• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بنگالی زبان کے عظیم شاعر ، ادیب ، موسیقار اور اپنے عہد کی نابغہ روزگار ہستی رابندرناتھ ٹیگور ( Rabindranath Tagore ) نے 1926 ء میں اس وقت کے اٹلی کے فاشسٹ ڈکٹیٹر مسولینی کی دعوت پر اٹلی کا دورہ کیا تھا ۔ اس دورے میں ٹیگور کو شاہی مہمان کا پروٹوکول دیا گیا تھا ۔ ٹیگور نے وہاں ایک دو دن نہیں بلکہ 30 مئی تا 22 جون 1926ء یعنی 23 دن وہاں قیام کیا ۔ تقریباً 90 سال بعد بھی لوگ یہ سوال کر رہے ہیں کہ ٹیگور نے آخر مسولینی کی دعوت کیوں قبول کی تھی ۔ اگلے روز اخبارات میں ممتاز بھارتی خاتون دانشور سومدتہ منڈل کی ایک رپورٹ شائع ہوئی ، جس میں ٹیگور کے دورہ اٹلی سے متعلق بعض تاریخی حقائق اور ابہام کا تذکرہ کرکے ایک نئی بحث کا آغاز کیا گیا ۔ مجھ جیسے کم علم آدمی کے لیے صدمہ پہنچانے والی یہ ایک خبر تھی کہ ٹیگور بھی مسولینی کی دعوت پر آنکھیں بند کرکے چلے گئے اور انہوں نے اس بات کا بھی خیال نہ کیا کہ ان کے اور مسولینی کے نظریات میں کیا فرق ہے اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ہم جیسے لوگوں کا کیا ہو گا ، جو ٹیگور کا ان کے انسان دوست نظریات کی وجہ سے عقیدتاً احترام کرتے ہیں ۔
اس خبر پر صدمہ ضرور ہوا ہے کہ ٹیگور ایک فاشسٹ ڈکٹیٹر مسولینی کے ہاں سرکاری مہمان بنے لیکن یہ صدمہ اتنا بڑا بھی نہیں ہے کیونکہ ہم جس عہد میں رہتے ہیں ، وہ مسولینی اور ہٹلر کے فاشزم ( فسطائیت ) سے بھی بدتر فسطائیت کا عہد ہے ۔ اس طرح کا صدمہ پہلی دفعہ نہیں ملا ہے ۔ میں ایک پاکستانی ادیب اور ناول نگار کو اپنے عہد کا ٹیگور سمجھتا تھا ۔ میں اپنے آپ کو خوش نصیب سمجھتا تھا کہ میں نہ صرف ان کے عہد میں پیدا ہوا ہوں بلکہ جب بھی چاہوں ،میں ان سے ملاقات بھی کر سکتا ہوں ۔ میرے نزدیک وہ ایک عظیم ادیب اور ناول نگار کے ساتھ ساتھ ترقی پسند سوچ کے حامل ایک انسان دوست شخص تھے ۔ ان سے سیکھنے اور اپنے ذہنی مغالطوں سے نجات حاصل کرنے کے لیے ہم ان کے پاس حاضری بھرتے رہتے تھے ۔ ان کی شفقت اور مہربانی کی انتہا تھی کہ وہ ہم جیسے دیہاتی ، اجڈ اور ’’ لمپن ‘‘ نوجوانوں کے ساتھ نہ صرف گھنٹوں علمی اور ادبی باتیں کرتے رہتے تھے بلکہ ان کے ہاں کھانے کے وقت کھانا بھی ملتا تھا اور چائے کے وقت چائے بھی ملتی تھی ۔ کبھی کبھی واپسی کا کرایہ بھی ان سے لے لیتے تھے ۔ ان کے گھر سے نکلتے تھے تو ہمیں یوں محسوس ہوتا تھا کہ ہم سے بڑا دانشور کوئی نہیں ہے ۔ انسان ذات کے بے پناہ دکھوں اور پیچیدہ مسائل پر فلسفیانہ اور علمی مباحث میں ہم اس قدر الجھے رہتے تھے کہ بس سے اترنے کے بعد پتہ چلتا تھا کہ ہمیں بس میں نہیں بیٹھنا چاہئے تھا کیونکہ بس کا کرایہ دینے کے بعد رات کے کھانے کے پیسے نہیں بچتے تھے ۔ سالہا سال تک جدید عہد کے ٹیگور سے شرف باریابی حاصل رہا۔ ہم نے ان سے بہت سیکھا ۔ روس کے گورباچوف نے آ کر ہمیں اس رومانس سے ہٹایا اور ’’ تجھ سے بھی دلفریب ہیں غم روزگار کے ‘‘ کا فلسفہ سمجھ آنے لگا ۔ پھر روٹی روزی میں الجھ گئے ۔ میرے عہد کے ٹیگور نے اپنا گھر تبدیل کر لیا تھا اور وہ کراچی کے علاقے ڈیفنس میں شفٹ ہو گئے تھے ۔ یہ وہ دور تھا ، جب کراچی خون میں نہا رہا تھا ۔ صرف کراچی ہی نہیں پوری دنیا خصوصاً تیسری دنیا کے ممالک مسولینی کی فسطائیت سے بھی بدتر فسطائیت کی لپیٹ میں آ چکے تھے ۔ میں نے اپنے ٹیگور کا ڈیفنس والا نیا گھر نہیںدیکھا تھا۔ میں نے اپنے دوست خادم اچوی سے درخواست کی کہ وہ مجھے ان کے گھر لے جائیں ۔ وقت بہت گذر چکا تھا ۔ ان کے ڈیفنس کے بڑے گھر کے کشادہ ڈرائنگ روم میں انتہائی سلیقے کے ساتھ ان کی تصویریں لگی ہوئی تھیں ۔ دنیا کے بڑے بڑے انقلابی ، ترقی پسند عالمی رہنماؤں ، اس عہد کے نامور شاعروں ، ادیبوں اور دانشوروں کے ساتھ وہ نظر آ رہے تھے ۔ یہ تصویریں ان کے کئی ملکی اور غیر ملکی دوروں کی تھیں ۔ انہوں نے اسی شفقت اور محبت کا مظاہرہ کیا اور بڑھاپے و نقاہت کے باوجود ہمارے ساتھ طویل نشست کی ۔ بس وہ آخری نشست تھی ۔ میرے عہد کا ٹیگور فسطائی سوچ کی وکالت کر رہا تھا اور بے گناہ انسانوں کی خونریزی کا جواز پیش کر رہا تھا ۔ اگر میرے ساتھ یہ عظیم صدمہ رونما نہ ہوا ہوتا تو بنگال کے رابندر ناتھ ٹیگور کا مسولینی کا مہمان بننے کی خبر کا شاید مجھے شدید دکھ ہوتا ۔ اس کے بعد ہم روزانہ اس طرح کے عظیم صدمات کے عادی ہو چکے ہیں ۔ وہ جنہیں ہم ٹیگور سمجھتے رہے ہیں یا جو خود اپنے آپ کو بھی ٹیگور سے بڑا سمجھتے ہیں ، وہ فسطائیت کی لہر میں ایسے بہتے جا رہے ہیں ، جیسے وہ مسولینی کی سرکاری مہمان نوازی سے لطف اندوز ہو رہے ہوں ۔ ان میں میرے عہد کے بڑے بڑے ترقی پسند ادیب ، شاعر ، صحافی ، سیاست دان ، دانشور اور ’’ این جی او برانڈ ‘‘کامریڈز شامل ہیں ۔
رابندرناتھ ٹیگور کے دورہ اٹلی کی 90 سال بعد ملنے والی خبر پر اس لیے بھی کم صدمہ ہوا ہے کہ ٹیگور نے بعد ازاں خود یہ اعتراف کر لیا تھا کہ مسولینی کی دعوت پر اٹلی جانا ان کی بہت بڑی غلطی تھی ۔ ٹیگور نے ’’ مانچسٹر گارجین ‘‘ نامی اخبار میں اپنا ایک وضاحتی خط شائع کرایا تھا ، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ’’ یہ تصور کرنا ہی حماقت ہے کہ میں نے اپنی زندگی کے کسی بھی ایک لمحے میں تحریک ( فاشزم ) کی حمایت کی ہے کیونکہ فاشزم اظہار رائے کی آزادی کو بے رحمی سے کچلتا ہے ، وہ ایسے ضابطے نافذ کرتا ہے ، جو فرد کے ضمیر کے خلاف ہوتے ہیں اور وہ ایسا راستہ اختیار کرتا ہے ، جو تشدد اور سنگین جرائم کا خونریز راستہ ہوتاہے ۔ ‘‘ٹیگور نے نہ صرف فاشزم سے نفرت کا اظہار کیا بلکہ یہ بھی بتا دیا کہ فاشزم کیا ہوتا ہے ۔ شدید دکھ اور صدمے والی بات یہ ہے کہ یہاں کسی کو اپنی غلطی کا احساس بھی نہیں ہے اور یہاں کے نام نہاد ٹیگور تو ہٹلر اور مسولینی کی طرح اپنی بات کے درست ہونے پر بضد ہیں ۔ رابندر ناتھ ٹیگور کے دورہ اٹلی کا صدمہ ضرور ہوا ہے لیکن یہ ذرا کم صدمہ ہے کیونکہ رابندر ناتھ ٹیگور خود مسولینی کے فسطائی نظریات کا علمبردار تو نہیں بن گیا تھا ۔
تازہ ترین