• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وزیراعظم نواز شریف نے لبرل ازم کی ضرورت پر زور دیا ہی تھا کہ جیسے آسمان پھٹ پڑا ہو۔ اور کود پڑے میدانِ کارزار میں ہر طرح کے ناقدین۔ لبرل ازم (آزادیٔ خیال) کے حوالے سے جاری بحث سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کم علمی کی نعمتوں سے فیض پانے والوں کی کمی نہیں۔ لبرل ازم کی بحث میں افتاد یہ آن پڑتی ہے کہ ہمارے ترقیٔ اُردو والے پیرانِ کرامت کے سیکولرازم کا ترجمہ ’’لادینیت‘‘ کرنے سے نظری بدگمانی پیدا ہوئی۔ بعینہٖ لبرل ازم کے ’’آزاد خیالی‘‘ کے ترجمے سے آوارگی کا ایسا تاثر پیدا ہوا کہ اس کے ماننے والوں کو تاحیات گناہِ بے لذت کی سزا بھگتنی پڑی۔ معاشرتی تعصبات اور ضعیف الاعتقادی کے ماحول میں آزادیٔ خیال والوں کو عام طور پر ، اخلاق باختہ اور ’’مادر پدر آزاد‘‘ کے مترادف قرار دے کر اذیت پسندانہ تشفی حاصل کر لی جاتی ہے۔ (حالانکہ یہ ثقافتی و اخلاقی اظہار ہیں) اس پیروڈی میں وہ معزز خواتین و حضرات بھی شامل ہونے سے باز نہیں رہتے جو عام طور پر نقشِ کہن کو مٹانے اور آزادیٔ جمہور کے راگ الاپتے نہیں تھکتے۔ لبرل ازم کی ہجو لکھنے میں وہ اہلِ دانش و سیاست و صحافت بھی شاملِ باجہ ہو جاتے ہیں جو صبح و شام حقِ رائے دہی، حقِ خود ارادیت، حقِ سوچ بچار و اظہار، جمہوریت اور جمہوری اداروں کی حمایت کرتے ہیں اور آمریت و فسطائیت، دہشت گردی اور فرقہ وارانہ مذہبی نفرت انگیزی کی مخالفت کرتے نہیں تھکتے۔ (ان حضرات کو خبر ہو کہ ان کی ان منشائوں کا نام ہی لبرل ازم ہے۔) اور جن کا نجی ملکیت اور آزاد منڈی پہ یقین ہے وہ بھی معاشی لبرل ازم پہ آنچ نہ آنے دینے کے باوجود لبرل ازم کی اصطلاح سنتے ہی توبہ توبہ کرتے ہیں۔ رہے ہمارے سوشل لبرل ازم یا پھر ملی جلی معیشت کی حامل رفاہی ریاست کے داعی وہ بھی معذرت خواہی پر ہی گزارہ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ فسطائیت پسندوں، مذہبی و فرقہ وارانہ انتہاپسندوں، دہشت گردوں اور ہر نوع کی مذہبی و نسلیاتی جنونیت والوں کا تو لبرل ازم سے ازلی بیر سمجھ میں آتا ہے۔ اس سے پہلے کہ ہم وزیراعظم کے پاکستان کے مستقبل کے ناطے لبرل ازم کی ضرورت و افادیت کے بیان پر ہونے والی جوابی یلغار اور مختلف جماعتوں کے اس حوالے سے نظری مواقف پر نظر دوڑائیں، بہتر ہوگا کہ ذرا بدنامِ زمانہ لبرل ازم کے سیاسی و فکری اجماع کو جاننے کی گستاخی کرلی جائے۔ لفظ لبرل لاطینی لفظ لبر سے ماخذ ہے اور آزادی و مساوات اس کا مطمعٔ نظر! اگر سیکولر ازم انتہائی اخلاقی ہے اور بلاتفریق ہر مذہب کے احترام کا قائل ہوتے ہوئے، فقط ریاست کی مذہب سے علیحدگی کا داعی! تو لبرل ازم فقط فکر و خیال و اظہار بشمول مذہب کی آزادی اور جمہور کی حاکمیت کا حامی! فکری و سیاسی اور تاریخی اعتبار سے یہ شہری و انسانی حقوق و آزادیوں اور انسانی مساوات کا مبلغ:جس میں حقِ رائے دہی، حقِ خودارادیت، آزادیٔ فکر واظہار، آزادیٔ صحافت، سیاسی و نظری رواداری، کثرت پسندی، خواتین اور اقلیتوں کے لئے مساوی حقوق، عدلیہ، انتظامیہ اور مقننہ میں ریاست کے اختیارات کی تقسیم، منتخب اداروں اور آئین و قانون کی حکمرانی شامل ہے۔ لبرل ازم اگر لگا نہیں کھاتا تو وہ ہے ہر طرح کا تعصب، کٹرپن، فرسودہ رسومات (جیسے غیرت کے نام پر عورتوں کا قتل)، عقل و خرد دشمنی، دہشت و وحشت، ملوکیت، بادشاہت، آمریت، فسطائیت، جاگیردارانہ مراعات اور کلیسائیت یا ملائیت۔ معاشی میدان میں کلاسیکل لبرل ازم یا نیولبرل ازم نجی ملکیت اور آزاد منڈی پر کسی قدغن کے خلاف ہے، جبکہ سوشل لبرل ازم ملی جلی معیشت اور فلاحی ریاست کا قائل۔ مغرب کی سوشل جمہوریت یا پھر یوروکمیونزم یا جمہوری سوشلزم بھی اسی کا ایک رجحان ہے۔
روشن خیالی کے زمانے میں لبرل ازم کی ٹکر، مطلق العنان بادشاہتوں اور ان کے نظریات جیسے ’’ظلِ سبحانی‘‘ کا ’’حقِ ربانی‘‘ یا پھر خلیفہ ’’زمین پہ خدا کا سایہ‘‘، جاگیردارانہ وراثتی مراعات، ضعیف الاعتقادی، توہم پرستی ، پاپائیت یا کٹر ملائیت سے ہوئی۔ اور اس نے شاہی و کلیسائی (ملائی) تیرہ دستیوں کو شکست دے کر عوامی حاکمیت، منتخب اداروں اور قانون کی بالادستی، جمہوری قدروں کو فروغ دیا اور ہر نقشِ کہن کو مٹا کر آزادیٔ جمہور کا پرچم بلند کیا۔ نتیجتاً برطانیہ کے 1688ء کے کامیاب انقلاب (Glorious Revolution)، امریکی انقلاب 1787)) اور فرانسیسی انقلاب 1789) بپا ہوئے۔ انسانی حقوق کے اعلان نامے نے بادشاہت کی جگہ پارلیمنٹ اور قانون کی بالادستی قائم کی۔ امریکہ میں انسانی حقوق کے قانون نے انسانی و شہری حقوق اور آزادیوں کی ضمانت دی۔ اور فرانس کے انسانوں اور شہریوں کے اعلان نامے نے جاگیرداری، دورِ بربریت اور مقدس سلطنتِ رومہ کا خاتمہ بالخیر کیا۔ اس پر اظہارِ تاسف کیا جائے یا پھر عقل و شعور اور حریتِ خیال کی جیت کے شادیانے بجائے جائیں؟؟
لبرل ازم سیاسی و سماجی اعتبار سے طرح طرح کے انگ لئے ہوئے ہے کہ یہ کوئی جامد نظریہ تو ہے نہیں۔ اس کے دائرے میں سبھی جمہوریت پسند اور روادار لوگ آتے ہیں خواہ وہ دائیں یابائیں بازو کے ہوں۔ اور وہ سیاسی جماعتیں اور فکری حلقے بھی جو وسطی دائیں یا وسطی بائیں بازو (Center-Left or Center-Right) کی جماعتوں سے وابستہ ہیں۔ البتہ مذہبی بنیاد پرست، فرقہ پرست، فسطائی، آمریت نواز اور حقوق و آزادیوں کے مخالف اس کے دائرے سے باہر ہیں۔اب آتے ہیں واپس وزیراعظم کے لبرل بیان پر۔ ہمارے دوست مولانا فضل الرحمان لاڑکانہ میں جمعیت کے شوکتِ اسلام کے جلسے میں وزیراعظم کے بیان کے ناطے لبرل ازم پہ خوب برسے یہ بھولتے ہوئے کہ اُن کے اور میرے مرشد عبید اللہ سندھی نے ہندوستان کیلئے جو آئین مرتب کیا وہ نہ صرف اپنی نوعیت کا اشتراکی بلکہ لادینیت (Secularism) کا مرقع تھا۔ ان سے البتہ چُوک یہ ہو گئی کہ وہ میاں نواز شریف کے لبرل ازم کو نہ سمجھ پائے۔
میاں صاحب کی اس سے مراد وہ کلاسیکی لبرل معاشی نظریہ ہے جو آزاد منڈی کا داعی ہے، یا پھر منتخب اداروں اور آئین کی بالادستی سے متعلق ہے۔ اگر ،ولانا صاحب کا تعلق مذہبی سیاسی دائیں بازو سے ہے اور جو جمہوریت و اسلام کا اختلاط اس شرط پہ چاہتے ہیں جس میں بعض کلیدی آزادیوں اور حقوق کو بالائے طاق رکھا جا سکے۔ جبکہ میاں نواز شریف ایک ایسے وسطی دائیں بازو کے لبرل ہیں جو ریاست سے مذہبی علیحدگی کیخلاف ہیں اور جو بہت سی آزادیوں پر چپ سادھے ہیں۔ یہ فقط حسنِ اتفاق نہیں کہ بعض مذہبی سیاسی جماعتیں (جو فرقہ پرستی میں بھی ملوث ہیں) پارلیمانی و آئینی راہ لینے کے باوجود اجتماعی طور پر بہت سے شہری و انسانی حقوق کے خلاف ہیں، خاص طور پر خواتین اور اقلیتوں کے حقوق بارے میں اُن کی سوچ جمہوری اقدار سے لگا نہیں کھاتی۔ اُن کے برعکس عیسائی جمہوریت پسند اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کے عالمی اعلان نامے کے حامی ہیں اور مسیحی قدروں اور اخلاقیات سے بھی لگائو رکھتے ہیں۔ اگر ہمارے جمہوریت پسند بھی ایسا ہی کر لیں تو وہ بھی جمہوریت کے پیمانوں پر پورا اُتر سکتے ہیں۔ لیکن بعض مذہبی سیاسی جماعتوں کے زعما ابھی تک وطنی قومی ریاست اور نظریاتی اُمہ کے فرق کو نہ سمجھ پانے کی الجھن کا شکار ہیں۔ اور تدبیری طور پر پارلیمانی و آئینی راستہ اختیار کر کے(Theocratic State) کے قیام کے خواہاں ہیں۔
دوسری جانب ہماری نام نہاد آزاد خیال اور سوشل لبرل اور نسلیاتی قوم پرست جماعتیں ہیںیہ جماعتیں لبرل ازم کے دو بنیادی اصولوں، آزادی اور مساوات کی حامی ضرور ہیں۔ لیکن ان کے ہاں مستقل مزاجی کی کمی ہے۔ پیپلز پارٹی، قطعی واضح نہیں کہ یہ کس طرح کی سوشل لبرل یا سوشل ڈیموکریسی چاہتی ہے اور اس کی قیادت پر ہنوز جاگیرداری مراعات کی وراثتوں والوں کا قبضہ ہے۔ یہ تھیچرازم یا نیولبرل ازم اور عوامیت پسند فلاحی پروگرام کے درمیان لڑھکتی رہتی ہے او ر جنگجوئیت پسندی اور اقلیت کُشی پر نازاں ہے۔ جبکہ تاثر یہ ہے کہ ANP، NP اور PKMAP نسلیاتی تعصبات کا شکار ہیں، جاگیردارانہ وراثتی مراعات کو سینے سے لگائے ہیں اور اُن کے منشور ریاست کی مذہب سے علیحدگی کے قائل نہیں۔ رہی متحدہ قومی موومنٹ جو مہاجر نسلی بنیاد کے باعث سیکولر ہونے کی آزادی لے سکتی ہے، لبرل آزادیوں، رواداری، آزادیٔ صحافت اور مخالفین یا اختلاف رکھنے والوں کے حقِ اظہار کو برداشت نہیں کرتی ۔ جاگیردارانہ نظام اور اُس کے طور طریقوں کے تو یہ خلاف ہے لیکن کہا جاتا ہے کہ خود یہ بدترین جبری ہتھکنڈوں اور مافیائی طور طریقوں کے باعث ایک لبرل پارٹی کہلانے کی حقدار نہیں۔ مذہبی دہشت گردی کے خلاف سب لبرل جماعتیں ڈٹ کر کھڑی ہوئیں لیکن ایم کیو ایم خود ایک نسلیاتی شدت پسند جماعت ہے۔سب سے بڑا معمہ تحریکِ انصاف کا ہے، بالکل اپنے کرشماتی لیڈر عمران خان کی مرنجا مرنج شخصیت کی طرح۔ عمران خان قبائلی بدرشاہی روایت پسندی کے ساتھ ساتھ عوامیت پسند فلاحی اور اصلاحاتی نظریوں کا ملغوبہ لگتے ہیں۔ جو مغرب کی اچھی حکومت کی ستائش کے ساتھ ساتھ طالبان کی امارت کے بھی دلدادہ ہیں۔ وہ بات تو تبدیلی کی کرتے ہیں، یہ وضاحت کئے بغیر کہ وہ رجعت پسند ہوگی یا ترقی پسند۔ تحریکِ انصاف کے فکری ملغوبے میں جو چیز نمایاں ہے وہ ہے کسی واضح فکر کا فقدان اور ایک عامیانہ قسم کی مغرب دشمنی جو عصبیتوں سے اٹی ہوئی ہے۔ خان صاحب کو تبدیلی بہت بھاتی ہے خواہ وہ غیرجمہوری و غیرآئینی ہی کیوں نہ ہو! ہمیں ماضی میں جو پے در پے آزاد خیال یا قدامت پسند آمریتیں بھی ملیں تو وہ نہ صرف استبدادی، غیرجمہوری، آمرانہ اور عوام کے حقِ رائے دہی کی مخالف، عدلیہ و مقننہ کی تذلیل اور شخصی آمریت سے عبارت تھیں، اُن کے سائے تلے تمام سول ادارے اپنا استحقاق اور صلاحیت کھو بیٹھے۔ جو سیاسی نرسریاں اُنہوں نے بنائیں بھی وہ اپنے جمہوری وصف میں گہنائی ہوئی ہی رہیں اور جمہوری تحریکوں سے اُبھرے سیاسی کارکنوں اور روایتوں کو پامال کرنے کا باعث بنیں۔آخری نتیجہ میں لبرل ازم (دائیں یا بائیں بازو کا) اور اس کی جمہوری و سیاسی، شہری و انسانی حقوق و آزادیاں اور جمہوریت لازم و ملزوم ہیں۔ ’’اکثریت کی آمریت‘‘ اور ایک منتخب حکومت کی آمرانہ روش کو روکنے کے لئے بھی لبرل ازم لازمی ہے کہ وہ اقلیت کی رائے اور اختلافِ رائے کے احترام کا درس دیتا ہے اور کثرت کا قائل ہے۔ اختیارات کے ارتکاز کو روکنے کے لئے یہ ریاست کے اداروں میں اختیارات کی تقسیم اور تحدید و توازن کا قائل ہے۔ اسی طرح اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی اور حکمرانی میں شفافیت، اور آزاد میڈیا لبرل ازم ہی کا مرہونِ منت ہے۔ فقط جمہوریت کافی نہیں اس کا لبرل ہونا بھی اُتنا ہی ضروری ہے۔ بقول فیض:
جن کا دیں پیرویٔ کذب و ریا ہے اُن کو
ہمتِ کفر ملے، جرأتِ تحقیق ملے
تازہ ترین