• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کہا جاتا ہے کہ روایات کا درجہ آئین و قانون سے بھی زیادہ معتبر ہوتا ہے۔ جہاں کہیںبھی اچھی،مثبت اور تعمیری روایات جڑ پکڑ لیتی ہیں ، وہاں معاملات با لعموم خوش اسلوبی سے چلتے رہتے ہیں۔ برطانیہ کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ جہاں کوئی تحریری آئین موجود نہیں لیکن نظام حکومت روایات کے بل بوتے پر خوش اسلوبی سے چل رہا ہے۔ اس بات کا یقینا خیر مقدم کیا جائے گاکہ آخر کاروطن عزیز میںبھی کچھ اچھی روایات قائم ہونا شروع ہو گئی ہیں۔ انتخابات2013 میں کامیابی کے بعد موجودہ حکومت نے اقتدار سنبھالا تو ایک نئی روایت کا آغاز کیا ۔ صدر آصف علی زرداری رخصت ہوئے تو تمام تر سیاسی اختلافات کے باوجود، وزیر اعظم نواز شریف نے انکے اعزاز میںعشائیہ دیا اور نہایت اچھے الفاظ میں انہیں الوداع کہا۔ ابھی چند روز قبل مسلح افواج کے دو اعلیٰ ترین افسران یعنی چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی جنرل راشد محمود اور چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف کو وزیر اعظم ہائوس میں الوداعی دعوتیں دی گئیں اور انکی خدمات کو سراہاگیا۔دیگر ممالک میںفوجی کمان کی تبدیلی ایک معمول کا معاملہ ہوا کرتا ہے ۔ تاہم پاکستان کی سیاسی تاریخ کے تناظر میں ہمارے ہاں یہ معاملہ غیر معمولی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ کئی ماہ سے متوقع تبدیلی سیاسی اور خاص طور پر صحافتی حلقوں میں زیر بحث تھی۔ اس حوالے سے کچھ خدشات کا اظہار بھی کیا جاتا تھا۔ تاہم نہایت خوش اسلوبی سے فوجی کمان کی تبدیلی نے اس تاثر کو تقویت دی ہے کہ ہمارے ہاں جمہوری روایات مستحکم ہو رہی ہیں۔
نئے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی تعیناتی کا پوری قوم نے خیر مقدم کیا ہے۔ ایسا پہلی بار ہوا کہ وزیر اعظم کو بھیجی جانیوالی فہرست میں چار جرنیل ایسے تھے جنکی فوجی ملازمت کا آغاز ایک ہی دن ہوا۔ چاروں پی ایم اے 62 لانگ کورس سے تعلق رکھتے تھے۔ گویا مدت ملازمت کے اعتبار سے ان چاروں میں نہ کوئی سینئر تھا نہ کوئی جونیئر۔ وزیر اعظم کو یہ آئینی اختیار حاصل ہے کہ وہ اپنی صوابدید کو بروئے کار لاتے ہوئے کسی بھی جرنیل کو چیف آف آرمی ا سٹاف بنا سکتے تھے۔ انہوں نے جنرل قمر جاوید باجوہ کو منتخب کیا۔ جنرل باجوہ کو ترجیح دینے کی یقینا کئی وجوہات وزیر اعظم کے ذہن میں ہوں گی۔ جن میں سے ایک وجہ لائن آف کنٹرول پر کشیدگی کی فضا بھی ہو سکتی ہے۔ جنرل باجوہ اس پہلو سے سب سے زیادہ تجربہ کار جرنیل خیال کئےجاتے ہیں۔ کیونکہ انہوں نے نہ صرف شمالی علاقوں میں فورسز کی کمانڈ کی بلکہ فوج کی سب سے بڑی کور 10 کور کے کمانڈر بھی رہے۔ جسکی ذمہ داریوں میں پوری لائن آف کنٹرول کا دفاع شامل ہوتا ہے۔ جرنیل صاحب کے بارے میں اب تک جوکچھ لکھا گیا ہے اس سے یہ تاثر ابھرتاہے کہ وہ فوج کو صرف انہی ذمہ داریوں تک محدود رکھنا چاہتے ہیں جو اس کے آئینی و قانونی فرائض میں شامل ہیں۔ وہ جمہوریت کی بالا دستی پر یقین رکھتے ہیں اور سول اتھارٹی کو مضبوط دیکھنا چاہتے ہیں۔امید کی جاتی ہے کہ آگے چل کر یہ تاثر مزید پختہ ہو گا ۔ تاکہ سول ملٹری تعلقات سے متعلق بے جا قیاس آرائیوں، جائزوں اور تبصروں کے بجائے، سیاسی اور صحافتی سطح پر پاکستان کو درپیش اصل مسائل پر توجہ مرکوز کی جا سکے۔
پاکستان کو بہت سے دوسرے ممالک کی طرح یہ مسئلہ بھی در پیش ہے کہ غربت ،پسماندگی اور بیروزگاری جیسے مسائل پر کس طرح قابو پایا جائے۔ اس حوالے سے چین پاکستان اقتصادی راہداری کا منصوبہ لا محدود امکانات رکھتا ہے ۔ اس منصوبے کی تکمیل سے یقینا اقتصادی ترقی اور ملکی خوشحالی کی راہیں کھلیں گی۔ لیکن ہمیں اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ مختلف شعبوں میں بھاری بیرونی سرمایہ کاری میسر آئے تاکہ نئے منصوبے شروع ہوںاور نوجوانوں کو روزگار ملے۔ یہ سب کچھ صرف اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب پاکستان میں سیاسی استحکام ہو ۔ امن و امان کی حالت اچھی ہو ، دہشت گردی ختم ہو چکی ہو۔ اور تمام ملکی ادارے باہمی تعاون کیساتھ ایک مشن کیلئے سرگرم ہو جائیں۔ یہ ہے وہ مرحلہ جہاں ہمیں میڈیا کا کردار بہت ہی اہم محسوس ہوتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ گزشتہ تین سال کے دوران حکومت کی مخالفت میں میڈیا کے ایک حلقے نے ایجنڈے کے طور پر فوج اور سول اتھارٹیز کے درمیان خلیج پیدا کرنے کی کوشش کی۔ اللہ کا شکر ہے کہ یہ کوشش کامیاب نہیں ہوئی۔ لیکن اتنا تو ہوا کہ کبھی بے یقینی کی فضا اور کبھی افواہوں کی وجہ سے تعمیر و ترقی کے عمل میں رخنے پڑتے رہے۔ بجائے اسکے کہ حکومت اپنی ساری توجہ مسائل پر مرکوز کرتی، اپنے بچائو کے لئے ہاتھ پائوں مارتی رہی۔ اللہ کرے کہ یہ سلسلہ اب ختم ہو جائےاور حکومت ہو یااسٹیبلشمنٹ اس نکتے کو سمجھ لیں کہ ہمیں ایک دوسرے کے تحفظات کو سامنے رکھتے ہوئے، آگے بڑھنا ہے۔ دفاع فوج کی ذمہ داری ہے۔ لیکن بہت سے دوسرے عوامل بھی قومی دفاع میں کردار ادا کرتے ہیں۔ جن میں اقتصادی ترقی اور سیاسی استحکام کا کردار نہایت نمایاں ہے۔ فوج کو اگر جدید ہتھیاروں کی ضرورت ہے، اسے تربیت کے تقاضے پورے کرنے کے لئے وسائل چاہئیں تو یہ سب چیزیں اسی وقت ممکن ہیں جب حکومت کے خزانے میں وافر رقم موجود ہو۔مطلوبہ رقم اور وسائل کی فراہمی یقینا ملک کی اقتصادی ترقی کی رفتار اور عمومی صورتحال سے تعلق رکھتی ہے۔ اگر میڈیا کا ایک حلقہ محض اپنے ایجنڈے کے لئے فوج اور حکومت میں تفریق پیدا کرنے یا ایک کو دوسرے کے خلاف اکسانے کی کوشش کرتا ہے تو دراصل وہ قومی سلامتی اور ملکی دفاع کو دائو پر لگاتا ہے۔ بد قسمتی سے گزشتہ تین سالوں میں کچھ صحافتی حلقوں کی جانب سے یہ سب کچھ تسلسل کیساتھ کیا جاتا رہا۔لیکن اب میڈیا کا یہ طرز عمل تبدیل ہو جانا چاہئے۔ اس حوالے سے جہاں میڈیا ریگولیٹری اداروں کو میڈیا کے اس منفی کردار کے حوالے سے اقدامات کرنے ہوں گے وہاں بجا طور پر توقع کی جاتی ہے کہ آرمی چیف بھی اس طرح کی سرگر میوں کی حوصلہ شکنی کر کے اپنا کر دار ادا کریں گے۔

.
تازہ ترین