پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے چیئرمین اور سینئر سیاست دان محمود خان اچکزئی نے اگلے روز کوئٹہ میں ایک جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے ہمارے خطے میں عالمی طاقتوں کی طرف سے ایک نئی جنگ شروع کرنے کی جو بات کی ہے ، اس پر پاکستان کے تمام ریاستی اداروں اور سیاسی قوتوں کو سنجیدگی سے غور کرنا چاہئے اور حالات کا تجزیہ کرکے وسیع تر مشاورت کے ساتھ قومی حکمت عملی وضع کرنی چاہئے ۔ محمود خان اچکزئی نے کہا ہے کہ ایک بار پھر دنیا ہمارے خطے میں نئی جنگ چھیڑنے کی کوشش کر رہی ہے ۔ ہمارا خطہ اب مزید کسی جنگ کا متحمل نہیں ہو سکتا کیونکہ گزشتہ 35سالوں سے جاری جنگ میں لاکھوں افراد شہید اور لاکھوں بے گھر ہو گئے ہیں ۔اس جنگ کو روکنے کیلئے سیاسی جماعتوں کو اپنا بھرپور کردار ادا کرنا چاہئے ۔
محمود خان اچکزئی انتہائی سینئر اور تجربہ کار سیاست دان ہیں اور ان کی ملکی اور بین الاقوامی حالات پر بہت گہری نظر ہے ۔ ان کا تعلق سیاست دانوں کے اس گروہ سے ہے ، جنہیں سیاست ورثے میں ملی ہے اور جن کی سیاسی اور نظریاتی تربیت ہوئی ہے ۔ اس قبیل کے سیاست دان اب پاکستان میں بہت کم رہ گئے ہیں ، جو بدلتے ہوئے علاقائی اور عالمی حالات کا صحیح تجزیہ کر سکتے ہوں اور آنے والے حالات کے بارے میں درست پیش بینی کی صلاحیت بھی رکھتے ہوں ۔ ذوالفقار علی بھٹو کے کوٹ لکھپت جیل میں آخری ایام اسیری کا ایک واقعہ اکثر یاد آتا ہے ۔ جیل میں بھٹو صاحب کو اخبارات اور رسائل کی فراہمی بند کر دی گئی تھی اور انہیں جو ریڈیو سیٹ دیا گیا تھا ، وہ بھی ان سے واپس لے لیا گیا تھا ۔ جیل کا ایک اہلکار جب انہیں صبح کا ناشتہ دینے جاتا تھا تو وہ اس سے سب سے پہلا سوال یہ کرتے تھے کہ کیا روس کی فوجیں افغانستان میں داخل ہو گئی ہیں ؟ جیل کا وہ اہلکار پریشان ہو جاتا تھا اور دوسرے دن صبح ناشتہ لے جانے سے پہلے وہ خود اخبار پڑھ لیتا تھا یا کسی سے پوچھ لیتا تھا کہ کیا روس نے افغانستان میں فوجیں اتار دی ہیں ؟ اس کے بعد وہ جا کر بھٹو صاحب کو بتاتا تھا کہ نہیں ، ایسا کچھ نہیں ہوا ۔ ذوالفقار علی بھٹو اس پر حیرت زدہ ہوتے تھے ۔ تقریباً دو ہفتے تک یہ سلسلہ جاری رہا ۔ دو ہفتے کے بعد جیل اہلکار نے بھٹو صاحب کو آ کر بتایا کہ روس نے افغانستان پر حملہ کر دیا ہے ۔ پوری دنیا سے الگ تھلگ ہو کر بھٹو صاحب جیل میں بیٹھے ہوئے ملکی ، علاقائی اور بین الاقوامی صورت حال کو جس طرح دیکھ رہے تھے ، اس سے اس وقت کے بڑے بڑے پاکستانی سیاست دان بے خبر تھے ۔ ذوالفقار علی بھٹو کو معلوم تھا کہ ہمارے خطے میں کیا ہونے والا ہے ۔ امریکہ اس کی پیش بندی کیلئے پاکستان میں ضیاء الحق کو کیوں لایا ہے اور امریکہ اور اس کے پاکستانی حواری خود بھٹو صاحب کے ساتھ کیا سلوک کرنے والے ہیں۔ محمود خان اچکزئی کا شمار بھی سیاست دانوں کے اس قبیلے سے کیا جا سکتا ہے ، جس قبیلے سے ذوالفقار علی بھٹو کا تعلق ہے ۔
جس نئی جنگ کی نشاندہی محمود خان اچکزئی کر رہے ہیں ، اس جنگ کے امکانات واضح ہو رہے ہیں ۔ محمود خان اچکزئی نے درست کہا ہے کہ ہمارے خطے میں 35سال سے جنگ جاری ہے ۔ یہ جنگ 1979ء میں اس وقت شروع ہوئی تھی ، جب سابق سوویت یونین نے افغانستان میں اپنی فوجیں اتار کر وہاں بائیں بازو کی خلق اور پرچم پارٹی کی مشترکہ حکومت قائم کی تھی۔ امریکہ اور اسکے اتحادیوںنے پاکستان کو استعمال کرتے ہوئے سوویت یونین کے خلاف مذہبی انتہا پسند جنگجو گروہوں کو اتارا ۔ تب سے یہ خطہ خون میں نہا رہا ہے ۔ افغانستان سے سوویت یونین کے انخلاء کے بعد امریکہ اور اسکے ساتھیوںنے دنیا پر قبضے کیلئے دہشت گردی کے خلاف ایک نئی جنگ کا آغاز کیا ۔ یہ جنگ بھی افغانستان اور پاکستان میں لڑی گئی اور اب تک یہ جنگ جاری ہے ۔ 35 سال سے یہ جنگ ختم ہی نہیں ہوئی ہے ۔ افغانستان کے زیادہ تر علاقے اور پاکستان کے شمال مغربی علاقوں میں اس جنگ نے یہاں کے لوگوں کی تہذیبی ، ثقافتی اور تاریخی خصوصیات کے ساتھ ساتھ اپنی اعلیٰ اقدار کو جلا کر بھسم کر دیا ہے ۔ لاکھوں لاشیں ، اجڑے دیار ، یتیم بچے ، بیوہ خواتین ، سوگ میں ڈوبی فضائیں ، بے گھر ہونے کے دکھ اور نہ جانے کیا کیا المیے اس جنگ کی کوکھ سے جنم لے رہے ہیں ۔ یوں محسوس ہو رہا ہے کہ ہمارے خطے کی اسٹریٹیجک اہمیت عالمی طاقتوں کوطاقت آزمائی کیلئے ایک بار پھر جنگ سے تباہ حال جنوبی ایشیا کے میدان کارزار میں اکھٹا کر رہی ہے ۔ پاک چین اقتصادی راہداری کا منصوبہ ایسا ہے ، جو طاقت کا توازن بگاڑ سکتا ہے ۔ روس ، چین اور ایران علاقائی اور عالمی سطح پر نئی صف بندیاں کر رہے ہیں اور دنیا کو اس صورت حال سے نکالنے کیلئے تقریباً دو عشروں کے بعد اگلے محاذوں پر آکر سیاست اور سفارت کاری کر رہے ہیں ۔ یہ بات امریکہ اور اس کے اتحادیوںکیلئے یقیناً قابل برداشت نہیں ہو گی۔ حالات اس نہج تک پہنچ گئے ہیں کہ امریکہ کو چیلنج کیا جا رہا ہے اور کوئی بھی تصادم جنگ کی صورت اختیار کر سکتا ہے ۔ فرانس میں دہشت گردی کے واقعہ کے بعد فرانس کیساتھ ساتھ برطانیہ اور جرمنی بھی داعش کے خلاف روس اور دیگر ملکوں کے فوجی اتحاد میں شامل ہو رہے ہیں ۔ حالیہ امریکہ میں دہشتگردی اور اس میں شامل ہشتگردوں کے links کے آنے کے بعد امریکی اسٹیبلشمنٹ اس صورت حال کو زیادہ دیر تک اسی طرح نہیں چلنے دے گی ۔ مشرق وسطیٰ میں ہونے والا کوئی بھی تصادم براہ راست ہمارے خطے کو بھی متاثر کر سکتا ہے کیونکہ امریکہ یہ چاہے گا کہ جنگ کا میدان مشرق وسطیٰ سے جنوبی ایشیا میں منتقل ہو جائے اور داعش کے خلاف وہاں بنتا ہوا فوجی اتحاد بے جواز ہو جائے ، جو منطقی طور پر امریکہ کو تنہائی کی طرف دھکیل رہا ہے ۔دوسرا سبب یہ ہے کہ جنوبی ایشیا میں امریکہ کے خفیہ ملٹری آپریشنز کا نیٹ ورک بہت مضبوط ہے ۔ افغانستان اور پاکستان داخلی عدم استحکام کا شکار ہیں ۔ داعش اور دیگر انتہا پسند گروہ بھی اپنی حکمت عملی کے طور پر مشرق وسطیٰ میں اپنی سرگرمیاں کم کرکے یہاں زیادہ سرگرم ہو سکتے ہیں ۔ روس بھی اپنے نئے اتحادیوں کے ساتھ اس علاقے میں اپنی صف بندی کر رہا ہے ۔ حالات جس تیزی سے تبدیل ہو رہے ہیں ، اس میں کوئی بھی چنگاری آگ بھڑکا سکتی ہے ۔ بدقسمتی سے ہمارے اکثر سیاست دان علاقائی اور بین الاقوامی صورت حال سے بے خبر ہیں ۔ جس طرح ذوالفقار علی بھٹو کو معلوم تھا کہ عالمی سیاست کے تناظر میں پاکستان میں غیر جمہوری حکومت لائی گئی ہے ، اسی طرح باقی کوئی سیاست دان قبل از وقت اندازہ نہیں کر سکا ۔ نائن الیون رونما ہونے سے پہلے ہی پاکستان میں ایسی تیاریاں شروع ہو چکی تھیں ، جو نائن الیون کے بعد کے حالات کیلئے ضروری تھیں لیکن اس وقت کے وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف حالات کا ادراک نہ کر سکے اور اب بھی شاید ایسا ہی ہے کہ ہمارے علاقے میں عالمی طاقتوں کے مفادات کے ٹکراؤ میں کوئی غیر معمولی حالات پیداہونے والے ہیں لیکن ہمارے سیاست دان بے خبر ہیں ۔ ہو سکتا ہے کہ غیر سیاسی قوتیں اس قدر بے خبر نہ ہوں ۔ محمود خان اچکزئی کا یہ صائب مشورہ ہے کہ اس ممکنہ جنگ کو روکنے کیلئے تمام سیاسی جماعتوں کو اپنا کردار ادا کرنا چاہئے ۔ نہ صرف کہ یہ جنگ پاکستان کی حدود میں داخل نہ ہونے دی جائے بلکہ کوشش کی جائے کہ ہمارے خطے کو اس جنگ سے بچایا جائے ۔ اس کیلئے پاکستان میں ہمیں اپنے گھر کو ٹھیک کرنا ہو گا تاکہ عالمی طاقتیں صورت حال کا فائدہ نہ اٹھا سکیں ۔ چھوٹے چھوٹے اور مقامی ایشوز میں پھنسے رہنے کی بجائے قومی سیاسی قیادت کو اپنے تھنک ٹینکس کے ساتھ مل بیٹھ کر حالات کا درست تجزیہ کرنا چاہئے اور اس تجزیئے کی روشنی میں آئندہ کی حکمت عملی طے کرنی چاہئے ۔ ہمیں جنگوں کو روکنے کیلئے عالمی ضمیر اور دنیا کے اجتماعی شعور کو جگانا ہو گا ۔ بہت تباہی ہو چکی ۔ جنگ کی تباہ کاریاں صرف املاک اور انسانی جانوں کی صورت میں نہیں ہوتیں بلکہ وہ کچھ بھی تباہ ہو جاتا ہے ، جو انسان کبھی حاصل نہیں کر سکتا۔ بقول ساحر لدھیانوی
گزشتہ جنگ میں گھر ہی جلے مگر اس بار
عجب نہیں کہ یہ تنہائیاں بھی جل جائیں
گزشتہ جنگ میں پیکر جلے ، مگر اس بار
عجب نہیں کہ یہ پرچھائیاں بھی جل جائیں