• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں تاریخ کے پہلے بلدیاتی انتخابات کے 72گھنٹے گزرنے کے بعد بھی کے بارے میں کنفیوژن موجود ہے۔ سرکاری ترجمان (شاید وزیراعظم ہائوس کے کوئی افسر) نے الیکشن کی رات دیر گئے غیر سرکاری طور پر اطلاع دی کہ ن لیگ کے 21، تحریک انصاف کے 18اور 11آزاد، چیئرمین یونین کونسلز منتخب ہو گئے مگر چند ہی گھنٹے بعد اس گنتی میں تبدیلی کر کے ن لیگ کے 21تحریک انصاف کے 15اور 14آزاد چیئرمین یونین کونسلز کی بات کی گئی، مریم نواز شریف صاحبہ کا ٹوئٹ بتا رہا تھا کہ کچھ یوں ہیں۔ ن لیگ 21،تحریک انصاف 16اور آزاد 13دوسری طرف اسلام آباد ہی سے تعلق رکھنے والے وزیر مملکت طارق فضل چوہدری صاحب نے اخباری بیانات میں بتاتے ہوئے کہا۔ ن لیگ نے 21سے زائد نشستیں جیت لیں اور اب سامنے آیا ہے کہ اصل میں ن لیگ نے 19، تحریک انصاف نے 17اور آزاد امیدواروں نے 13 نشستیں لی ہیں۔ سب کنفیوژن نہیں تو اور کیا ہے؟۔
دلچسپ بات ہے کہ الیکشن کمیشن کے اسلام آباد میں مرکزی دفتر کی ناک کے عین نیچے ہونے والے پہلے بلدیاتی انتخابات کے بارے میں بھی ابہام سامنے آیا حالانکہ مقابلہ صرف اور صرف 50سیٹوں کا تھا اور اسلام آباد کا کوئی بھی پولنگ اسٹیشن ریٹرننگ آفیسر اور الیکشن کمیشن سے دو گھنٹے سے زیادہ فاصلے پر نہیں ہوگا۔ اس سے مطلب نہیں کہ کنفیوژن دھاندلی یا تبدیل کرنے کی وجہ سے ہوا لیکن اس سے کون انکار کرے گا کہ کنفیوژن بدانتظامی، عدم شفافیت اور ہر چیز خفرکھنے کی وجہ سے پیدا ہوا۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان کے سربراہ جسٹس (ر) سردار محمد رضا بہت ہی اچھی شہرت کے مالک ہیں اسی طرح سیکرٹری الیکشن کمیشن آف پاکستان بابر یعقوب فتح محمد بھی قابل بیورو کریٹ تصور ہوتے ہیں ان دو صاحبان کی تقرری کے بعد امید تھی کہ ووٹنگ سے لے کر تک ہر مرحلے پر الیکشن کمیشن اصلاحات کرے گا اور دنیا کی ترقی اور آج کی جدید ٹیکنالوجی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے الیکشن کی شفافیت کو یقینی بنائے گا اس وجہ سے بھی ضروری ہے کہ پاکستان میں عرصہ دراز سے وہم اور خیال موجود ہے کہ پاکستان کے انتخابی عمل میں کہیں نہ کہیں دھاندلی ہوتی ہے اور طاقتور اپنی مرضی کے حاصل کر لیتے ہیں اس تاثر کو زائل کرنے کے لئے ضروری تھا کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین کو متعارف کروایا جاتا انتخابی عملے کی تربیت پر زور دیا جاتا اور انہیں معقول معاوضہ دیا جاتا تاکہ وہ اپنا کام زیادہ مہارت اور زیادہ اعتماد و سکون سے کر سکیں مگر عملاً ترقی معکوس نظر آ رہی ہے بجائے اس کے کہ ان اصلاحات پر توجہ دی جاتی کوشش شروع کر دی گئی کہ کس طرح انتخابی عمل کے ہر مرحلے کو زیادہ سے زیادہ خفرکھا جائے تاکہ کسی کو غلطیوں کا پتہ ہی نہ چل سکے۔
اسلام آباد میٹرو پولیٹن کارپوریشن کی صرف 50 یونین کونسلز کے انتخابی میں اس قدر کنفیوژن کے بعد لازم ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں اور الیکشن کمیشن بیٹھ کر مستقبل کی حکمت عملی بنائیں تاکہ آئندہ نتائج متنازع نہ ہوں اور ان میں زیادہ شفافیت آ جائے۔ اس وقت بھی گنتی کا طریقہ ہے کہ مختلف پارٹیوں اور امیدواروں کے سامنے گنتی کی جاتی ہے اور اس کے فوراً بعد نتیجہ سیدھا ریٹرننگ آفیسر کو پہنچایا جاتا ہے اورریٹرننگ آفیسر سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ ان نتائج کو حلقے کے اندر چسپاں کرے گا لیکن اکثر ایسا نہیں ہوتا تیز رفتار میڈیا کے آنے کے بعد پولنگ اسٹیشن ہی سے میڈیا کو نتائج دئیے جانے چاہئیں کیونکہ ریٹرننگ آفیسر تک پہنچنے اور ان کے اعلان میں بہت دیر ہو جاتی ہے۔ہوناچاہئے کہ گنتی مکمل ہونے کے بعد پولنگ اسٹیشن کے باہر ہی پریزائیڈنگ آفیسر میڈیا میں نتیجے کی کاپیاں تقسیم کرے عام طور پر میڈیا کو پارٹیوں یا متحارب امیدواروں کے پولنگ ایجنٹوں کے دیئے گئے پر انحصار کرنا پڑتا ہے جس سے کئی غلط فہمیاں جنم لیتی ہیں کئی بار فون پر غلط اطلاع دے دی جاتی ہے جس سے سارا عمل مشکوک ہو جاتا ہے۔ ہونا بھی چاہئے کہ پولنگ ا سٹیشن پر ہی میڈیا کو تصدیق شدہ کاپی دی جائے اور جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے واٹس ایپ یا ویب سائٹ کے ذریعے اس سے فوراً مشتہرکر دیا جائے بلدیاتی انتخابات میں انتظامی افسروں، پریزائیڈنگ افسروں اور ریٹرننگ افسروں نے میڈیا سے نتائج چھپانے یا انہیں بہت دیر سے ریلیز کرنے کا طریقہ اپنا رکھا ہے جس سے افواہیں، غلط خبریں اور گمراہ کن نتائج پھیل جاتے ہیں۔ اسلام آباد کے حالانتخابات ہی میں کئی میڈیا چینلز نے تحریک انصاف کی 29نشستوں پر جیت کی خبر نشر کر دی اور کئی ایک نے تحریک انصاف کے چھا جانے کی اطلاع دی اس سے کنفیوژن پھیلا جس سے دوسری طرف مختلف سرکاری نشرو اعلانات و ٹوئٹس نے ن لیگ کی جیت کو زیادہ کر کے پیش کیا جس سے کنفیوژن اور بڑھ گیا یہاں پر سخن گسترانہ بات بھی کہنی ضروری ہے کہ میڈیا چینلز پر عدالت عالاورالیکشن کمیشن نے نتائج کے نشریئے میں ایک گھنٹہ تاخیر کے حوالے سے جو ہدایات جاری کی ہیں وہ تیز رفتار زمانے سےمطابقت نہیںرکھتیں۔ اس پابندی سے شفافیت کی بجائے خبروں کےاخفاءکے کلچر کو فروغ ملے گا تو سمجھ آتی ہے کہ سازش اور دھاندلی کو خفرکھا جاتا ہے مگر ایک شفاف نتیجے کا دیر سے اعلان کرنا قابل فہم نہیں۔ اگر اس طریقہ کار کی اصلاح نہ کی گئی تو پہلے سے شک میں مبتلا لوگوں کا سارے انتخابی عمل پر ہی سےاعتماد اٹھ جائے گا۔ انہی انتخابی اصلاحات کے حوالے سے عرض ہے کہ ضلعی انتظامیہ سے ریٹرننگ افسر بنانے سے انتخابی عمل پر نہایت جائز سوالات اور اعتراضات اٹھ رہے ہیں ہمارے معاشرے میں کس کو علم نہیں کہ ضلعی انتظامیہ، صوبائی حکومتوں اور حکومتی اراکین اسمبلی کے شدید دبائو میں ہوتی ہے اس پر اثر انداز ہونا مشکل نہیں ہوتا اس کی بجائے عدلیہ کے ذریعے انتخابات کروانا زیادہ بہتر ہو گا اگر آپ کسی سے بھی پوچھیں گے کہ ڈپٹی کمشنر پر اثر انداز ہونا آسان ہے یا ڈسٹرکٹ سیشن جج پرتوہر ایک جواب ہو گا کہ ڈپٹی کمشنر پر آسانی سے اثر ڈالا جا سکتا ہے کیونکہ اس کی کئی مجبوریاں ہوتی ہیں حرف آخر یہ کہ ہر قوم تجربات سے سبق سیکھتی ہے اور اپنی اصلاح احوال کرتی ہے ہمیں بھی انتخابی عمل کی بہتری کیلئے فوری اصلاحات کرنی چاہئیں اور دوبارہ سے انتخابات عدلیہ کی نگرانی میں کروانے چاہئیں۔
تازہ ترین