• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
دنیا بھر سے 145 سے زائد رہنما اسی پیرس میں اکھٹے ہیں جس کو دو ہفتے قبل دہشت گردوں نے خون میں نہلا دیا تھا۔ تیرہ نومبر سے پہلے جس پیرس کی گلیوں میں راتیں جاگتی تھیں آج وہاں خوف کے سائے ہیں لیکن فرانس کے عوام اور اس کی قیادت خراج تحسین کی مستحق ہے کہ اتنا بڑا گھائو کھانے کے باوجود اس کے قدم نہیں ڈگمگائے اور وہ طے شدہ اوقات کار کے مطابق موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے کانفرنس کی میزبانی کر رہی ہے۔ پیرس کانفرنس کا مقصد کرہ ارض اور اس پر بسنے والوں کی سلامتی اور خوشحالی کو یقینی بنانے کیلئے ایسے معاہدے پر متفق ہونا ہے جس کے تحت عالمی درجہ حرارت کو دو ڈگری سیلسئیس سے کم رکھا جاسکے۔ مجوزہ معاہدے میں ترقی یافتہ ممالک پر زور دیا جارہا ہے کہ وہ آئندہ پانچ سال تک ایک مشترکہ فنڈ میں 100 ارب ڈالر فراہم کریں گے تاکہ موسمیاتی تبدیلیوں سے پیدا ہونے والے چیلنجوں سے نمٹا جا سکے۔ دنیا بھر کے سائنس دان اور ماہرین متفق ہیں کہ اس سیارے یعنی زمین کو سب سے سنگین خطرہ موسمیاتی تبدیلیوں سے ہے۔ یہ موسمیاتی تبدیلیاں گرین ہاوس گیسوں جنہیں زہریلی گیسیں یا کاربن بھی کہا جاتا ہے کے اخراج سے پیدا ہورہی ہیں۔انہی زہریلی گیسوں کے اخراج کے باعث اوزون کی تہہ متاثر ہو رہی ہے جس سے درجہ حرارت میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق یہ گرین ہاوس گیسیں فضاء میں سالہا سال تک موجود رہتی اور موسم کی شدت میں اضافے کا باعث بنتی ہیں۔اقوام متحدہ کے ادارہ برائے موسمیات کے سربراہ مائیکل جیراڈ نے خبردار کیا ہے کہ رواں سال کرہ ارض کی تاریخ کا گرم ترین سال ریکارڈ کیا جا رہا ہے جس میں زمین اور سمندر کا درجہ حرارت گزشتہ سال کی انتہائی سطح سے بھی زیادہ ہو رہا ہے۔ عالمی درجہ حرارت میں اسی شدت کے باعث کہیں سیلاب تباہی مچا رہے ہیں تو کہیں خشک سالی سے قحط جنم لے رہا ہے۔ موسمیاتی تبدیلیاں کسی خطے میں پانی کی سخت کمی کا باعث بن رہی ہیں تو کسی براعظم میں خوراک کی کمی انسانوں کو ڈھانچوں کا روپ دے رہی ہے۔زمین اور اس پر بسنے والی کوئی بھی مخلوق ایسی نہیں ہے جو غیر معمولی موسم کے اثرات سے محفوظ ہو۔ اس مسئلے کی حساسیت اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے تو عالمی رہنماوں پر زور دیا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کو اولین ترجیح دیتے ہوئے ملکی مفادات سے بالا تر ہوکر مشترکہ مفاد کیلئے مل کر کام کریں۔ انہوں نے خواہش ظاہر کی ہے کہ کسی بھی بزرگ کی طرح وہ بھی چاہتے ہیں کہ اپنے بچوں کو ایسا صحت مند ماحول فراہم کریں جس میں وہ فطرت کے ہر حسن سے بھرپو لطف اندوز ہو سکیں۔ نو سال سے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے عہدے پر فائز رہنے والے بان کی مون ایک عام انسان کی طرح سیلاب،قحط اور گرمی کی شدت سے لوگوں کو مرتا دیکھ کر غمگین ہو جاتے ہیں۔انہیں خوبصورت جزیروں کے بتدریج ختم ہونے اور نایاب مخلوق کے آثار مٹ جانے کی فکر بھی دامن گیر ہے یہی وجہ ہے کہ وہ ہرصورت میں پیرس کانفرنس کی کامیابی چاہتے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک کو بھی بخوبی احساس ہو چکا ہے کہ اگر اس وقت اقدامات نہ کئے گئے تو بڑھتے ہوئے درجہ حرارت ،گلیشئرز کے پگھلاو، سیلابوں، قحط، خشک سالی اور بیماریوں سے اربوں انسانوں کی زندگیاں دائو پر لگ جائیں گی۔ دنیا کے بڑوں کو یہ بھی باور ہو چکا ہے کہ موسم میں رونما ہونے والی غیر معمولی تبدیلیاں وسیع پیمانے پر نقل مکانی کے باعث امن وسلامتی کو بھی متاثر کر سکتی ہیں۔ صرف بچوں کے متاثر ہونے کی اگر بات کی جائے تو یونیسف کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں موسم کے غیر معمولی اتار چڑھاو سے 69 کروڑ بچوں کی زندگیاں خطرے سے دو چار ہیں۔ان میں سے 53 کروڑ بچے صرف ان ایشیائی ممالک میں اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں جہاں سیلاب اور طوفان گاہے بہ گاہے تباہی مچاتے رہتے ہیں۔ اسی رپورٹ کے مطابق افریقی ممالک میں خشک سالی اور مختلف بیماریوں کے باعث 16 کروڑ بچوں کی زندگی کے نام پر صرف سانسیں چل رہی ہیں۔ اسی طرح اقوام متحدہ کو یہ خطرات بھی لاحق ہوچکے ہیں کہ اگر موسمیاتی تبدیلیوں پر قابو نہ پایا گیا تو 2050 تک دنیا کی 50 ارب ہو جانے والی آبادی کو خوراک کی فراہمی بھی ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہو جائے گی۔اب اگر پاکستان کی بات کریں کہ تو موسم کی یہی بے ایمانی اس کی معیشت کو سالانہ 400 ارب روپے کا نقصان پہنچا رہی ہے۔صرف ایک سال میں ہم سیلاب کی وجہ سے 10 ارب ڈالر کا نقصان بھی جھیل چکے ہیں۔ ہمارا حال بالکل ایسا ہی ہے کہ کرے کوئی اور بھرے کوئی، زہریلی گیسوں کے اخراج میں پاکستان عالمی سطح پر 135ویں نمبر پر ہے اور آلودگی پھیلانے میں اس کا حصہ ایک فیصد سے بھی کم یعنی نہ ہونے کے برابر ہے لیکن دنیا بھر میں موسمیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک میں پاکستان چوتھے نمبر پر ہے۔ پیرس میں منعقد ہونیوالی کانفرنس میں وزیر اعظم پاکستان محمد نواز شریف کی سربراہی میں حکومتی وفد یقینا اسی پہلو پر زور دے گا کہ اگر زہریلی گیسوں کے اخراج کے ذمہ دار ہم نہیں ہیں تو اس سے ہونے والے نقصانات کا ازالہ کرنا بھی ان ترقی یافتہ ممالک کی اخلاقی اور قانونی ذمہ داری ہے جو اس کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ یہ بھی موثر اور حقیقت پسندانہ حکمت عملی ہے کہ پاکستان کی طرف سے موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے اقوام متحدہ میں جو ایکشن پلان جمع کرایا گیا ہے اس میں بھی ان نکات پر زور دیا گیا ہے کہ عالمی برادری نہ صرف پاکستان جیسے متاثرہ ممالک کوموسمیاتی چیلنجز سے نمٹنے کیلئے مالی وسائل فراہم کرے بلکہ جدید ٹیکنالوجی اور اس کی استعداد کار میں اضافے میں بھی معاونت فراہم کرے۔ مجھ جیسے بہت سے پاکستانی موسمیاتی تبدیلی کو شاید اتنا اہم نہیں گرادنتے لیکن جیسے اوپر بیان کیا گیاہے کہ پہاڑوں سے ساحلوں تک بسنے والے پاکستانی اس کی جو قیمت چکا رہے ہیں وہ بہت بھاری ہے۔ اس لئے پیرس کانفرنس کی کامیابی پاکستان کیلئے بہت اہمیت کی حامل ہے جس کیلئے حکومت پاکستان کو چاہئے کہ وہ ایک متفقہ معاہدے تک پہنچنے کیلئے قائددانہ کردار ادا کرے۔ پیرس کانفرنس کو پاکستان میں توانائی کے بحران کے حل کیلئے ایک موقع میں بھی تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان کانفرنس میں شریک ممالک پر زور دے کہ پاکستان کو توانائی کی اشد ضرورت ہے لیکن وہ زہریلی گیسوں کے اخراج کی عالمی ذمہ داری سے اسی صورت میں عہدہ برآ ہو سکتا ہے کہ اسی متبادل توانائی سے بجلی کی پیداوار کے منصوبوں میں معاونت فراہم کی جائے۔ اس کانفرنس کے دوران پاکستان کو 100ارب ڈالر کے فنڈ سے اہم حصہ وصول کرنے کیلئے بھی بھرپور لابنگ کرنی چاہئے تاکہ پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں سے ہونے والے اس بے تحاشا معاشی نقصان سے بچاو کا تدارک کر سکے جو موجودہ صورتحال میں 2050 ءتک 14 ارب ڈالرسالانہ تک پہنچ سکتا ہے۔
تازہ ترین