• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہم پاکستان میں معمول کے معاملات کو بھی غیر معمولی بنادیتے ہیں۔ پاکستان کی کرکٹ ٹیم ایک بار پھر پرانی روش پر آگئی ہے۔ اس پر اور سیاست پر آسیب کا سایہ پڑگیا ہے کہ ادھر ڈوبے اور ادھر نکلے۔ دیار غیر میں رہنے والے تارکین وطن اپنے دیس کی محبت کے اتنے اسیر ہیں کہ صبح و شام ٹیلی فون پر ایک ہی بات سننے کو ملتی ہے کوئی تازہ خبر اور اگر نہیں تو پرانی باتوں اور خبروں پر تبصرہ۔ نیوزی لینڈ میں کرکٹ ٹیم بڑی بےبسی اور انتشار کا شکار نظر آئی۔وزیراعظم کی توجہ کرکٹ پر بالکل نہیں ہے۔ وہ ایک عرصہ سے میڈیا پر بھی نظر نہیں آئے، پھر چند دن پہلے ان کی ایک تصویر جو اخبارات میں نظر آئی، اس میں ایک خالی میز پر جنرل باجوہ کا استقبال کرتے نظر آئے۔ یہ بھی ایک سوال ہے کہ اس سے کیا تاثر دینا مقصود تھا۔ تارکین وطن کا ایک بڑا حلقہ جو سوشل نیٹ ورک پر غیر جانبدار نظر آتا ہے، وہ سب اس تصویر کی اشاعت پر نہ صرف حیران نظر آئے بلکہ کچھ تبصرے بھی کئے، ایک تبصرہ ملاحظہ ہو’’خالی میز سے یوں لگتا ہے کہ آج بھی ہوم ورک نہیں کیا‘‘کمان کی تبدیلی ایک معمول کا معاملہ ہے مگر سرکار اور میڈیا نے اس کو خوب تر بنایا۔ ساری توجہ اس ’’چھڑی‘‘ پر تھی جو ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ منتقل ہوئی۔ چھڑی پرانی ہے، پر ہاتھ نئے ہیں۔ کمان کی تبدیلی کی تقریب کے بعد سابق کمان دار (ر)جنرل راحیل شریف تو لاہور تشریف لے گئے۔ ان کو ابھی بھی کچھ فیصلے کرنے ہیں۔ کچھ دوستوں کا خیال ہے کہ وہ چند دن آرام کے بعد دیکھیں گے کہ لوگوں کی ان پر کتنی توجہ ہے۔ اس کے بعد ہوسکتا ہے وہ فراغت کی زندگی کو ترتیب دیں، کچھ بیرون ملک دوستوں کا خیال ہے کہ وہ ملک بھر کے تعلیمی اداروں میں جاکر لیکچرز دیں اور اپنے تجربات بیان کریں تاکہ طالبعلموں کو اندازہ ہوسکے کہ افواج پاکستان کس طرح سے اندرون ملک اور بیرون ملک پاکستان کی حفاظت کی امین ہوتی ہے۔ سابق صدر جنرل مشرف بھی لیکچرز دینے کے لئے غیر ملکی اداروں کی لسٹ پر تھے، مگر ان کا کوئی بھی لیکچر ان کی حیثیت نہ بناسکا۔اس وقت پاکستان کی سیاست پاناما لیکس کے گرد گھوم رہی ہے اور اس وقت یہ معاملہ پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ کے سامنے ہے اور امید کی جارہی ہے کہ عدلیہ کے فیصلہ کے بعد اگر کمیشن بنا تو اس کے بعد مسلم لیگ نواز اور پیپلزپارٹی نے مل کر فیصلہ کرنا ہے کہ انتخابات کو قبل از وقت کروا لیا جائے جس کی ضرورت بھی محسوس کی جارہی ہے۔ مسلم لیگ نواز اب ایک نئی ترمیم پر غور کررہی ہے جو عدلیہ کے اختیارات کے تناظر میں ہے۔ اس پر سابق صدر آصف علی زرداری سے مشاورت ہوچکی ہے اور پیپلزپارٹی نواز لیگ سے متفق ہے۔
ادھر کینیڈا کے وزیر اعظم ٹروڈو نے کیوبا کے مرحوم فیڈل کاسترو کی آخری رسومات میں شرکت سے معذوری کرلی۔ پہلے پہل تو ان کے بیان پر ردعمل آیا اگرچہ ان کا بیان ایسا نہ تھا اور فیڈل کاسترو نے تیسری دنیا میں اپنی اہمیت منوائی ان کے کینیڈا کے ساتھ اچھے تعلقات تھے اور امریکی انتظامیہ اپنے معاملات کے لئے کینیڈا کو ہی استعمال کرتی تھی مگر اب ان کے نئے صدر کا ردعمل ایسا تھا کہ وزیر اعظم کینیڈا کو بھی اپنا ارادہ بدلنا پڑا اگرچہ سابقہ امریکی انتظامیہ نے کیوبا سے بہتر تعلقات بنانے کی کوشش ضرور کی، مگر نومنتخب صدر ٹرمپ کے مشیروں کی وجہ سے ان تعلقات میں گرم جوشی نظر نہیں آتی۔
ہمارے وزیر اعظم نے نئے امریکی صدر ٹرمپ کو خیر سگالی کا فون بروقت کیا اور خوشی کی بات ہے کہ جواب میں خیر سگالی کا جواب بھی آیا جس میں حیران کن طور پر پاکستان کے عوام کی تعریف کی گئی اور امید دلائی گئی کہ صدر ٹرمپ پاکستان کے مسائل کے حل کے سلسلے میں اپنا کردار ادا کرنے کے لئے تیار ہیں، اگر ہمارے مہربان امریکی دوست مسئلہ کشمیر کے سلسلے میں مدد کرسکیں تو خطہ میں امن کو فروغ دیا جاسکتا ہے۔اس وقت امریکی نو منتخب صدر بہت ہی مصروف ہیں، ان کی بیٹی جوان کی مشیر بھی ہے ، کی طرف سے اعلان آچکا ہے کہ وہ اپنے کاروباری معاملات سے لاتعلق ہو کر امریکہ سرکار میں اپنا کردار ادا کرے گی۔ اب ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی سوشل میڈیا پر ایسا ہی پیغام دیا ہے کہ وہ اپنے کاروباری معاملات سے علیحدہ ہورہے ہیں اور اس سلسلہ میں وہ اور ان کا خاندان 15دسمبر کو پہلی بار پریس کانفرنس میں اپنے پروگرام سے عوام کو آگاہ کریں گے۔ امریکی نو منتخب صدر کچھ عرصہ سے میڈیا پر نہیں رہے، ایک تو ان کی مصروفیت انتقال اقتدار کے حوالہ سے ہیں اور پھر ان کو اپنی ٹیم کا انتخاب بھی کرنا ہے۔
امریکی جمہوریت کا یہ رنگ بھی خوب ہے کہ حزب مخالف کے لوگ بھی حکومت وقت کا حصہ بن کر سرکار کو کامیاب بنانے میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ اس وقت بھی ڈونلڈ ٹرمپ اپنے کئی نقادوں سے مشاورت کررہے ہیں۔ اس وقت اہم معاملہ مسلمانوں کی رجسٹریشن کا ہے۔ اس پر دیگرکئی اقلیتیں بھی تحفظات کا شکار ہیں، مگر پاکستانی تارکین وطن ابھی تک نئے صدر کے معاملات پر اپنے ردعمل میں کافی محتاط نظر آئے ہیں۔ امریکی انتخابات پر گرین پارٹی نے ایک ریاست میں ووٹوں کی دوبارہ گنتی کی درخواست کی ہے۔ گرین پارٹی کی صدر جل سٹین کو ووٹوں کی گنتی کے معاملہ پر شک ہے اور ان کی بات کی تائید ہیلری کلنٹن نے بھی کی ہے۔ امریکی نو منتخب صدر ڈونلڈ جے ٹرمپ کی طرف سے ناراضی کا اظہار کیا گیا ہے مگر معاملہ ایسا ہے کہ اس پر امریکی عدالتیں توجہ دے سکتی ہیں۔ ہمارے امریکی دوست اور اس وقت کی امریکی انتظامیہ انتقال اقتدار کی وجہ سے بہت سے معاملات سے لاتعلق سی نظر آتی ہے مگر کچھ تھنک ٹینک ادارے پاکستان اور چین راہداری کے معاملات پر مسلسل نظر رکھے ہوئے ہیں۔ پاکستانی تارکین وطن اپنے ملک میں جمہوری معاملات سے مطمئن نظر نہیں آتے۔ اک عرصہ تک فوج کے نئے سپہ سالار کا معاملہ میڈیا کے میدان میں گرم رہا اور اب اعلیٰ عدالت کے سامنے پاناما کیس کا معاملہ بیرون ملک پاکستانیوں کو بے چین کررہا ہے۔ میاں نواز شریف کو جلد ہی انقلابی تبدیلیاں کرنا ہوں گی ورنہ مستقبل مسلسل خطرات کی زد میں رہے گا۔

.
تازہ ترین