• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
نوبل انعام یافتہ برطانوی سائنس دان سر اینڈریو ہکسلے کا نام تو ہم میں سے بیشتر نے سنا ہوگا وہ رائل سوسائٹی لندن کے صدر بھی رہے۔ حال ہی میں ان کا ایک لیکچر پڑھنے کا اتفاق ہوا ، عنوان تھا ’’سائنس اور سیاست‘‘ انہوں نے لکھا ہے کہ سائنس کی تحقیقات میں جو غیر معمولی وسائل در کار ہوتے ہیں وہ اس وقت صرف ترقی یافتہ ملکوں کو حاصل ہیں اور یہ سب کچھ صرف مغربی یورپ کے ممالک میں ’’اتحادی پروگرام‘‘ کے ذریعے ممکن ہواہے نہ کہ ذاتی وسائل کے ذریعے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ اس معاملے میں سب سے زیادہ دردناک صورت حال غیرترقی یافتہ ممالک کی ہے وہ سائنسی تحقیقات میں بہت پیچھے ہیں حالانکہ ترقی یافتہ صنعتی ممالک بہترین صلاحیتوں کے مالک دماغوں کو غیرترقی یافتہ ممالک سے لے رہے ہیں۔ کیا یہ عجیب بات نہیں کہ جن نوجوانوں کے سرپرستوں نے مغربی قوتوںسے لڑائی کی تھی کہ وہ ان ملکوں کو لوٹ رہے ہیں اور جنہوں نےبے پناہ قربانیوں کے بعد ان کے قبضے سے آزادی حاصل کی تھی اب انہیں کی بہترین اولاد خود اپنی مرضی سے بھاگ بھاگ کر ان ملکوں میں جارہی ہے تاکہ وہ ان کی صلاحیتوں کو لوٹیں اور ان کے ذریعے اپنی عالمی قیادت کو برقرار رکھیں۔ اس لوٹ مار سے بچنے کی واحد صورت وہی ہے جس کو موجودہ زمانے میں برطانیہ نے اختیار کیا ہےیعنی ایشیا میں مختلف ممالک کےمشترکہ وسائل سے اعلیٰ ترین سائنسی تحقیق کا آغاز کرنا تاکہ ان ملکوں کے اعلیٰ سائنسی ذہنوں کو اپنے ملک میں کام کے وہی مواقع مل سکیں جس کے لئے وہ مغربی ملکوں میں جاتے ہیں یا مستقل ہجرت کرجاتے ہیں۔ غیر ترقی یافتہ ممالک یعنی تیسری دنیا میں دو ملک بھی ایسے نہیں ہیں جو حقیقی معنوں میں اتحاد و اشتراک کے ذریعے کام کرنے کیلئے تیار ہوں۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ تخریب کے عنوان پر لوگوں کومتحد کرنا سب سے زیادہ آسان کام ہے اور تعمیر کے عنوان پر متحد کرنا سب سے مشکل کام ، کیسی عجیب تھی وہ آزادی جو خون بہا کے حاصل کی گئی تھی اور کیسی عجیب ہے وہ غلامی جو صلاحیتوں کے بہائو کے ذریعے دوبارہ ہماری طرف لوٹ آئی ہے۔ آپ اس تلخ حقیقت سے یقیناً واقف ہوں گے کہ ترقی پزیرملکوں سے ہر سال پچاس ہزار اعلیٰ تعلیم یافتہ ماہرین اور سائنس دان اپنے ملک کو خیرباد کہہ کر مغربی ممالک چلے جاتے ہیں۔ اقوام متحدہ کی ’’تجارت اور ترقی‘‘ کی رپورٹ میں جو اعداد و شمار فراہم کئے گئےہیں وہ بے حد چونکا دینے والے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق 2005ء اور 2010ء کے عشروں میں تیسری دنیا کے پانچ لاکھ ماہرین نے ترقی یافتہ ملکوں کی طرف ہجرت کی ، یوں ان کی غریب قوموں کو ایک کھرب امریکی ڈالر کا نقصان برداشت کرنا پڑا۔ دوسری طرف یہ مغربی ممالک ان ماہرین کے آنے سے 15 ارب ڈالر کی سالانہ بچت کرتے ہیں۔ صرف امریکہ میں بسنے والے اور کام کرنے والے غیرملکی ڈاکٹروں کی تعداد 72% ہے۔ ناسا جیسے اہم ادارے میں 42% صرف بھارتی افراد کام کرتے ہیں۔ امریکی ایوان نمائندگان کے امور خارجہ کے شعبے کے جاری کردہ ایک مطالعہ کے مطابق 1997-1996ء میں تیسری دنیا کی تربیت یافتہ افرادی قوت کی امریکہ منتقلی کی بنا پر امریکہ کو دو ارب ڈالر کا فائدہ پہنچا تھا، جسے ’’قابل قدر وسائل کا رضاکارانہ تحفہ‘‘ قرار دیا گیا تھا۔ا قوام متحدہ کی ایک رپورٹ اس سے بھی زیادہ تشویش ناک ہے اس رپورٹ میں ٹھوس اعداد وشمار کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ 1981ء سے 1991ء کےدوران امداد دینے والے تین بڑے ملکوں امریکہ ، برطانیہ اور کینیڈا نے تیسری دنیا کے غریب ملکوں کو 46ارب ڈالر کی امداد فراہم کی دوسری طرف غریب قوموں کے ماہرین کی آمد سے ان تینوں ملکوں کو 62ارب ڈالر کا فائدہ پہنچا تھا۔ ابھی میں نے کہا ہےکہ 2005ء کے عشرے میں تیسری دنیا کے پانچ لاکھ ماہرین نے ترقی یافتہ مغربی ملکوں کی طرف ہجرت کی۔ سائنس دانوں، انجینئروں ،ڈاکٹروں اور بیشمار دیگر شعبوں کے ماہرین کی محض یہی تعداد ان ماہرین کی تعداد سے کم از کم ایک تہائی فی صد زیادہ ہے جنہوں نے مغربی دنیا کی کایا پلٹ دی تھی۔ ایشیا اور جنوبی امریکہ کے بہت سے ملکوں کی صورت حال یہ ہے کہ ہر سال جتنے ماہرین تیار ہوتے ہیں۔ ان کا 20 سے 70 فیصد مغربی ملکوں کی طرف ہجرت کر جاتا ہے یوں یہ ملک صنعتی دور میں داخل ہونے کیلئے لازمی سائنس اور فنی مہارت سے محروم کردیئے جاتے ہیں۔ پاکستان تیسری دنیا کے ان بدقسمت ملکوں میں شامل ہے جس کے اعلیٰ تربیت یافتہ ماہرین کا ایک بڑا حصہ ترقی یافتہ ملکوں کی طرف منتقل ہوجاتا ہے اس سے ملک اور قوم کو جو نقصان اٹھانا پڑتا ہے اس کا سائنسی انداز میں کبھی جائزہ نہیں لیا گیا۔ البتہ پاکستان کے وزرائےاعظم اپنی ہر دوسری پریس کانفرنس میں یہ ضرور بتاتے رہتے تھے کہ غیرملکوں میں مقیم پاکستانیوں سے کتنے کروڑ روپے کی آمدنی متوقع ہے۔ مغربی حکومتیں ماہرین کے اس بہائو پر دل ہی دل میں خوشی ہوتی ہیں لیکن جب ان سے اس کا ازالہ کرنے کا مطالبہ کیا جاتا ہے تو وہ اسے حیلے بہانوں سے ٹال دیتی ہیں۔ یہ نقصان عارضی ہو تو شاید غریب قومیں اسے برداشت کرسکتی ہیں لیکن سچی بات یہ ہے کہ اس کے اثرات بے انتہا دور رس ہیں وجہ یہ ہے کہ ماہرین کی ہجرت پسماندہ ملکوں کی تعلیمی پسماندگی کو برقرار رکھنے کا وسیلہ بن رہی ہے۔ تاہم ماہرین کی ہجرت روز بروز بڑھ رہی ہے ترقی یافتہ ملکوں نے اس سلسلے میں غریب قوموں کی مدد کرنے سے انکار کردیا ہے وہ یہی رٹ لگائے ہوئے ہیں کہ ہم نے انہیں آنے پر مجبور تو نہیں کیا وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ان ملکوں کے آپس کے جھگڑے ختم ہوں تو یہ ممالک ترقی کی راہ پر گامزن ہوں اور پھر تیسری دنیا کے حکمراں ماہرین کے لئے حالات کو سازگار بنائیں تو ہجرت خود بخود ختم ہوجائے گی۔
یہاں تک کالم لکھا تھا کہ آج کے ڈچ اخبار میں پاکستانی فوج کے سابق سربراہ اور سابق صدر پرویز مشرف کا یہ بیان نظر سے گزرا ’’کشمیر کا مسئلہ حل بھی ہوگیا تو بھی بہت سے مسائل باقی ہیں۔‘‘
یاد رہے کہ جنرل صاحب کے بیان کا میرے موجودہ کالم سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
تازہ ترین