• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ان تلخ آنسوئوں کو نہ یوں منہ بناکے پی
یہ مے ہے خود کثیراسے مسکرا کے پی
اتریں گے کس کے حلق یہ دل خراش گھونٹ
کس کو پیام دوں کہ میرے ساتھ آکے پی
(ابوالاثرحفیظ)
اخباری خبر ہے کہ کرپشن مقدمات میں نیب نے اب اپنا رخ پنجاب کی طرف بھی موڑا ہے اور ویڈیو ٹیپ کے شہرت یافتہ رانا مشہود کی طرف بھی نیب کی توپوں کارخ ہوا ہے اس کے علاوہ سابق وزیراعظم پرویز اشرف ، شاہد رفیع سابق وفاقی سیکرٹری پانی وبجلی اور دیگر افراد کے خلاف کارروائی کا آغازبھی کردیا ہے اب خدا کرے کہ یہ کارروائی موثر ہو اور مجرموں کے لئے عبرتناک سزائیں ہوں پہلے کی طرح مذاق نہ ہوکہ ہر کرپٹ آدمی باعزت بری ہورہا ہے ، اس پر مجھے علامہ اقبال کا وہ عوامی شعر یاد آیا جو ہر الیکشن میں امیدواروں کے بینرز پر لکھا ہوتا ہے
تندی باد مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب
یہ تو اڑتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لئے
نیب نے جن لوگوں کے خلاف مقدمات بنائے وہ عدالت سے سرخرو ہوکر نکلےاور علامہ اقبال کا مندرجہ بالاشعر من وعن ان پر پورا اترا ۔ اب دیکھئے آئندہ کیا ہوتا ہے رانا مشہود اور پرویز اشرف بھی سابق صدر زرداری کی طرح اونچا اڑتے ہیں اور علامہ اقبال کے شعر کو شرمندہ تعبیر کرتے ہیں ، کراچی میں تو رینجرز نے عدالتوں میں پیروی کے لئے اسپیشل پراسیکیوٹر مقرر کرنے کا سلسلہ شروع کردیا ہے کیونکہ ان کے خیال میں سندھ حکومت کےنامزد پر اسیکیوٹر ان کی ہدایات پر عمل نہیں کررہے تھے اور حکومت سندھ کے ایما پر مجرموں کی پشت پناہی کے مرتکب ہورہے تھے ۔ میں نے گزشتہ برس فوجی عدالتوں کے قیام کے لئے مسلسل کالم لکھے تھے اور بالآخر فوجی عدالتوں کا قیام اسمبلی کی منظوری سے وجود میں آیا جسے سپریم کورٹ نے بھی منظور کیا اب میں دوبارہ بار بار لکھ رہا ہوں کہ کرپشن کے مقدمات بھی فوجی عدالتوں میں منتقل کئے جائیں عام عدالتوں میں کرپشن کے مقدمات کے چلنے کا دورانیہ 10سے20سال ہوتا ہے اس دوران سرکاری گواہ اپنی نوکریوں سے ریٹائر ہوکر اپنے آبائی گائوں جا چکے ہوتے ہیں ، سرکاری ریکارڈ گم ہوچکا ہوتا ہے ۔فوٹو اسٹیٹ پر مقدمہ چلا کر ملزموں کی قسمتوں کے فیصلے کئے جاتے ہیں ۔ حکومتیں کئی بار تبدیل ہوچکی ہوتی ہیں ، ملزمان حاکم بن جاتے ہیں اور تفتیش کرنے والے منہ چھپاتے پھرتے ہیں پھر میں تیرا حاجی بگویم تومیرا حاجی بگو کے مصداق حکومت اور اپوزیشن بھی مل جاتی ہے اور ایک دوسرے کے مفادات کی حفاظت کرتی ہے ، عوام بیچارے سادہ لوح ہیں وہ ٹی وی اور اخبار کی خبریں سن کر خوش ہوتے رہتے ہیں کہ بہت کام ہورہا ہے ان بیچاروں کو کیا معلوم کہ کیا کام ہو رہا ہے ، ملزم بری ہورہے ہیں اور شادیانے بجارہے ہیں ۔ مجھے امید تھی کہ میاں نواز شریف صاحب جناب آصف زرداری کوان کے بری ہونے پر مبارکباد دیں گے ہوسکتا ہے دی بھی ہو اور اخباروں میں نہ آیا ہو ، جیسے بہت سی باتیں بعد میں پتہ چلتی ہیں خورشید محمودقصوری صاحب اب بتاتے ہیں کہ کس طرح انکو اسرائیل کے حکام سے ملوایا گیا ۔ ان تمام باتوں کو سمجھنے کے لئے بہت وقت درکار ہے یا پھر دیدہ بینا کی ضرورت ہے ، علامہ اقبال نے بھی کہا تھا
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
ہمارے وزیرداخلہ کے حکم پر عنقریب ایف آئی اے ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کے سلسلے میں ایف آئی آر درج کرکے تفتیش کا آغاز کرنے والی ہے مجھ سے تقریباً تمام اخباری رپورٹروں نے استفسار کیا کہ آیا لندن میں ہونے والے قتل کی ایف آئی آر پاکستان میں درج ہوسکتی ہے اور پھر اس پر کارروائی ممکن ہے اس ضمن میں تعزیرات پاکستانPPCکی دفعہ 3کے تحت اگر کوئی پاکستانی شہری پاکستان سے باہر کوئی قابل تعزیرجرم کرے تو اس کے خلاف مقدمہ پاکستان میں چلایا جاسکتا ہےلیکن عمران فاروق قتل کیس پہلے ہی سے لندن پولیس نے رجسٹر کیا ہوا ہے ، تمام فارنکس گواہیاں، معائنہ موقع واردات، معائنہ لاش کے ریکارڈبرٹش پولیس کی تحویل میں ہیں جبکہ ملزمان ہماری تحویل میں ہیں اور طوطے کی طرح فرفر اپنے جرم کا اعتراف کررہے ہیں ہم نے اپنی سیاسی وجوہات کی بنا پر ان ملزمان کوابھی تک برٹش پولیس کے حوالے نہیں کیا اگرچہ برٹش پولیس نے بارہا اس کا تقاضا کیا خیال یہ ہے کہ ہم ملزمان دینے سے پہلے کچھ لو اور کچھ دوکی بنیاد پر ان سے بھی کچھ تقاضے کررہے ہیں شاید اپنے کچھ مفرور ملزمان مانگ رہے ہیںیا کوئی اور تقاضا ہے جسے برٹش حکومت پورا کرنے سےقاصر ہے لہذا مایوس ہوکر اور تحفظ پاکستان آرڈنینس کے تحت گرفتار ملزمان کا Detention on periodمدت تحویل ختم ہونے سے پہلے ان کی قانونی گرفتاری اور ریمانڈ کیلئے مقدمہ یہاں درج کیا جارہا ہے میرے خیال میں ابتدائی تفتیش کرکے تفتیشی کاغذوں اور ملزموں کوبالآخربرٹش حکومت کے حوالے کرنا پڑے گا کیونکہ ایک فوجداری مقدمے کی دوملکوں میں کارروائی ممکن نہیں ہے ،ایک جرم کا ایک ہی مقدمہ ہوتا ہے اور ایک ہی فیصلہ ، میرے خیال میں ملزمان کی قانونی گرفتاری کرنے کیلئے مقدمہ رجسٹرکیاجارہا ہے جہاں تک مقدمہ چلانے کا سوال ہے وہ ان حالات میں یہاں ممکن نہیں تفتیش کے لئے اب ایف آئی اے کے افسران لندن جائیں گے اور وہ اپنا معائنہ موقع کا نقشہ وغیرہ بنائیں گے ۔ کچھ ایف آئی اے افسران کی سرکاری خرچ پر لندن کی سیر ہوجائیگی، ابھی تک برٹش حکومت نے بھی اس مقدمے کو برطانوی عدالت میں نہیں بھیجا شاید ان کی بھی کوئی مجبوری ہو ، مجھے کراچی کا قصہ یاد ہے ایک دفعہ ایم اے جناح روڈ پر سیشن عدالت کے سامنے قتل ہوگیا ایم اے جناح روڈ کا دائیں طرف کا فٹ پاتھ اس زمانے میں رسالہ تھانہ کی حدود میں آتا تھا اور بائیں طرف کا فٹ پاتھ جہاں لائٹوں اور پنکھوں کی دکانیں ہیں آرام باغ تھانے کی حدود میں آتا تھا ۔ قتل بیچ سڑک پرہوا تھا آپ یقین کریں کہ کئی گھنٹے تک مقتول کی لاش سڑک پر پڑی رہی کیونکہ دونوں تھانے یہ فیصلہ نہیں کرپارہے تھےکہ علاقہ کس تھانے کا ہے ، پھر انچی ٹیپ لیکر سڑک ناپنے لگے کہ لاش کا زیادہ جھکائو کس طرف ہے اور یوں پھر قرعہ آرام باغ تھانے کے حق میں نکلا یہاں تو لندن اور اسلام آباد تک کا فاصلہ ہے مگر بقول جوش صاحب حوصلے آگ کوگلزار بنادیتے ہیں ، وزیر داخلہ نے فیصلہ کچھ سوچ سمجھ کر کیا ہوگا ۔ جب سے اسکی ایف آئی آر اور تفتیش ایف آئی اے کے ذریعے کرانے کا چوہدری نثار صاحب کا حکم ہوا ہے تب سے تمام قانونی حلقوں میں اسی موضوع پر چہ مگوئیاں ہورہی ہیں ، کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ کیس چل سکتا اور کچھ کا خیال ہے کہ نہیں چل سکتا میرا یہ خیال ہے کہ چل توسکتا ہے مگر نتیجہ صفر ہوگا ۔آخر میں داغ دہلوی کے اشعار قارئین کی خدمت میں پیش کرتا ہوں
سخت جانی سے میری جان بچے گی کب تک
ایک جب کند ہوا دوسرا خنجر آیا
میرے افسانہ کو پورا ہوا روز جزا
ڈھل گیا دن تو یہ جانا کہ گھڑی بھر آیا
تازہ ترین