• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستانی معیشت کی بنیادی خرابیوں میں جی ڈی پی کے تناسب سے ٹیکسوں کی وصولی، قومی بچتوں اور مجموعی سرمایہ کی انتہائی کم شرحیں شامل ہیں۔ دنیا کے بہت سے ترقی پذیر ممالک کے معیار کے لحاظ سے پاکستان ان تینوں مدوں میں تقریباً بارہ ہزار ارب روپے سالانہ کم وصول کررہا ہے۔ مالی وسائل دستیاب نہ ہونے اور وڈیرہ شاہی کلچر پر مبنی غیردانشمندانہ پالیسیاں اپنانے کی وجہ سے پاکستان اپنے قدرتی وسائل خصوصاًکوئلے اور پانی کے ذخائر سے بھی کماحقہ، استفادہ نہیں کرپا رہا۔ اگر پاکستان ان قدرتی وسائل سے بڑے پیمانے پر بجلی پیدا نہیں کرتا اور زراعت کے لئےدرکار پانی کا ذخیرہ نہیں کرتا تو تیز رفتار معاشی ترقی حاصل کرنے کا عزم کرنا ہی بے معنی ہوگا۔ اس پس منظر میں یہ بات پریشان کن ہے کہ اپنے منشور کے مطابق ہر قسم کی آمدنی پر موثر طور سے ٹیکس نافذ کرنے کے بجائے مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے گزشتہ مالی سال میں ود ہولڈنگ ٹیکس کے نظام کو وسعت اور انکم ٹیکس کے گوشواروں کے ضمن میں ’’نان فائیلرز‘‘ کے تصور کو ہی ضابطے کی شکل دے دی ہے۔ اس کا عملاً مطلب یہ ہے کہ ٹیکس چوری کرتے رہو اور انکم ٹیکس کے گوشوارے بھی داخل نہ کرو مگر معیشت کے لئے زہر قاتل ان مجرمانہ سرگرمیوں کی صرف تھوڑی سی قیمت دے دو۔ یہ قیمت اس رقم کا عشر عشیر ہی ہوگی جو ملکی قوانین کے تحت ٹیکس ادا کرنے کی صورت میں انہیں دینا پڑتی۔
ہم نے اپنے 16جون 2016ء کے کالم میں اس پالیسی کو معیشت کے لئے تباہ کن قرار دیا تھا۔ ا س سے قبل ہم نے یہ تجویز بھی دی تھی کہ معیشت کو دستاویزی بنانے اور کالے دھن کو سفید ہونے سے روکنے کے لئے پانچ سو روپے سے زائد مالیت کے کرنسی نوٹ منسوخ کردیئے جائیں اور پرائز بانڈز اسکیم ختم کردی جائے (جنگ 19مئی 2016) ہماری حکومت نے اس تجویز پر عمل نہیں کیا مگر اس تحریر کے تقریباً 5ماہ بعد بھارتی وزیراعظم نے پانچ سو اور ایک ہزار روپے کے نوٹ منسوخ کرنے کا اعلان کردیا جس سے پندرہ ہزار کروڑ روپے رکھنے والے 50کروڑ سے زائد افراد متاثر ہورہے ہیں مگر اس کے مثبت اثرات جلد ہی نظر آنا شروع ہوجائیں گے۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ اب سے 16برس قبل پرویز مشرف نے چند ہزار تاجروں کے احتجاج سے مرعوب ہو کر فوجی سپاہیوں کے ذریعے ٹیکس سروے کرانے کا منصوبہ ہی ختم کردیا تھا حالانکہ ان کا کہنا تھا کہ اس سروے کے بغیر پاکستان کا گزارہ نہیں ہوسکتا۔
اسی طرح موجودہ حکومت نے طاقتور طبقوں کے ناجائز مفادات کے تحفظ کے لئے بینکنگ ٹرائزیکشن پر ود ہولڈنگ ٹیکس منہا کرنے کا جو تباہ کن نظام گزشتہ مالی سال میں شروع کیا تھا اس کے منفی اثرات اسی مالی سال میں نظر آگئے۔ چند حقائق پیش ہیں۔
(1) پاکستان کا شمار دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں جی ڈی پی کے تناسب سے نہ صرف کالے دھن کا حجم بہت زیادہ ہے بلکہ کرنسی اور زر کی مجموعی رسد کا تناسب بھی انتہائی بلند ہے۔ بینکنگ ٹرائزیکشن پر ود ہولڈنگ ٹیکس منہا کرنے سے گزشتہ مالی سال میں زیر گردش کرنسی میں 30.5 فیصد کا تاریخی اضافہ ہوا۔ اسی طرح کا زبردست اضافہ اس سے قبل سقوط ڈھاکہ کے بعد 1973ء میں ہوا تھا۔
(2) کالا دھن رکھنے والوں نے رقوم کی لین دین بینکوں کے ذریعے کرنے کے بجائے نقد رقوم اور پرائز بانڈز کے استعمال کا راستہ اپنالیا ہے چنانچہ گزشتہ مالی سال میں بینکوں کے مجموعی ڈپازٹس میں اضافے کی شرح گزشتہ 7برسوں میں سب سے کم رہی۔
(3)نقد لین دین میں اضافے سے کالے دھن کی حوصلہ افزائی ہورہی ہے اور دہشت گردوں کو ملنے والی فنانسنگ روکنے کا عمل مزید مشکل ہوگیا ہے چنانچہ نیشنل ایکشن پلان کے مقاصد پر مزید ضرب پڑ رہی ہے۔
معیشت کے شعبے میں پاکستان کو جو چیلنجز درپیش ہیں ان میں معیشت کی شرح نمو کو 8-10 فیصد سالانہ تک لے جانا، پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے سے پیدا ہونے والے سنہری مواقع سے بھرپور فائدہ اٹھانے کے لئے ایسے اقدامات اٹھانا جن سے ملک کی قسمت بدلی جاسکے اور دہشت گردی و انتہا پسندی پر قابو پانا شامل ہیں۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ ان تینوں مقاصد کے لئے جو بنیادی اقدامات اٹھانا ضروری ہیں ان میں مکمل یکسانیت ہے یعنی جن اقدامات سے معیشت میں پائیدار بہتری آئے گی ان ہی اقدامات سے نہ صرف دہشت گردی و انتہا پسندی پر قابو پانا ممکن ہوگا بلکہ پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے میں پاکستان کی جانب سے بڑےپیمانے پر سرمایہ کاری سے ملک کی قسمت بدلی جاسکے گی۔ اگر خدانخواستہ یہ اقدامات نہیں اٹھائے جاتے تو یہ تینوں مقاصد بھی حاصل نہیں ہوسکیں گے۔ چین پاکستان میں توانائی کے شعبے میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کررہا ہے۔ اس کا منافع چند برسوں بعد چین منتقل ہونا شروع ہوجائے گا۔ اگر پاکستان نے تیزی سے برآمدات نہیں بڑھائیں تو 2010ء میں پاکستان کا بیرونی شعبہ زبردست دبائو کا شکار ہوسکتا ہے کیونکہ سی پیک منصوبے کے لئے پاکستان کو بڑے پیمانے پر مشینری وغیرہ کی درآمدات بھی کرنا ہوں گی۔
پاکستان اب ایک دوراہے پر کھڑا ہے۔ ہمارا ازلی دشمن بھارت انتہائی تیزی سے اپنی معیشت بہتر بنا رہا ہے۔بھارت پاکستان کو غیرمستحکم کرنے، سی پیک منصوبے اور پاکستانی معیشت کو نقصان پہنچانے کے درپے ہے۔ بھارت پہلے ہی کشمیر میں ریاستی دہشت گردی اور پاکستان میں دہشت گردی کروا رہا ہے۔ اب ایک مرتبہ پھر مودی نے آبی دہشت گردی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دھمکی دی ہے کہ بھارت دریائے سندھ کا ایک قطرہ پانی بھی پاکستان نہیں جانے دے گا۔ بھارت کے مذموم مقاصد کا توڑ یہ ہے کہ پاکستان بھی تیزی سے اپنی معیشت بہتر بنانے، قبائلی بھائیوں کے دل و دماغ جیتنے، انتہا پسندی کے خاتمے اور غربت میں کمی کے لئے زیادہ سے زیادہ مالی وسائل مختص کرے۔ یہ بھی ضروری ہے قوم متحد رہے اور دہشت گردی کی جنگ کے ضمن میں قومی اتفاق رائے پیدا کیا جائے۔ گزشتہ 15برسوں کے تجربات سے یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ صرف طاقت کا استعمال دہشت گردی کے مسئلے کا حل نہیں ہے۔
پاکستان میں طاقتور طبقوں کے ناجائز مفادات کا تحفظ کرنے اور آئی ایم ایف کی ہدایات کے تحت جو غیردانشمندانہ معاشی پالیسیاں اپنائی گئی ہیں ان میں سے کچھ اقتصادی دہشت گردی کے زمرے میں آتی ہیں۔ ان کو یکسر بدلنا ہوگا۔ اب وقت آگیا ہے کہ پاکستان کی سول و نئی عسکری قیادت مندرجہ بالا تمام حقائق کی روشنی میں ہر قسم کی آمدنی پر موثر طور پر قابو پانے، احتساب کا موثر نظام استوار کرنے، مجموعی ملکی پیداوار کے تناسب سے تعلیم کی مد میں 7فیصد اور صحت کی مد میں 4 فیصد مختص کرنے اور دہشت گردوں کو ملنے والی مالی معاونت کو ممکنہ حد تک روکنے کو بھی نیشنل ایکشن پلان کا حصہ بنائے وگرنہ دہشت گردی کی جنگ جیتی نہیں جاسکے گی۔

.
تازہ ترین