مخلوق ہوں۔ میرا خط آپ کو شاید چونکا نہ سکے یا آپ خاطر میں نہ لائیں۔ ہمت اس لئے باند ھی کہ چونکہ دنوں کے پھرتے اچھے دن آپ کو مل چکے چنانچہ اپنی بات آپ کے سامنے رکھ دوں۔ پچھلے چند سال سے یقیناً حکومتی جھمیلوں، اندیشوں، وسوسوں نے آپ کے خیالات کو تتربتر رکھا۔ چنانچہ بھولی داستان بھلا مصروف ذہن کے کیسے اور کیونکر دریچے کھول پاتی؟ اب جبکہ بظاہر ایک سیاسی ٹھہرائو سامنے، سوچا کیوں نہ اپنے مرنے سے پہلے آخری خواہش کا اظہار کردوں۔ یقین جانئے قیامت کے ان سالوں میں میری ریاست حکومت پاکستان سے یہ پہلی درخواست ہوگی۔ اس سے پہلے جتنی گزارشات، مطالبات حکمرانوں تک پہنچے، میری رضا اور منشا شامل نہ تھی۔ میں تو یہاں امریکی عدالت کے سامنے اپنی آخری اپیل کے حق سے دستبردار رہی۔ تاریخ انسانی کے سب سے بڑے عدالتی فراڈ کا حصہ بننا، میرے لئے اعانت فراڈ ہی تو تھا۔
ایک ہی دعا تو اللہ کے ہاں گڑگڑا کر، رو رو کر مانگی۔ آنسوٗوں سے تر دعا، قبولیت کا شرف ضرور حاصل کرے گی۔ یااللہ ’’میں مرنا چاہتی ہوں‘‘، قبول فرما۔ میری روح اپنے تن خاکی سے جدا ہونے کو تڑپ رہی ہے۔ قفس عنصری سے باہر آنے کیلئے ایڑیاں رگڑ رہی ہے۔جناب وزیراعظم! میری آخری خواہش پر گھبرائیں نہ پریشان ہوں۔ امتحان میں نہیں ڈالوں گی۔ امید ہے، مرنے سے پہلے میری یہ خواہش پوری ہو جائے گی۔ محترم وزیراعظم! آپ بھی ایک عدد بیٹی کے باپ ہیں۔ بھلا آپ سے زیادہ کون جانتا ہوگا کہ نیک مریم کی تکریم پر خدانخواستہ معمولی حرف، آپ کو بے حال کر جائے گا۔ اس کے مقابلے میں میری عزت، عصمت، وقار کی پامالی، ایک ضرب المثل بن چکی، مگر کسی حکمران کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔
یہاں کسی سے مقابلہ مقصود نہیں صرف غم کی شدت واضح کرنے کےلئے مثال دی ہے۔ غریب الوطنی، برمی مسلمانوں ماند، کم تر و بدتر ہونے کا احساس ہے۔ جناب والا شاید آپ کے علم میں ہوکہ مجھے ایک امریکی عدالتی سوانگ و بہروپ نے 86 سال سزا تجویز کی ہے۔ عدالتی بہروپ کا ایسا کارنامہ دنیا کے سب سے بڑے ترقی یافتہ ملک نے ہی تو رچایا ہے۔ اطمینان اتنا کہ امریکی ’’مجرمانہ عدالتی نظام‘‘ کا بھانڈہ سرعام میرے کیس نے پھوڑا ہے۔ امریکیوں کا مکروہ، دغاباز اور سیاہ چہرہ دنیا کے سامنے آچکا۔ چند دنوں میں میری اذیت، عقوبت کے پانچ ہزار دن مکمل ہو جائیں گے۔ 2008 میں گولیوں سے چھلنی حالت میں، افغانستان سے امریکہ منتقل کرنے کا ڈرامہ رچایا گیا۔ قبل ازیں، مارچ2003 میں وطنی ایجنسیوں نے مملکت کے آئین اور قانون کی دھجیاں بکھیرتے مجھے میرے تین بچوں (6 ماہ، 4 سال،6سال) سمیت ماں کے گھر سے نکلتے ہی اغوا کرلیا۔ یہ وہ زمانہ، جب بردہ فروشی قانونی اور قومی مفاد میں تھی۔ پاسبانوں، رکھوالوں نے امریکہ کے ہاتھ مجھے فروخت کر ڈالا۔ بعد ازاں مجھے بگرام کی بدنام زمانہ جیل پہنچا دیا گیا۔
بگرام جیل سے کئی بار باہر جانا رہا۔ ٹارچرز، تکلیف، تشدد، بے حرمتی کے حصول کے لئے دربدر کی خوب ٹھوکریں کھائیں۔ کبھی ایک جگہ، کبھی دوسری اور کبھی کبھار امریکی بحری بیڑوں پر واقع عقوبت خانوں کی سیر مقدر بنی۔ ہمیشہ عزت، وقار، عصمت کے تقدس کی پامالی، جسمانی تشدد اور اذیت سے زیادہ تکلیف دہ رہے۔ دسمبر جنوری میں بگرام کی یخ بستہ راتوں کو یخ بستہ پانی میں غوطے یا غسل یا دوسری اذیتوں سے زیادہ جسمانی بے حرمتی نے میرے روح و دماغ کو مائوف رکھا۔ محترم وزیراعظم ! میری سمجھ میں یہی کچھ آیا کہ اس حالت زار کی واحد وجہ میرا راسخ العقیدہ مسلمان ہونا ہے۔ دینی دنیاوی تعلیم، حفظ، امریکہ کی بہترین یونیورسٹیوں سے تعلیم و تحقیق، کئی بین الاقوامی زبانوں پر دسترس کا مقصد، اپنی زندگی کو مثالی بنانا اور اللہ کی خوشنودی تھا۔ یہ سب کچھ میرا گناہ کیوں بن گیا؟ میرا اب بھی یہ قلق کہ مملکت اسلامیہ کے رکھوالوں نے ایک 30 سالہ بے بس، نحیف کو اغوا کرکے امریکی بھیڑیوں کی کچھار پہنچایا۔ مملکت کا دستور نظریہ اسلام،اسلامی اقدار، بنیادی حقوق کی ذمہ داری لیتا ہے۔ رکھوالے دھجیاں بکھیرنے والے کیوں بن گئے؟ اذیت اور تشدد نے کئی کئی ہفتے ادھ موا رکھا۔ کبھی مجھے امریکی شہری بتایا گیا۔ کبھی رنگے ہاتھوں پکڑے جانے کا انکشاف ہوا۔ کبھی حراستی حصار سے فرار ہونے کی کوشش کو ناکام بنانا مشہور رہا۔ کبھی دہشت گرد، القاعدہ لیڈی کا نام ملا اور کبھی قیدی نمبر886 کا نام۔ 7 سال ظالمانہ قبضے میں رکھنے کے بعد، جب میرا مقدمہ چلا تو جو فردِجرم عائد ہوئی، عدالتی بہروپیا پن ظاہر کر گئی۔ جھوٹ اور فریب کاری نے کم ازکم انتا ضرور ثابت کیا کہ میرے پر ڈھائے جانے والے جسمانی، ذہنی اور روحانی تشدد کی وجہ کچھ اور تھی۔ ایسی فردِجرم مجھے سرخرو کرگئی۔ لغو الزام اتنا کہ ’’ 22 کلو گرام وزنی زیرحراست ملزمہ عافیہ نے پلک جھپکتے امریکی فوجیوں سے اپنے کو چھڑوایا، جھپٹ کر ایک عد د15/20 کلوگرام وزنی رائفل چھینی۔ ڈیوٹی پر مامور فوجیوں پر گولی چلائی، نشانہ اگرچہ خطا رہا۔ البتہ جواباً فائرنگ عافیہ کو چھلنی کر گئیں۔ بغیر کوئی فرانزک رپورٹ، ثبوت، گواہ عدالت نے مجرم گردانا۔ 86 سال کی سزا ہوئی۔ سزا ایسی کڑی کہ آج تک حکومت پاکستان یا خاندان یا اپنے بچوں یا وکیلوں سے ملنے کی اجازت نہیں۔ میرے پر ذہنی اذیت کے جدید ترین طریقے آزمائے جا رہے ہیں۔ ذہنی طور پر مفلوج و اپاہج رکھنے کی ہر کوشش آزمائی جا چکی ہے۔ اپنے بارے اس وقت یہ واقفیت رکھنا کہ ذہنی کیفیت کیا ہے؟ نامعلوم۔ چند سالوں سے جس فوجی میڈیکل سنٹر میں ہوں، یہاں دہشت گھر(House of Horor) کہاجاتا ہے۔  بنیادی طور پر یہ ایسی تجربہ گاہ ہے جہاں اذیت رسانی اور آزار دھی کے نت نئے طریقے ایجاد کئے جاتے ہیں جو میرے جیسوں پر آزمائے جاتے ہیں۔ یہاں کے مریض (Guinea Pig) سمجھیں۔ نت نئی نفسیاتی اور ذہنی اذیتیں دے کر ایسے مقام پر پہنچا دیا جاتا ہے، جہاں خوش قسمت موت کو گلے لگا لیتے ہیں جبکہ بدنصیب ذہنی توازن کھو کر باقی ماندہ زندگی مفلوج و لاچار زندہ رہتے ہیں۔ یہاں کے ڈاکٹر، ’’بھیڑ کی کھال میں بھیڑیے ہیں‘‘۔ ڈاکٹر اور علاج معالجے کی تفصیلات امریکہ میں ہر زبان، زدِ عام ہیں۔ محترم وزیراعظم! مجھے نہیں معلوم کہ آپ میری گذارش اور درخواست کو درغوراعتنا سمجھیں گے بھی یا نہیں؟ مجھے آزادی چاہئے نہ زندگی۔ میری آخری خواہش کا پورا کرنا آپ کے لئے بہت ہی معمولی ہے۔ نہیں معلوم کہ اگر میری درخواست کا جواب آیا بھی تو میری ذہنی استطاعت اور کیفیت کی مقدار سمجھنے کے لئے کافی ہوگی۔یقیناً میں مرنا چاہتی ہوں، کیونکہ خوش قسمتی مرنےمیں ہے۔ آخری خواہش !مرنے سے پہلے مجھے صرف اتنا پتہ چل سکے کہ مجھے 2003میں کس جرم کی پاداش میں اغوا کیا گیا اور مجھے کس جرم میں اگلی صدی تک (مرنے کے بعد بھی) قید رکھا جائے گا؟ وزیراعظم صاحب بس مجھے اتنا معلوم کر دیں۔ یہ معلومات، صرف اس لئے درکار کہ مرنے سے پہلے ذہنی الجھائو کی چند گتھیاں شاید سلجھ جائیں۔ میری بوڑھی ماں اور معصوم بچوں کی ڈھارس بھی شاید بندھ جائے۔
(دعاگو ڈاکٹر عافیہ صدیقی)



.
تازہ ترین