• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
فرانس میں بادشاہت کی آخری علامت ملکہ میری انٹوئینیٹ جس نے آسٹریا کے شاہی خاندان میں آنکھ کھولی،نازو و نعم میں پلی بڑھی اور صرف 19سال کی عمر میں فرانس کے سولہویں لوئی بادشاہ کیساتھ شادی کے باعث ملکہ بننے کا اعزاز پا لیا۔ نیلی سرمئی آنکھوں اور چمکتے سنہری بالوں والی انتہائی خوبصورت اس ملکہ سے منسوب ایک واقعہ اور جملہ تاریخ کا حصہ بن گیا۔ جب دوران خانہ جنگی فرانس میں شاہی محل کے باہر قحط کے شکار عوام نے احتجاج کیا تو ملکہ میری نے بہت بھولپن سے استفسار کیا کہ ان لوگوں کو روٹی میسر نہیں تو یہ کیک کیوں نہیں کھا لیتے۔ تاریخ میں ایسے شواہد تو دستیاب نہیں کہ یہ جملہ واقعی ملکہ میری نے ادا کیا تھا لیکن ملکہ سے منسوب کئے گئے اس جملے نے فرانس میں ہونیو الی خانہ جنگی کو مہمیز ضرور عطا کر دی جس نے بالآخر انقلاب فرانس کی بنیاد رکھی اور اگست 1792 میں فرانس میں بادشاہت ہمیشہ کے لئے تاریخ کا حصہ بن گئی۔ اسی ملکہ میری کے بارے میں امریکہ کے اعلان آزادی کو قلمبند کرنے اور تیسرے صدر بننے و الے تھامس جیفرسن نے کہا تھا کہ ان کو یہ یقین ہے کہ اگر یہ ملکہ نہ ہوتی تو کوئی انقلاب بھی نہ آتا۔ آج دو صدیوں سے زائد عرصہ گزر جانے کے باوجود جب ہمارے وفاقی وزیر خزانہ عالمی مالیاتی فنڈ کی شرائط پورا کرنے اورصرف 50 کروڑ ڈالر کی قسط لینے کے لئے 40 ارب روپے کے اضافی ٹیکس عائد کرتے ہوئے یہ جملہ ادا کرتے ہیں کہ اس سے عام آدمی متاثر نہیں ہو گا تو روٹی،کیک اور ملکہ میری سب یاد آجاتا ہے۔ اقتدار میں آنے سے قبل ایس آر او کلچر کا خاتمہ کرنے کے دعوے کرنے والی وفاقی حکومت نے ریگولیٹری ڈیوٹی اور فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کی وصولی کے لئے بیک جنبش قلم چار ایس آر اوز جاری کئے جس سے کھانے پینے سے لے کراوڑھنے اور پہننے تک کی ساڑھے تین سو سے زائد اشیاء مہنگی کردی گئیں۔ حسب معمول عالمی مالیاتی اداروں کے دبائو پر عوام کی زندگی اجیرن بنانے کی حقیقت کی نفی کرتے ہوئے اس بار دہشت گردی کے خلاف آپریشن کے نتیجے میں بے گھر ہونیو الے افراد کے کندھے پر رکھ کر بندوق چلائی گئی ہے۔ وفاقی حکومت کی طرف سے اضافی ٹیکسوں کے نفاذ کا جواز یہ فراہم کیا گیا کہ آپریشن ضرب عضب اور بے گھر افراد کی بحالی کے اخراجات پورے کرنے کے لئے ٹیکس لگانے پڑ رہے ہیں۔ میں اس بحث میں نہیں پڑنا چاہتا کہ ٹیکس ہی اگر بڑھانے ہیں تو براہ راست ٹیکسوں میں اضافے کی طرف کوئی توجہ کیوں نہیں دی جاتی اور عام آدمی کو ہی مزید نچوڑنے کے لئے ایک بار پھر بلواسطہ ٹیکسوں پر ہی کیوں انحصار کیا جا رہا ہے جو پہلے ہی مجموعی ٹیکسوں کے دو تہائی تک پہنچ چکے ہیں۔ میرا تو صرف اس جملے پر سر دھننے کو جی چاہ رہا ہے کہ 40 ارب روپے کے ان اضافی ٹیکسوں کا بوجھ عام آدمی پر نہیں پڑے گا۔ وزیرخزانہ صاحب نے یقینا بجا فرمایا بھلا عام آدمی کا کیا کام کہ وہ ٹوتھ پیسٹ کے استعمال کی عیاشی کرے، دانتوں کی صفائی کی سنت نبوی تو مسواک سے بھی ادا کی جا سکتی ہے۔ عام آدمی کی صحت کے لئے بہت اچھا ہے کہ صبح کھیتوں میں جائے ،سیر کرے اور ساتھ ہی کسی درخت کی ٹہنی کو توڑ کر مسواک کا بندوبست کر لے۔ ڈار صاحب بالکل حق بجانب ہیں کہ اللہ دتے کو کیا حق پہنچتا ہے کہ وہ شیمپو سے اپنے میلے کچیلے بالوں کو دھوئے،جنوبی پنجاب جیسے پسماندہ علاقوں کے لوگ جن کے لئے آج تک ریپر میں لپٹا صابن خوشبو والا صابن ہے ان کے لئے شیمپو تو لگژری آئٹم ہی ہے نا۔ ویسے بھی دیہاتوں میں تو شیمپو کا سب سے بہترین متبادل لسی کی شکل میں دستیاب ہے۔ عام آدمی لسی پینے کے ساتھ نہائے بھی اسی سے تاکہ بال نرم ملائم بھی رہیں اور شیمپو کے مضر اثرات سے محفوظ بھی۔ وفاقی حکومت نے یہ بھی بجا سوچا ہے کہ بھلا عام آدمی اور اس کے بچوں کو دہی اور مکھن کھانے کی کیا ضرورت ہے، جسم اور روح کا رشتہ برقرار رکھنے کے لئے اس عام آدمی کو جتنی مشقت کرنا پڑتی ہے اس کے اعصاب اور اعضاء تو ویسے ہی بہت توانا ہو جاتے ہیں۔ دہی اور مکھن کھانا تو صرف ان کا حق ہے جو ڈائٹ کانشس ہیں ،عام آدمی کی کیا ڈائٹ اور کیا اس کا کانشس۔ تجربہ کار حکومت درست خطوط پر سوچ رہی ہے کہ بھلا عام آدمی اور اس کے بچوں کو منہ میٹھا کرنے کے لئے بسکٹ اور چوکلیٹ پر فضول میں پیسے خرچ کرنے کی کیا ضرورت ہے ،ان کے لئے تو دیہاتوں کا خالص گڈ دستیاب ہے جو مضر صحت بھی نہیں ہے۔ شہد پر اتنے پیسے ضائع کرنا بھی مناسب نہیں اس لئے منصوبہ سازوں کی یہ تجویز بھی صائب ہے کہ عام آدمی نے اگر طب نبوی پر عمل کرنے کے لئے شہد کا استعمال کرنا ہی ہے تو درختوں پر لگے شہد کی مکھیوں کے چھتے ڈھونڈے اور شہد نکالے،ہاں اس کاوش میں اگر کچھ مکھیوں نے چہرے کا حلیہ بگاڑ دیا تو بھی خیر ہے کیوں کہ بھوک اور غربت سے پچکے گال اگر سوجن سے پھول جائیں گے تو اچھا ہے ذرا کھاتے پیتے ہونے کا بھرم بن جائے گا۔ عام آدمی کو تو لیگی حکومت کا شکر گزار ہونا چاہئے کہ اس نے سگریٹ اتنے مہنگے کر دیئے ہیں کہ نہ وہ خریدنے کی سکت رکھے اور نہ اسے کینسر جیسی خطرناک بیماریوں کا سامنا کرنا پڑے۔ اسی طرح چائے میں بھی تو مضر صحت اجزاء پائے جاتے ہیں ،عام آدمی چائے پیئےگا تو صحت بھی متاثر ہو گی اور علاج معالجے پر بھی اخراجات آئیں گے۔اس لئے وفاقی حکومت کا چائے پر ڈیوٹی میں اضافہ کرنا مستحسن قدم ہے۔ ماہرین کی حکومت کا یہ فیصلہ بھی بالکل درست ہے کہ بھلا عام آدمی کو کیا مصیبت پڑی ہے کہ نوزائیدہ بچوں کے لئے ڈائپرز استعمال کر کے خاص بننے کی کوشش کرے ،جانگئے استعمال کرنے والے بھی تو اہم عہدوں پر پہنچتے رہے ہیں اور ہاں تولیہ تو ویسے بھی استعمال نہیں کرنا چاہئے،بچوں کی نازک جلد پر خراشیں آ جاتی ہیں،ویسے آپس کی بات ہے عام آدمی کے بچوں کی جلد اور نزاکت دو متضاد چیزیں ہیں۔ وزارت خزانہ کو تو عوام کے معاشی حالات کے ساتھ ان کی صحت کی بھی اتنی فکر ہے کہ درآمدی گارمنٹس پر ٹیکسوں میں اضافے سے غریب آدمی کی صحت کو بھی محفوظ بنانے کا پورا بندو بست کیا گیا ہے۔غریب آدمی درآمدی گارمنٹس کی مد میں نہ ’لنڈا‘ استعمال کرنے کی سکت رکھے گا اور نہ ہی وہ اترن پہننے سے پیدا ہونے والی بیماریوں کا شکار ہو گا۔ رہی بات الیکٹرانک مصنوعات کی تو ریفریجریٹر پر ہزاروں روپے لگانے سے بہتر ہے کہ عام آدمی اپنی وراثت اور اقدار سے پیار کرتے ہوئے مٹی کے گھڑے کا ٹھنڈا پانی پیئے اور اپنے بزرگوں کو یاد کرے۔ ایئر کنڈیشن کے استعمال سے بجلی کے ماہانہ بل میں اضافہ کرنا تو آ بیل مجھے ماروالی بات ہے اس لئے بہتر یہی ہے کہ عام آدمی کسی پیپل کی ٹھنڈی چھائوں تلے چارپائی بچھا کر بیٹھے اور اس وفاقی حکومت کو جھولی بھر کر دعائیں دے جس نے اربوں روپے کے ٹیکس عائد کر دیئے لیکن اسے متاثر نہیں ہونے دیا۔
تازہ ترین