• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
امیر جماعتِ اسلامی سراج الحق کا فرمان ہے کہ پاکستانی لبرل خواتین و حضرات اُن کی اسلامی ریاست (داعش تو نہیں؟) پر بیعت کریں یا پھر بھارت کی جانب ہجرت۔ اُدھر بھارت میں ہندو انتہاپسندوں کا مطالبہ ہے کہ جو ہندتوا کو نہیں مانتا، ہندوستان چھوڑ کر پاکستان روانہ ہو۔ بھارت کے مقبول فلمی ستارے عامر خان اور شاہ رُخ خان جب مذہبی تنگ نظری کے خلاف پھٹ پڑے تو بھاجپا کے فرقہ پرستوں نے اُنہیں وہی مشورہ دیا جو جناب سراج الحق نے پاکستانی لبرلز کو دیا ہے۔ اب پاکستانی و بھارتی روشن خیال جائیں تو کہاں جائیں؟ پاکستان میں پہلے ہی لبرلز کا ناطقہ بند ہے اور رہا بھارت تو وہاں ’’ہندوستان صرف ہندوئوں کے لئے‘‘ کا نقارہ بج رہا ہے۔ اُدھر بنگلہ دیش میں وزیراعظم حسینہ واجد کو ماضی کے زخموں کا خیال آیا بھی تو 45 برس بعد کہ تاریخی زخم مندمل ہو سکیں۔ اور یہ بھولتے ہوئے کہ زخم مندمل کرنے کو درگزری کے مرہم کی ضرورت ہوتی ہے، نہ کہ پرانے زخم بھرے جائیں تازہ زخم لگا کر! عظیم نیلسن منڈیلا نے جنوبی افریقہ میں محترمہ حسینہ واجد کا راستہ اختیار کیا ہوتا تو نہ ختم ہونے والا نسلی فساد ابھی جاری ہوتا۔
نفرت بمقابلہ نفرت کا یہ خونیں المیہ برصغیر میں جاری رکھنے والوں کے عزائم نہ بھارت، نہ پاکستان، نہ بنگلہ دیش، نہ سری لنکا اور نہ افغانستان والوں کے لیے اچھا شگون ہیں۔ ہر جگہ نفرتوں کے مذہبی، فرقہ وارانہ، نسلی اور علاقائی عفریت کروڑوں لوگوں کی زندگیوں کو برباد کرنے پر تلے ہیں۔ بھلا ہو بھارت میں سیکولر قوتوں کا جنہوں نے پورے بھارت میں ہندتوا کے آگے بند باندھ دیا ہے۔ خوشی سے مر جانے کو جی چاہتا ہے، جب پاکستان میں بھارتی سیکولر قوتوں کی مزاحمت پر چہار سو خوشیاں منائی گئیں۔ یہ الگ بات ہے کہ بہت سے لوگ بغلیں اس لیے بجا رہے تھے کہ دہشت گردی اور فرقہ وارانہ قتل و غارت گری میں فقط ہم ہی بدنام تھے، اب بھارت بھی اسی صف میں کھڑا ہے۔ بھارت کے چوٹی کے تاریخ دان عرفان حبیب نے راشٹریہ سیوک سنگھ (RSS) کو فسطائی جماعت قرار دیا ہے اُن کا مطلب قومی مذہبی شناخت کے حوالے سے تھا کہ تو بھارت ہندو ریاست بننے کی جانب گامزن ہے۔شدت پسندوں نے فرقوں اور مسلکوں کی ایک لامتناہی خود سوزی میں مبتلا کر رکھا ہے۔ نفرت کی آندھیاں ہیں کہ ہر سو پھیلتی جا رہی ہیں۔ مشرق کیا، مغرب کیا، بھارت کیا، پاکستان کیا، قابلِ گردن زدنی ہیں تو قابلِ نفرت ’’دوسرے‘‘ اپنے اپنے گریبانوں میں جھانکنے کا تکلف کئے بغیر۔ کبھی گمان لگتا ہے کہ یہ کیسی اکیسویں صدی ہے جس میں سیاہ صدیوں کے خون آشام مکالمے دہرائے جا رہے ہیں۔ صلیبی جنگوں نے جو حشر بپا کیا تھا، وہ اب مسلم دُنیا میں ہورہا ہے۔ عذرِ گناہ ہے تو بس اتنا کہ یہ مغرب و امریکہ کی سامراجی وحشت ناکیوں کا ردّعمل ہے۔ اور مغرب کا جواز ہے تو یہ کہ مسلم دُنیا میں دہشت گردی کے فتنے کو ختم کئے بنا اُن کی سلامتی ممکن نہیں۔ علت و معلول کی اس بے نتیجہ بحث میں، نفرتوں کے شعلے ہیں کہ پھیلتے جاتے ہیں اور اس آگ میں بھسم ہوتے ہیں تو معصوم لوگ، خواہ اِدھر کے ہوں، یا اُدھر کے! امریکہ پر 9/11 کے دہشت گردوں کے حملے نے، ایک ایسی جنگ کے شعلے بھڑکائے جو بجھنےکی بجائے، پھیلتے چلے گئے۔ طالبان کی حماقت تھی کہ القاعدہ کی میزبانی پر مصر رہے، اور جارج بش کی نادانی تھی کہ عراق پر دھاوا بول بیٹھا۔ اور صدام حسین کے جبری شکنجے میں جکڑے مسالک کے جھگڑے ماضی کے حساب چکانے کو آزاد ہوئے۔ فرقہ وارانہ جنگ تھی کہ شام و یمن تک پھیلتی چلی گئی۔ اپنی اپنی آمریتوں سے تنگ آئے عوام جب عرب بہار میں مصر، لیبیا، شام، تیونس اور بحرین کی سڑکوں پر نکلے تو دہائیوں کی آمریتیں اُن کے سیلاب میں بہہ نکلیں۔ پرانے نظام کے ٹوٹنے پر نئے جمہوری نظام کی جگہ نہ لینے کے باعث عفریت کے ماحول میں ہر جانب فساد پھیلانے کو آزاد ہوئے۔ مشرقِ وسطیٰ کی خانہ جنگیوں کے جنگل میں دہشت گردوں کے پنپنے کی گنجائش بہت تھی اور ہر جانب پھیل گئے سائے لامتناہی دہشت گردیوں کے۔
مغربی استعماری عسکریت پسندی ہو یا پھرمذہبی انتہا پسندی، یہ سبھی دُنیا کو چین سے بیٹھنے دینے سے رہے۔ برصغیر میں مسلم اقلیت کے سوال نے قومی آزادی کی تحریک کو منقسم کر دیا۔ جب آزاد ریاستیں وجود میں آگئیں، تب بھی اقلیتوں کا سوال حل نہ کیا جا سکا اور بھارت، پاکستان، بنگلہ دیش اور سری لنکا میں اقلیتوں کی جان کو بنی ہوئی ہے۔ صدام حسین کے خاتمے پر جب مالکی وزیراعظم بنے تو اُنہوں نے داعش کا فتنہ کھڑا کر دیا۔ داعش نے شیعہ، سنی کرد، الویوں اور دوسرے سنی گروہوں کو نشانہ بنایا۔ یمن میں جب حوثی حاوی ہوئے تو اُنہیں بمبار ی کر کے القاعدہ کی راہ ہموار کی گئی اور شام کے بشار الاسد کو ٹھکانے لگانے کے لئے، النصرہ اور داعش کو کمک پہنچائی۔ لیبیا کے قذافی کو گرانے میں امریکہ اور اس کے اتحادی اتنے آگے بڑھ گئے کہ اب ہر جانب طوائف الملوکی کی نظر آتی ہے۔ یا پھر وہ القاعدہ اور اسی قماش کے وہ دہشت گرد جتھے جنہیں امریکہ ختم کرنے افغانستان آیا تھا۔ اور اب افغانستان میں امن کی بحالی کیلئے انہی طالبان سے بات کے رستے نکالے جا رہے ہیں، جنہیں ختم کرنے کے لئےامریکہ نے فوجیں اُتاری تھیں۔
یہی کھیل ہم برصغیر اور جنوبی ایشیا میں دیکھتے رہے ہیں۔ جنرل یحییٰ خان نے انتخابات کے نتائج قبول کرنے کی بجائے مشرقی پاکستان کے عوام پر فوج کشی کی راہ لی اور دہشت گرد تنظیمیں بنائیں، بھارت نے مکتی باہنی کی تربیت اور فوجی مداخلت کی۔ اور اس تصادم میں پاکستان دو لخت ہوا۔ روس نے افغانستان میں مداخلت کی تو جنرل ضیاالحق نے امریکہ کی سرپرستی میں مجاہدین منظم کئے اور افغان جہاد کا آغاز ہوا۔ روس گیا تو یہ ختم ہوا، افغان مجاہدین کے ظلم کے خلاف طالبان میدان میں آئے تو اک نئی جنگ کا طبل بج گیا۔ جو لوگ افغان جہاد سے فارغ ہوئے وہ کشمیر کے محاذ پر پہنچ گئے۔ بھارت کو چبھن محسوس ہوئی تو اُس نے پاکستان اور افغانستان میں وہی دھندہ شروع کر دیا جو پہلے ہی عدم استحکام کا باعث تھا۔ نفرت در نفرت کا یہ دھندا ہے کہ پھیلتا جا رہا ہے۔ جو حال مشرقِ وسطیٰ کا ہوا ہے کیا ہمارے لئے اُس میں سبق نہیں؟ دہشت گردی کی راہ سبھی کو چھوڑنی ہوگی، کسی ایک کے رُکنے سے یہ معاملہ کچھ تو تھم سکتا ہے، ختم ہونے والا نہیں۔ لیکن کسی کو تو پہل کرنی ہوگی۔ بھارت کی سیکولر قوتوں نے ہندو انتہاپسندی کے خلاف بند باندھا ہے۔ لوک سبھا میں وزیراعظم مودی کے مصالحانہ اور ایکتا کی حامل تقریر سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہندو انتہا پسندی کو پیچھے ہٹنا پڑا ہے۔ پاکستان میں بھی اگر جمہوری، لبرل اور روشن خیال قوتیں مذہبی انتہاپسندی کے خلاف سینہ سپر ہو جائیں تو انہیں پیچھے ہٹنے پر مجبور کیا جا سکتا ہے۔ ضربِ عضب اور نیشنل ایکشن پلان سے پہلے جو ہرطرف دہشت گردی کے سائے تھے، وہ اب چھٹنے کو ہیں، جمہوری راستے پر چلتے ہوئے اگر انتہاپسندی کے خلاف پیش قدمی جا ری رہی تو ایک روز یہ وطنِ عزیز سے ختم ہو سکتی ہے۔ اگر بھارت اور پاکستان اپنے اپنے انتہاپسندوں کو لگام دے لیں تو دونوں کے درمیان امن کی راہ بھی ہموار ہو سکتی ہے۔ یہی بات شام، عراق اور یمن پر بھی لاگو ہوتی ہے، بشرطیکہ ہر طرح کے انتہاپسندوں کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کر دیا جائے اور عالمی و علاقائی قوتیں ریشہ دوانیوں سے باز آ جائیں۔ مگر، کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہونے تک!
تازہ ترین