• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹریز (FPCCI) کی اسٹینڈنگ کمیٹی برائے فارن انویسٹمنٹ نے گزشتہ دنوں فیڈریشن ہائوس کراچی میں ’’پاکستان میں غیر ملکی سرمایہ کاری‘‘ پر سیمینار کا انعقاد کیا جس میں ملک کے ممتاز سرمایہ کاروں، بزنس مینوں اور غیر ملکی سفارتکاروں نے شرکت کی۔ سیمینار میں مجھے بھی بحیثیت اسپیکر مدعو کیا گیا تھا جبکہ سیمینار میں ایف بی آر کے انکم ٹیکس کمشنر اور معروف محقق ڈاکٹر غلام مرتضیٰ کھوڑو نے غیر ملکی سرمایہ کاری پرنہایت دلچسپ اور معلوماتی پریذنٹیشن پیش کی جو آج قارئین سے شیئر کرنا چاہوں گا۔ڈاکٹر غلام مرتضیٰ کھوڑو نے بتایا کہ دنیا میں براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری میں 38 فیصد اضافہ ہوا ہے جو مجموعی1.76کھرب ڈالر تک پہنچ چکی ہے۔ غیر ملکی سرمایہ کاری میں اضافے کی وجہ بین الاقوامی کمپنیوں کا باہمی انضمام اور نئی انتظامیہ کا کنٹرول (M&As) حاصل کرنا ہے۔ غیر ملکی سرمایہ کاری زیادہ تر ترقی پذیر ممالک میں دیکھنے میں آئی ہے جس میں 2014ء سے اب تک 765ارب ڈالر (9 فیصد) کا اضافہ ہوا ہے۔ اس سرمایہ کاری میں صرف ایشیاء کے ترقی پذیر ممالک میں 16فیصد اضافے سے 541ارب ڈالر کی ریکارڈ سرمایہ کاری شامل ہے۔ تجزیے سے معلوم ہوتا ہے کہ بیرونی سرمایہ کاری میں 64 فیصد سرمایہ کاری سروس سیکٹر میں کی گئی ہے جبکہ مینوفیکچرنگ سیکٹر میں صرف 27 فیصد سرمایہ کاری دیکھنے میں آئی جن میں بھارت، ترکی اور چین سرفہرست ہیں۔ 2008ء سے 2015ء کے دوران دنیا کے 10 سرفہرست بیرونی سرمایہ کاری حاصل کرنے والے ممالک میں یورپی یونین 5148ارب ڈالر،امریکہ 3116ارب ڈالر، ہانگ کانگ 1838 ارب ڈالر، چین 1723ارب ڈالر، برطانیہ 1453 ارب ڈالر، جرمنی 1442 ارب ڈالر، سوئٹزرلینڈ 1136 ارب ڈالر، فرانس 1124 ارب ڈالر، کینیڈا 1012 ارب ڈالر اور سنگاپور 981 ارب ڈالر شامل ہیں جبکہ اسی دورانئے میں پاکستان نے مجموعی 31 ارب ڈالر کی غیر ملکی سرمایہ کاری حاصل کی۔
غیر ملکی سرمایہ کاری کا یہ رجحان گزشتہ چند دہائیوں سے تبدیل ہوا ہے اور اب امریکہ، یورپ کے مقابلے میں ایشیاء میں غیر ملکی سرمایہ کاری میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ ورلڈ انویسٹمنٹ رپورٹ 2016ء کے مطابق 2015ء میں ایشیاء کے بیرونی سرمایہ کاری حاصل کرنے والے 10سرفہرست ممالک میں چین، بھارت، ترکی، ویت نام، انڈونیشیا، ملائیشیا، سنگاپور، تھائی لینڈ، ہانگ کانگ اور متحدہ عرب امارات شامل ہیں جس میں چین میں 136ارب ڈالر اور بھارت میں 44 ارب ڈالر کی خطیر سرمایہ کاری کی گئی جبکہ اسی دورانئے میں پاکستان میں بیرونی سرمایہ کاری میں کمی ہوئی ہے۔ 2014-15ء میں پاکستان میں 716 ملین ڈالر کی غیر ملکی سرمایہ کاری کی گئی جبکہ2015-16ء میں پاکستان میں 751 ملین ڈالر کی غیر ملکی سرمایہ کی گئی جس میں 436 ملین ڈالر کی چینی سرمایہ کاری اور 182 ملین ڈالر کی اسٹاک ایکسچینج میں سرمایہ کاری شامل ہے لیکن اسی دوران امریکہ نے 74 ملین ڈالر اور دوست ملک سعودی عرب نے 85 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری پاکستان سے نکلوائی۔ ڈاکٹر غلام مرتضیٰ کھوڑو نے ملکی ترقی کو جدید ٹیکنالوجی کے حصول سے منسلک کیا جس پر میں ان سے اتفاق کرتا ہوں۔ میں نے اپنی تقریر میں بتایا کہ پاکستان میں سرمایہ کاری میں کمی کی اہم وجوہات میں ملک میں امن و امان کی ناقص صورتحال، سیاسی عدم استحکام اور انرجی کا بحران شامل ہیں لیکن آپریشن ’’ضرب عضب‘‘ اور ’’کراچی آپریشن‘‘ کے بعد ملک میں امن و امان کی صورتحال میں کافی بہتری آئی ہے۔ اس کے علاوہ بجلی کے نئے منصوبوں اور ایل این جی کی امپورٹ سے صنعتی سیکٹر کو بجلی و گیس کی بلاتعطل سپلائی سے سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہوا ہے۔ اس کے علاوہ پاک چین اقتصادی راہداری کے منصوبوں میں 46 ارب ڈالر کی چینی سرمایہ کاری جس میں 34 ارب ڈالر کے انرجی کے منصوبے شامل ہیں، نے پاکستان کو غیر ملکی سرمایہ کاروں کیلئے پرکشش ملک بنادیا ہے۔ سی پیک کے گوادر پورٹ اور اسپیشل اکنامک زونز کے منصوبے آنے والے وقت میں ملک میں نئی سرمایہ کاری کا سبب بنیںگے۔
دنیا کے بڑے صنعتی ترقی یافتہ ممالک کی جی ڈی پی گروتھ کا موازنہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ گزشتہ کئی دہائیوں میں چین نے حیرت انگیز معاشی ترقی کی ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق 1980ء میں چین کی جی ڈی پی صرف 189.4 ارب ڈالر اور جاپان کی جی ڈی پی 1087 ارب ڈالر تھی لیکن 36 سالوں بعد 2016ء میں چین کی جی ڈی پی ریکارڈ 5910 فیصد گروتھ حاصل کرکے 20853 ارب ڈالر تک پہنچ چکی ہے جبکہ جاپان کی جی ڈی پی صرف 351فیصد گروتھ حاصل کرکے 4901 ارب ڈالر تک رہی۔ حال ہی میں امریکی تحقیقی ادارے ’’پیوریسرچ سینٹر‘‘ نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ پاکستان دنیا کے اُن 5 ممالک میں شامل ہے جن کا معاشی گراف تیزی سے اوپر جا رہا ہے جبکہ مختلف ممالک کا معاشی سروے کرنیوالے عالمی ادارے بلومبرگ نے پاکستان کو دنیا کی 10 بہترین معاشی ترقی کرنے والے ممالک کی فہرست میں شامل کیا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کی معاشی اصلاحات اورعالمی مالیاتی اداروں کے ساتھ بہتر کارکردگی کی وجہ سے ملکی معیشت کو فروغ ملا ہے۔ گزشتہ دنوں آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر کرسٹین لیگارڈ نے اسلام آباد میں ملاقات کے دوران بتایا تھا کہ پاکستان دہشت گردی سے متاثرہ ملک ہونے اور سیاسی افراتفری کے باوجود تیزی سے معاشی ترقی کی منازل طے کررہا ہے جبکہ حکومت نے اپوزیشن کے احتجاج کے باوجودمعیشت کو درست سمت پر گامزن رکھا ہوا ہے، لوگوں میں قوت خرید بڑھ رہی ہے اور پاکستان 271 ارب ڈالر کی جی ڈی پی رکھنے والا معاشی طاقت بن چکا ہے۔ حال ہی میں ورلڈ بینک کے کنٹری ڈائریکٹر ایلانگو پچامیتھو اور معاشی تجزیہ نگار بلانکو آرمس نے کراچی میں تعمیراتی شعبے کی حیرت انگیز ترقی پیش کرتے ہوئے پاکستان کو ابھرتی ہوئی معیشتوں اور ایمرجنگ مارکیٹ میں سرمایہ کاری کیلئے ایک اہم ملک قرار دیا ہے۔ رپورٹ میں انہوں نے پاکستان اسٹاک ایکسچینج کی بہتر کارکردگی کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ پاکستان اسٹاک ایکسچینج گزشتہ ایک سال میں 33فیصد اضافے سے 43000 انڈیکس کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہے جس کے باعث PSE کا شمار نہ صرف دنیا کی 10 بہترین اسٹاک مارکیٹوں میں کیا جانے لگا ہے بلکہ اس نے چین اور بھارت کی اسٹاک مارکیٹوں کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ پاکستان کی حالیہ معاشی ترقی دیکھتے ہوئے موڈیز اور اسٹینڈرڈز اینڈ پورز نے بھی پاکستان کی کریڈٹ ریٹنگ کو مستحکم قرار دیا ہے جبکہ گلوبل انوویشن انڈیکس کے مطابق پاکستان ترقی کرنے والے ممالک کی فہرست میں8 درجے بہتری سے 71 ویں نمبر پر آچکا ہے۔ یہ نامور عالمی اداروں کے وہ اعترافات ہیں جس میں پاکستان کا شاندار مستقبل پنہاں ہے لیکن ہمیں مزید معاشی ترقی کیلئے ملک دشمن طاقتوں کی سازشوں کا مقابلہ کرتے ہوئے پاک چین اقتصادی راہداری کے منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچاکر پاکستان کو خطے میں اہم معاشی طاقت بنانا ہوگا جس کا خواب بابائے قوم نے دیکھا تھا۔




.
تازہ ترین