• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اس ہفتے جناب سید اظہر حسنین عابدی کو بھیجی جانے والی کچھ ڈاک غلطی سے ہمیں موصول ہو گئی ۔ہم نے بھی ازراہِ مروت شاہ صاحب کا بوجھ کم کرتے ہوئے کیرئیر پلاننگ پر سوالات کے جوابات خود ہی گھڑ لئے ۔ چونکہ زیادہ تر سوالات قابل دست اندازی پولیس قسم کے ہیں ، لہٰذا نام اور مقامات حذف کئے جا رہے ہیں ۔ ملاحظہ فرمائیے :
س:سر! میں نے بی ایس ہیومن ڈیویلپمنٹ اینڈ فیملی اسٹڈیز کیا ہے ۔ اب ایم فل کرنا چاہتا ہوں ۔ ریسرچ کے لئے ــ’’ویمن ا سٹڈیز ‘‘کا انتخاب کیسا رہے گا؟
ج: کوئی ڈھنگ کا کام کرو میاں ! عورت کی فطرت کو سمجھنے کی کوشش نہ کرو۔ یہاں پاگل خانے پہلے ہی کم ہیں۔
س:سر!میں اپنے زمانہ طالب علمی کے دوران پڑھائی میں ذرا کمزور تھا۔ نہلے پہ دہلا یہ ہوا کہ مجھ سے دو تین وارداتیں بھی سر زد ہو گئیں ۔ جیل سے رہا ہو کر آیا تو ماموں (ممبر قومی اسمبلی) نے میری جعلی ڈگری بنوا کر چور درواز ے سے ایک سرکاری محکمے میں اچھی پوسٹ پر بھرتی کرا دیا۔ اگلے پنج سال میں ماموں نے ایسا چکر چلایا کہ اب آپ کی دعا سے ایک بڑے سرکاری ادارے کا سربراہ ہوں ۔ پریشانی یہ ہے کہ آج کل ادارے میں میری جعلی ڈگری کے بارے میں چہ میگوئیاں ہو رہی ہیں ۔ سوچتا ہوں کہ کہیں کیرئیر کی تباہی کے ساتھ ساتھ بے عزت بھی نہ ہو جائوں ۔ کیا جعلی ڈگری کو اصلی بنانے کا کوئی طریقہ ہے ؟
ج: پہلی بات تو یہ پلے سے باندھ لیں کہ’’ ڈگری تو ڈگری ہوتی ہے چاہے اصلی ہو یا نقلی‘‘ لہذا یہ احساسِ کمتری ترک کر دیں ۔دوسری بات یہ ہے کہ خود آپ کے ماموں جان کی اپنی ڈگری بھی مشکوک ہے ۔ ان سے کسی نے آج تک کچھ کہا؟ جب جعلی ڈگریوں والے ملک چلا سکتے ہیں تو اداروں کو کون سی موت آتی ہے ؟ پس اپنا کام جاری رکھیں ، آپ کے کیرئیر اور عزت کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ۔نیز ایک باریک سا یہ نقطہ بھی ذہن نشین کرلیں کہ جن سے وارداتیں سر زد ہوتی ہیں ، انہی کو وزارتیں بھی ملتی ہیں یا یوں کہہ لیں کہ جن کو وزارتیں ملتی ہیں انہی سے وارداتیں بھی سرزد ہوتی ہیں ۔ گویا دونوں کا چولی دامن کا ساتھ ہے ۔
س: جناب عالی! مجھے معلوم ہوا ہے کہ آپ کیرئیر اسپیشلسٹ ہیں اور کیرئیر پر آپ کا فرمایا مستند ہے۔ گزارش یہ ہے کہ میری بائیسکل کا کیرئیر کھوچل ہو گیا ہے ۔ ہزار دفعہ مرمت کرا چکا ہوں مگر جب بھی اس پر اپنی بھاری بھر کم بیگم کو بٹھا کر کہیں جاتا ہوں تو پھر اسی حالت میں آ جاتی ہے ۔ بیگم صاحبہ کے بیٹھتے ہی کیرئیر پطرس کی بائیسکل کی طرح ایسی ایسی خوفناک آوازیں نکالتا ہے کہ گلی میں کھیلتے بچے ڈر کر گھروں میں گھس جاتے ہیں ۔ مجھے کیا کرنا چاہئے ؟
ج: کیرئیر اسپیشلسٹ کہنے کا شکریہ ۔ اگر آپ پرانی بائیسکل پر ظلم کریں گے تو وہ چیخے گی تو ضرور ۔ ویسے یہ بائیسکل کا زمانہ تو نہیں ہے بھائی صاحب ! تاہم اگر آپ اسی سواری کے شوقین ہیں تو دو میں سے ایک چیز آپ کو تبدیل کرنا پڑے گی ،یعنی بائیسکل یا بیگم …یا تو نئی بائیسکل لے لیں جس کا کیرئیر بیگم صاحبہ کا گراں بوجھ سہار سکے یا پھراسمارٹ سی نئی بیگم لے آئیں جس کا وزن پرانا کیرئیر با آسانی اٹھا سکے ۔ اس مشورے کے باوجود ہماری طرف سے کوئی گارنٹی نہیں ، کیونکہ مشاہدے میں یہ بھی آیا ہے کہ بسا اوقات بیگمات کی تبدیلی کے باوجود کوئی ’’تبدیلی‘‘ نہیں آتی اور کھوچل بائیسکلیں پطرسی دور کی بے ڈھنگی آوازوں کا شور مچا مچا کر گلی کوچوں کا سکون برباد کرتی رہتی ہیں ۔ البتہ ایک بات طے ہے کہ بندے کی بائیسکل یا بیگم کھوچل نہیں ہونی چاہئے ۔ اس سے کیرئیر کو نقصان پہنچتا ہے ۔
س: سر!میں محنت تو بہت کرتی ہوں لیکن تقدیر کے لکھے کو کون ٹال سکتا ہے ۔ اس دفعہ پھر بی اے میں میری تین مضامین میں سپلی آئی ہے ۔ اب میں کیا کروں؟
ج: اب آپ ویاہ کرلیں ۔
س: سر! میں نے والد صاحب کے اصرار پر ایک تھکی ہوئی یونیورسٹی میں زراعت کے شعبے میں داخلہ لیاہے۔ جبکہ میری اپنی خواہش ہے کہ میں بیرون ملک جاکر سیکولر بائیولوجی میں اعلیٰ تعلیم حاصل کروں۔ آپ کا کیا مشورہ ہے ؟
ج: میرا مشورہ ہے کہ آپ زراعت ہی پڑھیں اور کاشتکاری اور مویشی پالنے میں والد بزرگوار کا ہاتھ بٹائیں۔ جہاں تک آپ کی خواہش کا تعلق ہے تو یہ شعبہ سیکولر بائیولوجی نہیں بلکہ سیلولر بائیولوجی کہلاتا ہے ۔ تاہم اگر آپ بیرون ملک جا کر ’’ سیکولر بائیولوجی‘‘ ہی پڑھنے پر مصر ہیں تو مشورے کے لئے جناب سراج الحق صاحب سے رجوع کریں ۔اگلے دن وہ فرمارہے تھے کہ لبرل اور سیکولر حضرات انڈیا چلے جائیں (شاید اعلیٰ تعلیم کے لئے )
س: سر! میں ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھتا ہوں اور مشکل حالات کے باوجود دو تین دفعہ کی کوششوں سے سیکنڈ ڈویژن میں بی اے پاس کرلیا ہے ۔ والدہ مجھے تحصیلدار جب کہ والد تھانیدار بنانا چاہتے ہیں ۔ میر ے لئے ان میں سے کون سی ملازمت بہتر رہے گی ؟
ج:موجودہ حالات میں تو آپ چوکیدار ہی بن سکتےہیں ۔
س: سر! میں ایک کالج میں بوٹی مافیا کا سرخیل رہاہوں ۔ انہی عاجزانہ صلاحیتوں کے بل بوتے پر آخر کار بی ایس بھی کرلیاہے ۔ اب اسپیشلائزیشن کے لئے انڈسٹریل مینجمنٹ یا ٹیکنالوجی مینجمنٹ میں سے کس کا انتخاب کروں تاکہ با عزت دال روٹی کما سکوں؟
ج: میرا مشورہ ہے کہ آپ گڑ بڑالوجی مینجمنٹ یا فراڈیالوجی مینجمنٹ کا انتخاب کریں ۔ بہت سے لوگ ان ’’ڈگریوں ‘‘کے ساتھ با عزت دال روٹی کما رہے ہیں ۔
س: سر! میںایک گورنمنٹ کالج سے فارغ التحصیل ہوں ۔ اب میرے دل میں گوریوں کے کسی دیس جا کر اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کی بڑی تڑپ ہے لیکن مصیبت یہ ہے کہ IELTSکے چاروں بینڈ میں میرے صفر نمبر ہیں ۔ ایجوکیشن کونسلنگ کے حوالے سے مجھے آپ کی رہنمائی چاہئے کہ کس طرح میں اپنے بینڈ بہتر کر سکتا ہوں ؟
ج: مجھے تو آپ کالج کے پچھواڑے کے فارغ التحصیل لگتے ہیں ۔ ’’اعلیٰ تعلیم‘‘ کیلئے میں آپ کے دل کی تڑپ کو بھی سمجھ گیا ہوں ۔ بینڈ کے حوالے سے میرا مشورہ ہے کہ آ پ کسی بینڈ باجا گروپ میں شامل ہوکر محنت کریں اور پرفارمنس کیلئے کسی طائفے میں شامل ہوکر یورپ چلے جائیں ۔ پھر وہاں غائب ہو جائیں تو آپ کے دل کی تڑپ کو افاقہ ہوگا۔ البتہ خیال رہے کہ پیرس میں حالیہ دہشت گردی کے بعد وہاں آ ج کل حالات کچھ اچھے نہیںہیں ۔
س: سر ! میں نے رعایتی نمبروں سے میٹرک تھرڈ ڈویژن پاس کیا ہے اور گزشتہ پندرہ برس سے کلرک کی ملازمت حاصل کرنے کے لئے دھکے کھا رہا ہوں ۔ اب مایو س ہو کردوبارہ تعلیم کے میدان میں کودنے کا سوچ رہاہوں ۔ میرے لئے کون سے مضامین کا انتخاب بہتر رہے گا۔
ج: اپنے آپ اور تعلیم پر رحم کریں ۔ میرا مشورہ ہے کہ آپ تعلیم پر اپنی توانائیاں ضائع کرنے کے بجائے سیاست میں زور آزمائی کریں ۔ آپ کی تعلیم کلرک کی ملازمت کے لئےناکافی ہے ، البتہ سخت محنت سے آپ ممبر اسمبلی بن سکتے ہیں بلکہ وزیر ، مشیر بھی لگ سکتے ہیں ۔
تازہ ترین