• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
دوسری عالمی جنگ کے بعد امریکہ روس کے ساتھ دنیا کی دوسری سپر پاور میں شمار ہوتاتھاپھر 80کی دہائی کے دوران واحد سپرپاور کی حیثیت سےمضبوط معیشت بننے کےبعد امریکہ نے اپنی جوہری و فوجی طاقت کے بل بوتے پر دنیا پر گریریٹر کنٹرول کا خواب دیکھناُشروع کردیا،تعبیرپانےکےلئےمشرق وسطی پر واسطہ یا بلا واسطہ اور پھر افغانستان پر حملہ آور ہوا تو امریکہ کے معشیت دانوں نے آنے والےوقتوں میں "Super Power" روس کےحصے بخروں کے بعد مضبوط امریکی معیشت کےبرے حالات کی پیش گوئی کردی تھی۔ پھر وقت نےایسا ہی کردکھایا،روس اپنی طاقت کےنشے میں ٹوٹ کربکھرگیا تو نائن الیون کے واقعے کے بعد امریکی سیکورٹی پر مشکل ترین چیلنجنگ وقت آیا جس کا براہ راست اثر امریکی معیشت پر بھی پڑا، اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ فوجی برتری اور جوہری طاقت سے لیس امریکہ میں گذشتہ دو دہائیوں میں معاشی کمزوریاں ہرشعبے میں زور پکڑتی گئیں ،پھر 2008ءمیں صدراوباما کے اقتدار سنبھالتے ہی سب سے بڑاچیلنج معیشت بن گیا،گو اوباما اپنے اعلان کردہ کئی منصوبوں پر عمل درآمد میں ناکام رہے جس میں افغانستان پر مکمل کنٹرول اور وہاں سےامریکی فوج کا مکمل انخلاء بھی شامل تھا ،سارا فوکس معاشی بہتری کے اقدامات پررہا کیونکہ Recession کا اثر پوری دنیا کی معیشت پر تو پڑا ہی لیکن اسکے سب سے بڑے victim خود امریکی تھے۔اسی صورت حال نے 2016 کے امریکی انتخابات کے نتائج پر بھی اثر ڈالا اور اس کو اہم اور تاریخی بنادیا(دیگراہم عوامل کے علاوہ )مسٹر ڈونلڈ ٹرمپ محض امریکی عوام کی معاشی بہتری اور امریکہ کو پھر عظیم ریاست بنانے کا نعرہ بلند کرنے ہوئے الیکڑول کالج میں واضح اکثریت سےصدر منتخب ہوگئے،اس ساری صورت حال میں سب سے اہم بات یہ ہےکہ جب امریکہ محض عسکری طاقت پر زور دے رہاتھا،اس وقت چین مکمل طور پراپنی معیشت کی سمت متعین کرکے بڑے اہداف کی تکمیل کےلئے کمرکس رہاتھا،پھرحفاظت کےلئےمضبوط فوجی طاقت کی تشفی کے بعدچین کی بڑھتی معاشی سرگرمیوں نےایسی انگڑائی لی کہ دیکھتے ہی دیکھتے دیگراہم ممالک کےعلاوہ امریکی منڈیوں کو بھی چین نے اپنی مہارت اور سستی لیبرسے اپنی موجودگی سےحیرت زدہ کردیا۔ تیز ترین جی ڈی پی کے ساتھ اپنے بزنس کو دیگرممالک تک وسعت دینے کی حکمت عملی نے چین کو امتیازی معاشی طاقت میں تبدیل کردیاہے جس سےخودامریکہ بھی مضطرب ہےجبکہ چین نے خطے میں اپنے دیرینہ دوست پاکستان پر انحصار و اعتماد کا انتخاب اور 46 ارب ڈالر کی تاریخی سرمایہ کاری کا فیصلہ کرکے بھی دنیا کوحیران کردیا ہے۔ پیپلزپارٹی کےگذشتہ دور حکومت میں گوادر پورٹ کا کنٹرول سنگاپور سے لےکر چین کےحوالےکرنا پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کی پہلی اینٹ ثابت ہوا یہ پورٹ اس وقت Workingہوچکی ہے۔موجودہ دورحکومت میں اقتصادی راہداری کےمنصوبے کو عملی جامہ پہناتے ہوئے-Routes کا تعین کردیاگیا ہےملک بھرمیں13 نئی موٹرویز اور دیگر چھوٹی بڑی سڑکوں کا جال بچھانے کا عمل شروع ہوگیا ہےجس کے ساتھ صنعتی زونز بنیں گے،قریبی زمینوں پر اگنے والےاجناس کی مارکیٹ تک رسائی آسانی سےممکن ہوپائے گی گویا کسان خوش حال ہوگا،چین کوپاکستان کےدرپیش معاشی سمیت توانائی بحران کا بخوبی احساس ہے اور اسی لئے سرمایہ کاری کی رقم سے36 ارب ڈالر توانائی کےمنصوبوں کےلئے مختص کئے گئےہیں، جس میں ہائیڈل کےعلاوہ متبادل توانائی کے10 ہزار میگاوواٹ کے ابتدائی منصوبے شامل ہیں جو آئندہ ایک سے دوبرس میں مکمل ہوں گے۔اس وقت پاکستان کو عدم استحکام ہی نہیں بلکہ " گیم چینجر راہداری "کو ناکام بنانے کی سازشیں ہمسائیوں سمیت ہرطرف سےعروج پر ہیں،تو سوال یہ ہےکہ کیا "اپنوں" کو بھی اس موقع پرمعاندانہ و مخالفانہ رویہ اختیار کرکے دشمنوں کے ہاتھ مضبوط کرنےچاہئیں؟ سیاسی اختلافات اپنی جگہ اس حقیقت کو سمجھنے کی ضرورت ہےکہ اقتصادی راہداری ایک دوسال کا نہیں بلکہ آئندہ کئی دہائیوں کا طویل المدتی منصوبہ ہےجس پر محض سڑک گھر کے سامنے سے نہ گزارنے پر شورمچانے کا کس کو فائدہ پہنچائےگا؟ پاکستان اس منصوبے سے دنیا کی نئی ابھرتی ہوئی معیشت اور سرمایہ کاری کا Hub بننے جارہاہے۔ کیا اس میں بقدر توفیق بڑھ چڑھ کر حصہ ڈالنا ضروری نہیں ہے؟ پاکستان دنیا میں واحد خوش نصیب ملک ہے جس کی آبادی کا نصف سے زائد نوجوانوں پر مشتمل ہے ان کا روشن مستقبل اس منصوبے سےجڑا ہوا ہے اور شاید دنیا کےلاکھوں نوجوانوں کی امید کی کرن بھی ثابت ہوگاکی کامیابی یقینی بنانے میں باہرکی دنیا کے سامنے بھی اپنا مثبت کردار ادا کرنے کی ذمہ داری پوری کرنی چاہئے۔ یہ حقیقت عیاں ہےکہ گذشتہ کئی دہائیوں سےسیکورٹی اسٹیٹ کی شناخت اور پہچان رکھنے والے پاکستان کی تاریخ بدل رہی ہے اور اب یہ ایک اکنامک اسٹرٹیجک اسٹیٹ بننے جارہاہے جو ملک کبھی دوسروں کےہاتھوں اپنی مجبوری کے باعث اپنی زمین دینے پر آمادہ ہوا وہ آج اپنی زمین کو خطے ہی نہیں بلکہ دنیا کے کئی ممالک کی قسمت سنوارنے کےلئے زرخیز بن چکاہےجس کابڑا ثبوت روس کا راہداری میں شامل ہونے کی خواہش کا اظہار ہے،یہاں افسوس ناک صورت حال یہ بھی ہےکہ بعض جماعتیں جو زبردستی اقتصادی راہداری کے منصوبے کو اپنے کھاتے میں ڈال کر کریڈٹ حاصل کرنا چاہتی ہیں انہیں یہ یاد رکھنا چاہئےکہ یہ دو ریاستوں کا منصوبہ ہے کسی ایک مخصوص جماعت کا نہیں ،سیاسی قیادت اورعوام جانتے ہیں کہ خوش نصیبی ایک مرتبہ قسمت کےدروازے پرضرور دستک دیتی ہےجس نےدروازہ کھول دیا وہ بانصیب اور جس نے مقفل رکھا وہ بدنصیب…





.
تازہ ترین