• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان آنے والے ہر دن میں معاشی اور سیاسی طور پر مستحکم ہو رہا ہے ۔ جمہوریت کو لاحق خطرات میں واضح کمی ہو رہی ہے جو قوتیں اور افراد حکومت کو غیر سیاسی طریقے سے ختم کرنے کی خواہش مند تھےان کی اب تمام امیدیں بھی دم توڑ گئیں۔ جنرل راحیل شریف نے جب فوج کی کمان سنبھالی تو ملک بے شمار اندرونی و بیرونی خطرات میں گھِراہوا تھااور ملک میں جاری دہشت گردی سب سے بڑا خطرہ تھا۔ ان سے پہلے کے آرمی چیف جنرل کیانی بھی ایک قابل چیف آف آرمی اسٹاف تھے ان کے دور میں پاک فوج دہشت گردی کے خلاف آپریشن کے بارے میں سوچ رہی تھی لیکن سوات میں محدود آپریشن جبکہ قبائلی علاقوں میں بات چیت کے ذریعے مسئلے کے حل کو ترجیح دی گئی۔ شاید اس وقت یہ فیصلہ درست ہو گا لیکن جنرل راحیل شریف کیلئے کمان سنبھالتے وقت حالات بالکل مختلف تھے روزانہ کی بنیاد پر دہشت گردی کے واقعات رونما ہو رہے تھے۔جس کے بعد آپریشن ضرب عضب شروع کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور اس کے نتائج آپ کے سامنے ہیں اگرچہ جنرل راحیل شریف کی خواہش تھی کہ آپریشن ان کے دور میں ہی مکمل ہو جائے لیکن ایسا نہ ہو سکا لیکن اس کے ثمرات آنا شروع ہو گئے ہیںاور دہشت گردی کے واقعات میں واضح کمی آئی ہے ۔ ہمارے ملک کا المیہ رہا ہے کہ سیاستدان اور غیر سیاسی قوتیں سول و عسکر ی تعلقات کے حوالے سے اپنی دکانداری چمکاتی رہتی ہیں اور اب اس دوڑ میں ہمارے میڈیا کا بڑا حصہ بھی شامل ہو چکا ہے۔ میڈیا کا یہ رویہ ایک سوالیہ نشان ہے ۔ شیخ رشید جیسے سیاستدان جو ہر روز حکومت جانے کی نئی نئی تاریخیں دیتے رہے اور جنرل راحیل کے دور میںان کی بڑی خواہش رہی کہ فوج مداخلت کر کے حکومت گرا دے۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کو بھی انہی دوستوں نے نواز شریف دشمنی میں اسی راہ پر ڈال دیا ۔ پہلے دھرنے کے وقت شیخ رشید سمیت کپتان کے انہی دوستوں اور کچھ سابق افسران نے عمران خان سے ایسے فیصلے کرائے جو انتہائی ناقابل فہم ثابت ہوئے جس کا نقصان نا صرف پاکستان کو ہوا بلکہ جن کا تحریک انصاف کو خسارہ برداشت کرنا پڑا۔ چند روز قبل میری غیر ملکی ایئر پورٹ پر تحریک انصاف کے ایک انتہائی اہم رہنما سے ملاقات ہوئی اور یہ جہانگیر ترین اور علیم خان نہ تھے ہم تین گھنٹے سے زائد وقت تک ایئر پورٹ پر ایک ساتھ بیٹھے رہے اور ہماری گفتگو کا محور اسلام آباد کا لاک ڈائون تھا میں نے ان سے سوال کیا کہ آپ کے چیئرمین انتہائی پر امید کیوں تھے کہ اسلام آباد میں پانامہ لیکس کے ایشو پر وہ دھرنوں اور لاک ڈائون سے مطلوبہ نتائج حاصل کر لیں گے تو انہوں نے مجھے جواب دیا کہ میں نے بھی یہ سوال اپنے چیئرمین سے کیا تھا جس پر انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا تھا کہ آپ بس اسلام آباد آئیں باقی باتیں مجھ پر چھوڑ دیں ۔ میں نے اپنے چیئرمین سے پھر سوال کیا کہ آپ جتنے افراد کو اسلام آباد لانا چاہتے ہیں اگر اتنی تعداد میں لوگ شریک نہ ہوئے تو ہمارا پلان بی کیا ہو گا جس پر انہوں نے کہا کہ آپ پلان اے ،بی اور سی کو چھوڑیں بس اسلام آباد پہنچیں ۔ 28اکتوبر کو اسلام آباد میں ہونیوالے یوتھ کنونشن میں پولیس جب ہمارے کارکنان کو زدو کوب کر کے گرفتار کر رہی تھی اور اس نے فیصلہ کرلیا کہ وہ کنٹینرز لگا کر ملک بھر سے اسلام آباد آنے والے تحریک انصاف کے کارکنان کو روکے گی۔ میں کپتان کا حکم مانتے ہوئے اپنے درجنوں ساتھیوں سمیت اسلام آباد پہنچ گیا۔ پی ٹی آئی کے رہنما نے کہا کہ مجھ سمیت پارٹی میں موجود کارکنان کی ایک بڑی تعداد اس بات کی مخالف تھی کہ پانامہ لیکس کیس کو کورٹ میں نہ لیجا یا جائے کیونکہ ہمارا خیال تھا کہ اس کیس کو سیاسی میدان میں ہی لڑا جانا چاہئے۔تحریک انصاف کے سیاسی رہنما کا مزید کہنا تھا کہ اگرہمارے حق میں فیصلہ نہ آیاتو اس سے تحریک انصاف کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا اور شاید مجھ سمیت پی ٹی آئی کے متعدد دیگر رہنما آئندہ انتخابات میں حصہ لینے سے انکار بھی کر دیں کیونکہ پانامہ لیکس کیس پر حکومت کوکلین چٹ ملنے کے بعد ن لیگ کو شکست دینا بہت مشکل ہو جائے گا۔
جنرل راحیل شریف کی مدت ملازمت ختم ہونے کے بعد جنرل قمر جاوید باجوہ نے فوج کی کمان سنبھال لی ہے اور یہ امر انتہائی خوش آئند ہے کہ جنرل راحیل کے دور میں شیخ رشید جیسے لیڈروں نے جی ایچ کیو کے بارے میں کئی بیان دئیے تھے لیکن چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل نے ایسے مواقع پر بھی اپنی تمام تر توجہ آپریشن ضرب عضب اور دہشت گردی کے خاتمے پر مرکوز رکھی اور اب نئے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ بھی آپریشن ضرب عضب، دہشتگردی کا خاتمہ اور بھارتی جارحیت کا جواب دینے کے لئے راحیل شریف کی پالیسیوں کا تسلسل برقرار رکھنے کا عزم رکھتے ہیں۔

.
تازہ ترین