• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ملکی معاشی معاملات کے حوالے سے ایک تو صورتحال کا جائزہ لیا جاتا ہے، دوسرا معاشی وجوہ کی بناء پر بڑے بڑے اچھے انسان اور ہمارے دوست بھی دنیا سے رخصت ہورہے ہیں۔ پچھلے دنوں ہمارے دو مہربان شفیق مرزا صاحب اور اظہر جعفری اللہ کو پیارے ہوگئے۔ دونوں ہی حقیقت میں بڑے پیارے انسان تھے۔ مرزا شفیق علم اور معلومات کا ایک بڑا انسائیکلوپیڈیا تھے ۔ کسی جملے کی اصلاح یا کسی اسلامی، بین الاقوامی واقعہ کی تصحیح اور معلومات میں اضافہ کرنا ان کا معمول تھا۔بڑے ہی سادہ انسان اور سب کا احترام اور خیال رکھنے والے دوست تھے۔ ہماری ان سے یاد اللہ3 دہائیوں سے زیادہ تھی مگر ساری زندگی انہوں نے مشکل ترین معاشی مسائل کے باوجود اپنے رویے یا اظہار میں اس کا کسی کو پتہ ہی نہیں چلنے دیا۔بڑے خوددار اور اپنے کام سے کام رکھنے والے دوست ،عملاً شفیق دوست اور استاد کا درجہ رکھتے تھے۔ جنگ میں میرے کالموں میں جہاں اصلاح کی ضرورت محسوس کرتے فون پر پوچھ لیتے۔ یہ تھی بڑے لوگوں کی بڑی باتیں مگر ہم چونکہ ایک بے رحم معاشرے میں جی رہے ہیں۔ ابھی تک سرکاری طور پر ان کے خاندان کی کفالت کے لئے وفاقی اور صوبائی حکومت کی طرف سے کچھ نہ کیا جانا نہایت افسوسناک ہے۔ ایسے لوگ صرف اللہ کے محتاج ہوتے ہیں، وہ زندگی کی آخری سانسوں تک کسی کو بھی اپنا دکھ یا تکلیف نہیں بتاپاتے۔ وزیر اعظم نواز شریف اور وزیر اعلیٰ شہباز شریف کو پہلی فرصت میں ایسے صاحب کردار افراد کے لئے کچھ کرنا چاہئے، یہی معاملہ ہمارے دوست اظہر جعفری کا ہے۔ ان سے دوستی 1980کی دہائی کے آغاز سے ہوئی اور آخری لمحے تک رہی۔ وہ دوستوں کے دوست اور اپنے پروفیشنل میں بہترین فوٹوگرافی اور اسی دور میں جنرل ضیاءالحق اور اس کے بعد کے ادوار کے بہترین گواہ تھے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے دونوں دوستوں کی مغفرت کرے، آمین اور حکومت دونوں خاندانوں کی کفالت کیلئے جلد سے جلد اقدامات کرے۔ یہ ایسے لوگ ہیں جن کے خاندانوں کی کفالت سے حکومت اور حکمرانوں کو شاید کوئی سیاسی مقاصد تو حاصل نہ ہوسکیں مگر اس سے اللہ تعالیٰ کے ہاں ان کی معافی کے راستے ہموار ہوں گے۔
اس طرح ہمارے بزرگ معین الدین قریشی سابق نگران وزیر اور عالمی بنک کے سابق ایگزیکٹو ز وائس پریذیڈنٹ بھی دو سال کی طویل بیماری کے بعد اللہ کو پیارے ہوگئے۔ہماری ان سے یاد اللہ بھی 3دہائیوں سے زیادہ تھی۔ واشنگٹن ڈی سی میں بھی اور پاکستان میں بھی جب بھی وہ یہاں آئے۔ ہماری ملاقات ان سے ضرور ہوتی جس میں ان کے بھائی سابق آئی جی سلمان قریشی کی بھرپور معاونت شامل رہتی۔ وہ بڑے قابل انسان تھے اگر وہ مسلمان نہ ہوتے تو اپنی قابلیت اور صلاحیتوں کی بنیاد پر وہ عالمی بنک کے صدر کے عہدہ تک پہنچ سکتے تھے۔
ان کی خدمات کا اعتراف عالمی بنک کے سابق صدر رابرٹ میک نمارابھی کرچکے ہیں جو دس پندرہ سال پہلے پاکستان آئے تھے تو اس بات کا اظہار انہوں نے کیا تھا۔ مسٹر معین قریشی کو جب1993ءمیں نگران وزیر اعظم بنایا گیا اس وقت وہ سنگا پور میں ’’پاکستان فنڈ‘‘ کے منصوبے پر کام کررہے تھے۔ انہیں ہمارے بزرگ سرتاج عزیز اور پھر میاں نواز شریف کی درخواست پر نگران وزیر اعظم کے عہدے کے لئے نامزد کیا گیا۔ ان کے دور کی بہترین بات یہ تھی کہ پاکستان میں پہلی بار ٹیکس چوروں یعنی ٹیکس نہ دینے والے اور ٹیکس دینے والوں کی ڈائریکٹری چھاپنے کے رواج کا آغاز ہوا۔ اس میں پہلی بار پتہ چلا کہ پاکستان میں ہر سال کتنا ٹیکس چوری کیا جاتا ہے اور کتنی کرپشن ہوتی ہے، اگر اس کے بعد بھی یہ کام جاری رہتا تو شاید پاناما جیسے کئی اسیکنڈل سامنے نہ آتے اور عوام کی خوشحالی کی کوئی امید بھی بر آتی ۔ اللہ ان سب کو اپنے جوار رحمت میں جگہ دے اس دفعہ کا کالم دو غریب اور ایک امیر ترین شخصیت کے لئے تھا جن سے ذاتی تعلق کا تقاضا تھا کہ کم از کم یہ فریضہ تو ادا کردیا جائے۔





.
تازہ ترین