• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وفاقی وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے 27نومبر 2015ء ایک تحریری جواب میں قومی اسمبلی کو بتلایا کہ ملک کے قرضوں کی ادائیگی کی صلاحیت بہتر بنانے کیلئے حکومت مجموعی داخلی پیداوار اور ٹیکسوں کی وصولی کا تناسب 2017-18ء تک بڑھا کر 13فیصد تک لے جائیگی۔ حقیقت بہرحال یہ ہے کہ گزشتہ ڈھائی برسوں میں وزیراعظم اور وزیر خزانہ متعدد بار یہ اعلان کرچکے ہیں کہ 2017-18ء تک یہ ہدف 15 فیصد ہے ،جسے حاصل کر لیا جائیگا۔ اب عوام پر نئے ٹیکس عائد کرنے کے باوجود اس ہدف میں زبردست کمی کردی گئی ہے۔ یہ بات حیران کن ہے حکومت پر تواتر سے تنقید کرنے والے ممتاز سیاستدان اور ممبران پارلیمنٹ اس معاملے پر مکمل طور پر خاموش ہیں۔ اس فیصلے سے معیشت پر منفی اثرات مرتب ہونگے، ملک پر قرضوں کا حجم زیادہ تیزی سے بڑھے گا اور کروڑوں عوام کی تکالیف و محرومیاں بڑھیں گی۔ اس ضمن میں چند حقائق نذر قارئین ہیں۔
1۔ مجموعی داخلی پیداوار کے تناسب سے ٹیکسوں کی اوسط وصولی 1980ء کی دہائی میں 13.8فیصد، 1990ء کی دہائی میں 13.4فیصد اور 1995-96ء میں 14.4فیصد تھی۔ ان برسوں میں معیشت کی حالت بہرحال قابل رشک نہیں تھی۔ گزشتہ برسوں میں جنرل سیلز ٹیکس کی شرح میں اضافہ کرنے اور عوام پر نت نئے ٹیکسوں کا بوجھ ڈالتے چلے جانے کے باوجود اب اگر یہ تناسب گر کر 10فیصد رہ گیا ہے تو اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ وطن عزیز میں ٹیکسوں کی چوری بڑھنے دینے اور طاقتور طبقوں کو ٹیکسوں میں چھوٹ و مراعات دینے کا سلسلہ زور شور سے جاری ہے اور اگلے برسوں میں بھی جاری رہیگا۔
2۔ اب سے ڈھائی برس قبل ہم نے ان ہی کالموں میں عرض کیا تھا کہ 5برس بعد ٹیکسوں کی وصولی کے تناسب کو 15 فیصد تک لیجانے کا عزم قطعی ناکافی ہے (جنگ 4جولائی 2013ء) اب سے تقریباََ 18برس قبل نواز حکومت کے وزیر خزانہ سرتاج عزیز نے افسوس بھرے لہجے میں کہا تھا کہ بھارت اپنی قومی آمدنی کا 20فیصد ٹیکسوں کی مد میں وصول کرتا ہے چنانچہ اگر پاکستان بھی 20 فیصد ہی وصول کرے تو اس اضافی رقم سے عوام کے لئے کیا کچھ نہیں کیا جاسکتا۔ انہوں نے مزید کہا تھا کہ اگر ہم ٹیکسوں کا نظام درست کرلیں تو نئے ٹیکس لگائے بغیر پرانے ٹیکس ہی ہمیں دوگنی آمدنی دے سکتے ہیں۔ لہٰذا غریب عوام پر ہر سال نئے ٹیکس لگانے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ (جنگ 26 اگست 1997) ۔
3۔ اب سے تقریباً ساڑھے بارہ برس قبل پاکستان کے اکنامک منیجرز کا کہنا تھا کہ اگر ٹیکسوں کی چوری روک دی جائے تو جنرل سیلز ٹیکس کی زیادہ سے زیادہ شرح صرف 5 فیصد کرنے اورپٹرولیم لیوی ختم کرنے کے باوجود ٹیکسوں کی وصولی بڑھے گی۔ اب صورت حال یہ ہے کہ جنرل سیلز ٹیکس کی شرح تو 18 فیصد کردی گئی ہے اور ہائی اسپیڈ ڈیزل پر سیلز ٹیکس کی شرح 45فیصد اور پٹرول پر 24 فیصد کردی گئی ہے مگر ٹیکس اور مجموعی داخلی پیداوار کا تناسب گر گیا ہے۔
4۔ ایف بی آر کے چیئرمین نے اب سے کچھ عرصہ قبل سینیٹ کمیٹی کو بتلایا تھا کہ اگر انکم ٹیکس کی شق 111 (4) منسوخ کردی جائے تو ٹیکسوں کی وصولی کا حجم دوگنا ہو جائیگا۔ اوورسیز انویسٹرز چیمبر نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ اگر ہر قسم کی آمدنی پر ٹیکس عائد کردیا جائے تو پاکستان میں ٹیکسوں کی وصولی دگنی ہوجائے گی یعنی موجودہ مالی سال میں منی بجٹ لائے بغیر ٹیکسوں کی وصولی کا ہدف تین ہزار ارب روپے کے بجائے چھ ہزار ارب روپے ہوسکتا تھا۔
5۔ اب سے چھ برس قبل حکومت اور ایف بی آر کا کہنا تھا کہ انہوں نے 32 لاکھ ایسے انتہائی دولت مند افراد کے اثاثوں بشمول بینکوں کے کھاتوں، جائیدادوں اور آمدنی و اخراجات کی تفصیلات اکٹھی کرلی ہیں جو انکم ٹیکس کے گوشوارے داخل ہی نہیں کرتے۔ حکومت نے اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ ان افراد کو ٹیکس کے دائرے میں لایا جائے گا مگر یہ عزم صرف سیاسی نعرے تک ہی محدود رہا، چنانچہ پاکستان ٹیکس چوری کرنے والوں اور قومی دولت لوٹنے والوں کیلئے بدستور جنت ہے۔ اب یہ کہا جارہا ہے کہ ایسی کوئی فہرست ریکارڈ میں موجود ہی نہیں ہے یعنی اس فہرست کو ممکنہ طور پر تلف کردیا گیا ہے۔ ہم پوری ذمہ داری سے یہ کہنے کے لئے اپنے آپ کو مجبور پاتے ہیں کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کی مدد سے اس سے بہتر اور جامع فہرست چند ماہ میں مرتب کی جاسکتی ہے۔ اگر ان افراد سے مروجہ قوانین کے تحت ٹیکس وصول کیا جائے تو مختصر عرصے میں ٹیکسوں کی مد میں دو ہزار ارب روپے کی اضافی آمدنی ہوسکتی ہے۔
6۔ مالی سال 2010ء میں 16 لاکھ افراد نے انکم ٹیکس کے گوشوارے جمع کرائے تھے۔ اب یہ کہا جارہا ہے کہ موجودہ حکومت نے ٹیکس کے گوشوارے داخل کرانے والے افراد اور اداروں کی تعداد میں زبردست اضافہ کرایا ہے اور اب یہ تعداد 10 لاکھ تک پہنچ گئی ہے۔ کیا یہ سمجھا جائے کہ انکم ٹیکس کے گوشوارے جمع نہ کرانے والے ان 6 لاکھ افراد نے ٹیکس کے استحصالی نظام کے خلاف بغاوت کردی ہے۔ ہمارا تخمینہ ہے کہ پاکستان میں کم از کم 75 لاکھ افراد کو ٹیکس کے گوشوارے داخل کرانا چاہئیں۔ یہ اس وقت ممکن ہوگا جب ٹیکسوں کے نظام کو منصفانہ بنایا جائے۔ معیشت کو دستاویزی کیا جائے۔ جنرل سیلز کی شرح کو 5 فیصد تک محدود رکھا جائے، ہر قسم کی آمدنی پر بلا کسی استثنیٰ وفاق اور صوبے موثر طور رپر ٹیکس عائد کریں اور ٹیکسوں کی وصولی کا بڑا حصہ تعلیم، صحت اور عام آدمی کی فلاح و بہبود کے منصوبوں پر خرچ کیا جائے۔ یہ اقدامات نہ اٹھانا اقتصادی دہشت گردی کے زمرے میں آتے ہیں۔ آپریشن ضرب عضب کے مقاصد حاصل کرنے کے لئے لوگوں کے دل و دماغ جیتنا انتہائی ضروری ہے جس کے لئے مالی و سائل اقتصادی دہشت گردی پر قابو پاکر ہی حاصل ہوسکتے ہیں۔
7۔ دسمبر 2012ء میں حکومت کی جانب سے یہ کہا گیا تھا کہ یہ آپشن موجود ہے کہ ٹیکس نادہندگان کے نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ڈالے جائیں اور ان کے قومی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ کو منسوخ اور بینکوں کے کھاتوں کو ضبط کرلیا جائے لیکن یہ آپشن استعمال کرنے کا سوچا بھی نہیں گیا۔ بدقسمتی سے ٹیکسوں کے طاقتور نادہندگان کے ناجائز مفادات کے تحفظ کے لئے حکومت ایک مرتبہ پھر مالیاتی این آر او کے طرز پر محدود قسم کی ٹیکس ایمنٹی اسکیم کا اجراء کرنے پر غور کررہی ہے جس سے ایمانداری سے ٹیکس ادا کرنے والوں کی مزید حوصلہ شکنی ہوگی۔
8۔ اقتصادی رابطہ کمیٹی اور وزیر اعظم کی منظوری سے حکومت نے 30 نومبر 2015ء کو 40 ارب روپے کے نئے ٹیکس لگانے کا فیصلہ کیا ہے جو مسلم لیگ (ن) کے منشور سے متصادم ہے۔ اس غیر دانشمندانہ فیصلے سے اسمگلنگ بڑھے گی اور انڈر انوائسنگ میں اضافہ ہوگا۔ یہ بات بھی واضح ہے کہ حکومت کی مختلف پالیسیوں کے نتیجے میں ملک میں آنے والے مہینوں میں مہنگائی بڑھے گی جس سے کروڑوں عوام متاثر ہوں گے۔
مسلم لیگ (ن) کے انتخابی منشور میں کہا گیا ہے کہ ہر قسم کی آمدنی پر ٹیکس عائد کیا جائے گا، کالے دھن کو سفید ہونے سے روکا جائے گا اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کی مدد سے ٹیکس دہندگان کا دائرہ وسیع کیا جائے گا۔ اگر منشور کے ان نکات پر عمل ہوا اور ٹیکسوں سے حاصل ہونے والی رقوم کا دیانتداری سے استعمال ہو تو معیشت اور عوام کی حالت میں زبردست بہتری آئے گی۔ موجودہ حالات میں ایسا نظر آرہا ہے کہ 2018ء میں بھی جب موجودہ حکومت مدت پوری کررہی ہوگی ملکی معیشت خراب حالت میں ہی ہوگی۔
تازہ ترین