• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان پیپلزپارٹی کا یوم تاسیس ہے۔ یوم تاسیس سے لیکر آج مورخہ 2دسمبر 2015، گویا 48واں برس جارہا ہے، اس 48ویں برس بھی پاکستان پیپلزپارٹی روایت کے عین مطابق آتش و آہن کے اذیت دہ ماحول کا سامنا کر رہی ہے البتہ تاریخ میں پہلی بار اس کے بہائو کا تقریباً سارا رخ سندھ کی جانب ہے۔ اس وقوعے کے حوالے سے پاکستان پیپلزپارٹی کے ایک صوبے تک محدود ہونے کی نظریاتی لاف زنی کی تصدیق نہ کریں، اس کا اصل سبب پیپلزپارٹی کا سندھ میں برسراقتدار ہونا ہے، وہ اگر آج وفاق اور باقی تین صوبوں میں بھی حکومت کر رہی ہوتی تب ان صوبوں میں بھی اس پارٹی کا سرسنگ زنوں کا واحد ہدف ہوتا۔ یہ پیپلزپارٹی کی تاریخ ہے اور وہ اس کے مخالفوں کا بے برکت مقدر!
ایک فنا منا البتہ اپنی مدت کے حساب سے ذرا دیر سے سامنے آیا ہے جبکہ اس فنامنا کی تاریخ کی بھی یوم تاسیس کے بعد اسی روز سے پیدائش ہوگئی تھی جب اس کے پہلے بانی چیئرمین کا اعلان کیا گیا یعنی ذوالفقار علی بھٹو! وہ فنامنا ہے پیپلزپارٹی کے چیئرمینوں کو خاص طور پر ٹارگٹ کرنا، چنانچہ ہم دیکھتے ہیں ذوالفقار علی بھٹو سے لے کر بلاول بھٹو زرداری تک اس فنی پر کاری کا نہایت برموقع اور نہایت بے دردی سے استعمال کیاگیا۔
دوسرا پہلو پی پی کے اندر سے سیاسی اقدار کے نام پر اپنے مفادات کے گدلے پانیوں میں تیرنے کے واقعات ہیں۔ ماضی کی تفصیل میں کیا جانا، پیپلزپارٹی کے نام پراس کےمقابل جو سیاسی جتھے ’’پی پی فلاں‘‘ کے لاحقے کے ساتھ وجود میں ا ٓئے نہ ان کے نام پاکستانی عوام کی یادداشت سے محو ہوئے نہ ان کے انجام۔
ہاں! اس بار پیپلزپارٹی کے بجرے پر سوار ہو کر گزشتہ اقتدار میں، اپنی وزارتوں کےلشکارے انجوائے کرنے والے بعض وزرا اور چند دیگر شخصیات نے کسی حد تک ایک نئی سیاسی فتنہ گری کو جنم دیا اور اس کی مسلسل پرورش میں لگےہوئے ہیں۔ کچھ عرصے قبل شریک چیئرپرسن آصف علی زرداری نے بلاول ہائوس لاہور میں تقریرکرتے ہوئے کہا تھا ’’مجھے پتہ ہے جو لوگ پیپلزپارٹی سے جانے کا ذہن اور منصوبہ رکھتے ہیں، وہ ابھی چلے جائیں،‘‘ غالباً انہوں نے ان کی تعداد کے طور پر ’’4‘‘ کے ہندسے کا بھی ذکر کیا تھا۔ سنا ہے ان دنوں جن لوگوں کا پیپلزپارٹی پنجاب کی صدارت کیلئے تذکرہ ہو رہا ہے ان میں ایسے کرداروں کو اپنی پھرتیوں سے پل بھر کی فرصت نہیں مل رہی، وہ لوگ جو تعلیم یافتہ اور نظریات کے بیانئے کی اہلیت رکھتے ہوں مگر ان کی ذاتی انانیت کسی پارٹی کے بنیادی نظریئے، رویئے، عام کارکنوں اور عوام کے لئے ننھی منی فرعونیت کی جھلکیاں پیش کرے ان سے جماعتوں کو بچنا چاہئے، ان کا وار ناقابل برداشت ہوتا ہے!
مرکزی خیال موضوع سخن کی طرح واریوں کا شکار ہو گیا۔ عرض یہ کیا تھا، ان دنوں پارٹی کے اندر رہتے ہوئے ’’ٹی وی ٹاک شو پارٹی‘‘کا ایک سرخیل اور چند دیگر شخصیات آصف علی زرداری کو پیپلزپارٹی کیلئے ایک Liability (بوجھ، ملبہ) قرار دے رہے ہیں جنہیں پی پی کے کندھوں سے اتارنا اس جماعت کی بقا کا ناگزیر تقاضا بن چکا ہے!
اختتامی جواب سے پہلے کیوں نہ سابق صدر اور شریک چیئرپرسن آصف علی زرداری پر تھوڑ ی سی گفتگو ہو جائے۔ آصف علی زرداری جب سپریم کورٹ آف پاکستان سے ضمانت کے کچھ عرصے بعد بیرون ملک چلے گئے تب میں نے عرض کیا تھا؛ ’’یہ اعلان آصف کے بارے میں ہرزہ سرائی، یاوہ گوئی اور خودساختہ قانونی تعبیروں کی شکست ہے۔ یہ رہائی حکمرانوں اور سیف الرحمٰن جیسے غیرمعیاری ادراک رکھنے والے افراد کے اناڑی پن کا ثبوت ہے۔ یہ پاکستانی قومی میڈیا کے 90 فیصد حصے کی عبرتناک پسپائی ہے۔ اس 90فیصد حصے نے آصف علی زرداری کی کردارکشی میں اپنی فنکاری کی نفس پرستانہ جہت کو بے دردی اوربد لحاظی سے استعمال کیا۔ یہ وقت کی صبر آزما گردشوں کی فتح ہے۔ یہ ان تمام ریاستی و غیرریاستی حکمرانوں، افرادی گروہوںاور اہلکاروں کی زندہ موت ہے جنہوں نےاسکے متعلق دشنام طرازی اور بدگوئی میں دسترس کا سرٹیفکیٹ حاصل کیا، جنہوں نے اپنے دنیاوی اقتدار اور عیاشیوں کے سفر میں قوم کو ذہنی پراگندگی کا شکارکرنے کی کوشش کی لیکن سامنے آیا ۔ابھی عقل سلیم کی موت واقع نہیں ہوئی، وہ آہستہ آہستہ ضروری حقائق کو بھانپ رہی ہے۔ کھیت سے چڑیاں ابھی اڑی نہیں نہ ہی کھیل بند ہوا ہے۔ ثابت ہوچکا کسی کیخلاف انفرادی یا اجتماعی ہنگامہ آرائی اور دیوانگی سے اکثر بات نہیں بنا کرتی۔‘‘
سابق صدر اورشریک چیئرپرسن آصف علی زرداری، خوش قسمتی یا بدقسمتی سے ایک ایسی جماعت کے رکن اور شریک چیئرپرسن ہیں جس نے عوام پر کسی بھی لحاظ سے مسلط ہر طاقتور طبقے کو چیلنج کر رکھا ہے کہ وہ اپنا چلن بدلے۔ یہ خوش قسمتی یا بدقسمتی اس وقت جناب آصف علی زرداری کی قریباً تقدیر بنا دی گئی جب انہیں بی بی شہید نے قبول کرلیا۔ بی بی شہید پاکستان پیپلزپارٹی اور ذوالفقارعلی بھٹو کے اس سیاسی ورثے کا نام تھا جس میں عوام کی محبت، ملک سے وفا، قومی ذہانت و فراست اوردور اندیشی مثالی گراف کو چھوتی ہے۔ بی بی باپ کے خوابوں کی حقیقی تعبیر کے لئے خود کو خانگی پابندیوں سے الگ رکھنے پرمصر تھیں تاہم قدرت اور باخبر والدہ کا اسی قدرت کے عطا کردہ شعوری احساس کے نتیجے میں احساس تھا کہ اس قدرعظیم قربانی بھی اس قوم میں کلنک کا ٹیکہ بنا دی جائیگی۔ ذوالفقار علی بھٹو کی سیاسی وراثت ریاست کی بڑی اکثریت کی تعظیم، علم و ذکاوت پر مبنی بین الاقوامی شہرت، ملک کی سب سے بڑی قومی جماعت کی قیادت پر متوقع حکمرانی بینظیر بھٹو کا ایسااثاثہ تھا جس کی بنا پر ا ن کا شریک ِ سفر بننے کی آرزو رکھنے والوں کاایک ہجوم تھا، یہاں وہ صرف قدرت کی ہی احسان مند رہی ہوں گی جس نے انہیں صرف آصف علی زرداری کے حق میں فیصلے کی دانش عطا فرمادی۔ ماضی کا ایک لمحہ ہے، بی بی شہید جناب آصف علی زرداری کیساتھ ایک ٹی وی چینل کے مشترکہ لائیو انٹرویو میں موجود تھیں۔ آصف کے پاس ہونے کی طمانیت ان کے دمکتے چہرے میں اس طرح کی دمک میں ڈھل گئی جس میں رفاقت کی پرفخر پرچھائیوں کے حیات آمیز اور حیات آموز سائے چھائے ہوئے ہیں۔ وقت بی بی کی حکومت کی پہلی غیرآئینی معزولی کا تھا۔گویا1990ءکا دور، منتخب اقتدار سے غیرآئینی طور پر نکالے جانے کے بعد کراچی میں یہ ان کی پہلی آمد تھی جس کے بعد یہ انٹرویو لائیوٹیلی کاسٹ ہوا۔ انہیں اپنے ذرائع سےخطرات کے اشارے پہنچنا شروع ہوگئے تھے۔ شاید اس دبائو کے اثرات تھے جس کے پس منظرمیں انہوں نےآصف صاحب کو تجویز کیا کہ وہ باہمی رضامندی اور بچوں کے مستقبل کے حوالے سے ان سےعلیحدگی اختیار کرلیں بصورت دیگروہ خطرے میں رہیں گےجس پر اس یادگار لمحے کے آصف علی زرداری اور آج کے سابق صدرمملکت کا جواب تھا ’’بی بی آج کہا ہے، آئندہ نہیں کہنا، میں بلوچ ہوں اوربلوچ محض اس طرح کے خوف کی بنیادوں پربیویوں کو نہیں چھوڑا کرتے‘‘ بی بی نے تو اپنی شہادت تک پھرکبھی ایسا لفظ منہ سے نہیں نکالا مگرٹڈی دَل مخالفوں کےشکست خوردہ شور و غوغا نے ان کی جان نہیں چھوڑی!ان کے ’’ذرائع‘‘ انہیں بی بی شہید اور آصف کی ازدواجی زندگی کے تناظر میں طلاق سے لے کر معاہداتی علیحدگی تک ہر نوع کی اطلاعات پہنچاتے رہے اور یہ بدگمانیاں پھیلانے کی گنہگارانہ فصل کاشت کرنے میں کبھی سست نہ پڑے تاآنکہ قدرت نے ان کو اس شخصیت ہی سے محروم کردیا جس کی موجودگی میں ان کا یہ سفاک ہتھیار بہتر کام آتا تھا۔
بی بی شہیدکو لحد میں اتارنے کی آبدیدہ آسمانی بارش کے پرفغاں ماحول میں کسی نے پاکستان کے وجود کی نفی پر آواز بلند کی جس پر حاکم علی زرداری کے لخت جگر، سندھ کے کڑیل شجاع اور پاکستان کے جاں نثار سپوت کی آواز بجلی کی کڑ ک بن کے کڑ کی، پاکستان کے آسمان تک وطن دشمنی کے اس خیال کو راکھ کا ڈھیر کر گئی۔ آصف علی زرداری کی صدا کے شعلے پہلے ملک تک بلند ہوئے جن سے ’’پاکستان کھپے پاکستان کھپے‘‘ کی تاریخ ساز روشنیاں پھوٹ رہی تھیں، بعض کم ظرف اور آوارہ لوگوں نے ’’وطن‘‘ کی اس مقدس قسم کا تقدس پامال کرنے میں بھی کوئی کسر نہ چھوڑی۔
چند روز قبل جنا ب آصف علی زراری کو ٹیکنا ایس جی ایس کیس سے بری کیا گیا۔ پھربھی ایسی ہی ذہنی سفاکیت کم نظری بھی کہا جاسکتا ہے، کا ردعمل تھا یعنی آصف علی زرداری کو عدل ملنے کے استحقاق سے محروم کردینا چاہئے!
انسانی اقدار کے قبرستان کھودنے میںپیپلزپارٹی اور آصف علی زرداری کے مخالفین کو یدطولیٰ حاصل ہے۔ آصف علی زرداری نے آج تک انکے مقابل صبر، شجاعت اور سچائی کا راستہ ترک نہیں کیا!
پارٹی کے اندر اور باہر جو لوگ آصف علی زرداری کو ’’بوجھ‘‘ ثابت کرنے پر تل گئے ہیں یا ’’تول‘‘ دیئے گئے ہیں وہ سب اسے ’’بحیرہ عرب‘‘ میں پھینکنے کی منصوبہ بندی کریں، دوسری شکل میں تو وہ عوام دشمنوں کے سینے پر مونگ دلتا ہی رہے گا!
تازہ ترین