• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اس وقت دنیا بھر میں ماحولیاتی اور موسمی تبدیلیوں پر کافی تشویش نظر آ رہی ہے۔ ہمارے وطن پاکستان میں موسم اور ماحول دونوں میں خاصے تنائو اور تلخی کا رجحان دکھائی دے رہا ہے مگر ہمارے ہاں کوئی بھی سیاسی جماعت اپنے منشور میں ماحول اور موسم کے بارے میں توجہ دیتی نظر نہیںآتی۔ چند دن پہلے فرانس میں ماحولیات کے حوالے سے ایک بین الاقوامی کانفرنس ہوئی جس میں ہمارے وزیراعظم نوازشریف نے بھی شرکت کی۔ یہ کانفرنس فرانس میں حالیہ دنوں کی خوفناک دہشت گردی کے چند دن بعد منعقد ہوئی۔ اس وقت سے فرانس میں ایمرجنسی نافذ ہے مگر یہ ایسا اہم معاملہ تھا کہ اس کو نظرانداز کرنا مناسب نہ تھا سو ہنگامی حالات کے باوجود عالمی کانفرنس کا اجلاس پروگرام کے مطابق بلایا گیا۔ تمام بڑے ممالک نے اس میں بھرپور شرکت کی۔ عالمی قائدین نے دنیا بھر کے موسم اور ماحول پر غور وفکر کیا اور اس دفعہ نیا موضوع عالمی ماحول میں موسم کے علاوہ دہشت گردی بھی نظرآیا جس کی وجہ سے ماحول اور موسم کا موضوع کم توجہ پاسکا مگر ماحول اور موسموں کی تبدیلیوں کو نظرانداز کرنا ممکن نہیں۔جس وقت پیرس (فرانس) میں یہ عالمی کانفرنس ہو رہی تھی اس وقت شہر میں عالمی ماحول اور موسموں کو خراب کرنے میں شریک ممالک کیخلاف مظاہرے ہو رہے تھے۔ فرانس کی حکومت نے مظاہروں پر پابندی نہیں لگائی۔ یہ اختلاف ِ رائے ضروری تھا کہ برداشت بھی ایک اہم نکتہ تھا۔اس مظاہرے نے کانفرنس کے شریک ممالک پر واضح کردیاکہ دنیا میں ترقی کیلئے ضروری نہیں ماحول خراب کیا جائے۔ بڑے ترقیاتی ممالک کے کارخانے اور کاروبار دنیا میں موسم کو بڑی تیزی سے تبدیل کر رہے ہیں۔ان اہم ممالک میں سرفہرست چین، امریکہ اورروس ہیں۔ چین کو اب اندازہ ہو رہا ہے کہ ترقی کی قیمت پر ماحول اور موسم کو مزید خراب کرنا مناسب نہیں ہے۔ مگراس کیلئے کیا قیمت ادا کرنی ہے یہ ذرامشکل سوال ہے۔ جبکہ امریکہ ،روس، برطانیہ، فرانس کو اندازہ ہو چکا ہے کہ ماحول اورموسم کی خرابیاں ان کی ترقی کےسفر کو مشکوک بنارہے ہیں جبکہ اس کے مقابلے پر غریب ممالک مفت میں اپنا ماحول اور موسم خراب کر رہے ہیں۔ وقتی ترقی تو ہو رہی ہے مگر ماحول اور موسم کی خرابی عالمی زراعت اور صحت کو سب سے زیادہ خراب کرتی نظرآتی ہے اور اس کیلئے ضروری قوانین بنانے کی اشد ضرورت ہے۔ پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جہاں پر آبادی کا دبائو نمایاں ہے۔ پھر ہماری معیشت کا زیادہ انحصار زراعت پر ہے۔ پھر ملک میں کارخانے بھی لگ رہے ہیں۔ ہمارے ہمسایہ ممالک بھارت اور چین عالمی موسمیاتی تبدیلیوں میں اہم حیثیت کے حامل ہیں۔ ان کی وجہ سے ماحول اور موسم بدلتے جارہے ہیں۔ اب اس دفعہ موسم کو دیکھ لیں۔ سردی کا موسم تو شروع ہوچکا ہے مگر درجہ حرارت کا نشیب و فراز حیرا ن کن ہے جس کی وجہ سے زراعت اور صحت کے مسائل میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ اس معاملہ پر توچہ دینا ازحد ضروری ہے جبکہ ہماری نوازلیگ کی ترجیحات بالکل مختلف ہیں جب پاکستانی وفد نے فرانس میں ماحولیاتی عالمی کانفرنس میں شرکت کی تو کوئی زیادہ کردارادا نہ کیا اس کیلئے کوئی بھی تیاری نہ کی گئی تھی جو کہ بہت ہی افسوسناک صورتحال ہے۔ ہمارے ہاں جس طریقہ سے تعلیم اورصحت کے معاملات کو نظرانداز کیاجارہا ہے وہ مستقبل کیلئے ایک المیہ ثابت ہوسکتا ہے۔ ہمارے ادارے کوئی بھی سائنسی تحقیق کرتے نظر نہیں آتے بلکہ ان کے انتظامی اخراجات ہی پور ےکرنا مشکل نظرآتے ہیں اور اس کی وجہ معاشی اور سماجی ترجیحات ہیں۔ ہمارے اعلیٰ مقام ماہر اعدد و شمار وزیرخزانہ کو ہر وقت زرمبادلہ کے ذخائر کی فکر رہتی ہے۔ پھر وہ ماہر معاشیات کے علاوہ سیاسی موسم کے بھی ڈاکٹر نظر آتے ہیں۔اس وقت ملک دہشت گردی کی وجہ سے مشکل حالات سے دوچار ہے۔ ہماری افواج دہشت گردی کی جنگ میں ایک عرصہ شریک رہیں اب جبکہ ضرب عضب ایک فیصلہ کن مرحلے میں ہے ہمارے وزیر خزانہ ایک ایسا بیان داغ دیتے ہیں جس کا نہ وقت تھا اور نہ ضرورت۔ ان کا فرمانا ہے کہ 40ارب کے نئے ٹیکس ضرب عضب کے اخراجات کے تناظر میں لگائےجارہےہیں۔ یہ بات بالکل مناسب نظر نہیں آتی۔ ایک طرف توآپ قرضوں کی مد میں اپنی ضرورت سے زیادہ کے قرضے لے رہےہیں جبکہ اپنے حکومتی اخراجات میں کمی کرکے ان قرضوں سے بچا بھی جاسکتا ہے پھرملک سیاسی ماحول، کرپشن اور بدانتظامی کی وجہ سے بہت زیادہ خلفشار کا شکارہے۔ ایسے میں وزیر خزانہ کے اقدامات سیاسی حکومت کی ساکھ کو خراب کر رہے ہیں ملک میں کاروباری لوگ وزیر خزانہ کی ہنرمندی سے خوفزدہ ہیں ٹیکسوں کے معاملے پر وہ حکومت سے مشاورت چاہتے ہیں مگر وزیرخزانہ نے ان کو مکمل نظرانداز کر رکھا ہے۔ ایک طرف پیپلزپارٹی کے نیتا سابق صدر آصف علی زرداری اپنی تمام سیاست اورریاضت دبئی سے کر رہے ہیں اور دوسری طرف ہمارے وزیرخزانہ تمام معاشی معاملات دبئی میں بیٹھ کر ترتیب دیتے نظرآتے ہیں۔ یہ صورتحال پاکستان کی ترقی کیلئے کتنی سودمند ہوگی۔پاکستان کے معاشی اور سیاسی ماحول کو خراب کرنے میں بدانتظامی اورکرپشن کا کردار سب سے نمایاں ہے۔ کرپشن کو ختم کرنے کیلئے ضروری اقدامات میں وقت لگ سکتا ہے مگر بدانتظامی کامعاملہ ایسا نہیں کہ اس پر توجہ نہ دی جائے۔ بدانتظامی کے معاملات میں پولیس اوردیگر سرکاری ادارے نمایاں ہیں جہاںپراصولوں اور قوانین کو خاطر میں نہیں لایا جاتا۔ ابھی ہمارے چیف جسٹس نے اس معاملے پر حکومت کی توجہ دلائی ہے۔ ان کو بھی اندازہ ہے کہ بدانتظامی کی وجہ سے عام آدمی کی زندگی مشکل بنائی جارہی ہے۔ پھر اصول اورقانون کو بھی نظرانداز کیا جارہا ہے۔ حکومت اعلیٰ عدلیہ کے مشورو ں اور فیصلوں کو جس طرح نظرانداز کر رہی ہے وہ راستہ بند گلی کی طرف جارہا ہے۔اس وقت ہمارا ملک شدید معاشی اور سیاسی مسائل سے دوچار ہے۔ ہماری عوام دوست سرکار ان مسائل کو جمہوریت کے ذریعے حل کرنے کیلئے جتن کرتی رہتی ہے مگر جمہوریت اور جمہور دونوں کو نظرانداز کیا جارہا ہے۔ جمہوریت میں باری باری کا کھیل سیاسی جماعتوں میں مقبول ہے اور اس کھیل کو جاری رکھنے کیلئے کرپشن ہی سب سے زیادہ ہو رہی ہے۔ پھر حالیہ بنیادی انتخابات میں الیکشن کمیشن میں جو بدانتظامی نمایاں طور پر نظرآ رہی ہے اس پر کوئی سیاستدان توجہ دینے پرتیار نہیں پھر حکومت اندرون خانہ بھی تقسیم نظر آتی ہے۔ اس سے تویوں نظرآتا ہے کہ حکومت کرپشن اور بدانتظامی سے سمجھوتہ کرچکی ہے وہ عوام کو پریشانی میں مبتلا کررہی ہے۔ عوام کے صبر کو زیادہ نہ آزمایا جائے۔
پاکستان کے وزیراعظم نے چند دن پہلے یک دم بھارتی وزیراعظم سے جو خیرسگالی قسم کی ملاقات کی اس کے بارے میں سرکاری موقف کھل کر سامنے نہیں آیا۔ بھارت کا جو رویہ گزشتہ چند سالوں میں رہا ہے وہ خاصا تشویشناک ہے۔ پھر کچھ خفیہ ملاقاتوں کا تذکرہ بھی ہو رہا ہے۔ سیاست میں ایسا ہو تارہتا ہے۔ ہمارے ایک فوجی صدر جنرل ضیا الحق جنہوں نےمیاں نواز شریف کو اپنی عمر بھی نذر کردی تھی وہ بھی تو بھارت کے ساتھ ایسے ہی تعلقات استوار رکھتے تھے۔ اگر میاںنوازشریف نے پاکستان کیلئے ایسا کچھ کیا تو شورکیوں۔
تازہ ترین