• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کہانی پیچیدہ ہے۔ بیان کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ 5یا6فروری 2011 کو اِدھر پاکستان میں سابق صدر اور پاکستان پیپلزپارٹی کے شریک چیئرپرسن آصف علی زرداری کی ایک خاتون بیگم تنویر زمانی سے ’’شادی‘‘ کی خبر شائع ہوئی یا کرائی گئی۔ 2011میں بیگم تنویر زمانی پاکستانی میڈیا کے ہجوم میں کچھ دیر ’’زندہ‘‘ رہیں پھر ’’کومے‘‘ میں چلی گئیں، دوبارہ غالباً 2014 میںانہیں ہوش آیا یا ہوش ’’دلایا‘‘ گیا ، یہ پاکستان تشریف لائیں، تین ساڑھے تین ہفتے کےقریب شب و روززندگی کے ساتھ اٹھکیلیاں کیں، پھر ’’کومے‘‘ میں چلی گئیں، ابھی تک اسی حالت میں ہیں، ضرورت پڑنے پر پھر کبھی بھی ’’ہوش‘‘ میں ’’لائی‘‘جاسکتی ہیں!
سابق صدر آصف علی زرداری کی شخصیت قلمکار کا بے حد پسندیدہ اور نایاب موضوع ہے۔ طالب علم کے نزدیک پاکستان کی زندہ قومی شخصیتوں میں، شاید مجموعی طور پر وہ مظلوم ترین ہیں ۔ خیر بات بیگم تنویر زمانی کے الف لیلوی قصے کی ہو رہی تھی۔ 5یا6فروری 2011 کے بعد سابق صدر نے اس حوالے سے ایک گفتگو کی جس کے چند جملے یہ تھے ’’وہ بینظیربھٹو کے قاتلوں سے ایک دفعہ نہیں بلکہ کئی دفعہ اپناانتقام لیں گے۔ جو لوگ مجھے جانتے ہیں انہیں اچھی طرح اس بات کا علم ہے کہ میں اپنا حساب کتاب کبھی ادھورا نہیں چھوڑا کرتا۔‘‘ طالب علم سابق صدر پر مسلسل لکھتا رہتا بلکہ ترجمانی اور دفاع کی عملی کیفیتوں کا شکار رہتا ہے۔ بی بی شہید کے ساتھ ازدواجی زندگی سے لے کر قید و بند اور عہدہ ٔ صدارت پرپہنچنے تک ان کےطرز ِ فکر و عمل کا میںاپنی عاجزانہ حد تک ممکنہ مشاہدہ کرتا رہتا ہوں۔یہ تسلسل جاری ہے، اس مشاہدے کے نتیجے میں ،میں نے ایک بار چھ قسطوں پرمشتمل ان پر ایک سیریز ’’صبر، بصیرت اور شجاعت کاسفر‘‘ کے عنوان سے تحریر کی تھی، اس دن تک میں نے انہیں اس مثلث سے باہر نکلتے نہیں دیکھا۔ سیاست کی جان لیوا آبلہ پائی اورکار مملکت کے شش جہت موت آساں لمحوں کامکیں ہوتے ایسی صوفیانہ سی مثلث میں قیام پذیری ، غالباً کالم نگار کے نزدیک ان کے غیرمعمولی شخصیت ہونے کا تاریخی تصدیق نامہ ہے!
کہاں پیچیدہ ہے، بیانیہ جاری رکھتے ہیں!!
تو سابق صدر آصف علی زرداری کی اس داستان نے اچانک، قطعی یکدم، بالکل غیر متوقع طور پر ایک دہشت ناک حیرت کی گلی میں داخلے کا موڑ لے لیا۔
16جون 2015، منگل کا دن تھا، اسلام آباد میں پاکستان پیپلزپارٹی فاٹا کے عہدیداروں کی تقریب حلف وفاداری سے خطاب میں سابق صدر نے کہا: ’’ہمیں تنگ مت کرو ورنہ اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے، ہشیار ، ہشیار، ہشیار، میں نے فہرست بنائی تو قیام پاکستان سے لے کر اب تک کئی جرنیلوں کے نام سامنے آئیں گے۔ آپ کو تین سال رہنا ہے، پھر چلے جانا ہے، پھر ہمیں ہی رہنا ہے۔ ہماری کردار کشی کا سلسلہ بند نہ کیا گیا تو سب کا کچا چٹھا کھول دوں گا۔ میں خود کھڑاہو کر لسٹ نکالوں گا پھرتم جواب دیتےرہنا، آپ کے پالے ہوئے پٹھو طوطے کی طرح ٹیں ٹیں کرتے رہیں، کالعدم تنظیمیں کسی اور کے اشارے پر آتی ہیں اور انہیں بلایا بھی جاتا ہے۔ پیپلزپارٹی جنگ سے نہیں ڈرتی۔ جنگ کرنا ہمیں بھی آتا ہے۔ ہمیں معلوم ہے عدالتوں میں کتنے کیس چل رہے ہیں، کتنے چلنے والے ہیں جس میں آپ کے پیٹی بھائی مجرم ہیں۔ ایک طرف بھارت للکار رہا ہے، دوسری طرف کالعدم تنظیمیں سر نہیں اٹھانے دے رہیں۔ بلوچستان میں ’’را‘‘ پھیلی ہوئی ہے اس لئے میں نہیں چاہتا کہ آپ کو تنگ کروں۔یہ ہماری آرمی ہے۔ ہمارا ادارہ ہے، مشرف کو نہیں مجھے پتہ ہے ملک کو کتنا خطرہ ہے۔ میں 5سال جیل میں رہا (یہ کم مدت بتائی گئی ہے۔ سعیداظہر) کمانڈو صدر کہلانے والے تین ماہ بھی جیل میں رہنے کو تیار نہیں۔ جس دن میں کھڑا ہو گیا صرف سندھ نہیں فاٹا سے کراچی تک سب بند ہو جائے گا۔ جنہوں نے جیل کا گرم پانی بھی نہیں پیا وہ جمہوریت کی کیا قدر کریں گے۔ ہم بھی کپتان کے ساتھ استعفے دے دیتے توالیکشن ہو جاتے۔ میں نے ہمیشہ غیرمعمولی صبر کا مظاہرہ کیا ہے۔ اب میرےصبر کا پیمانہ چھلکنےکو ہے۔ ہر شے کی کوئی حد ہوتی ہے۔ فوج جب بھی کمزور ہوئی پیپلزپارٹی نے اسے مضبوط کیا۔ اگراٹھارہویں آئینی ترمیم کواس کی مکمل روح کے ساتھ نافذ نہ کیا گیا ، تو اعلان جنگ کردیں گے!‘‘
کہانی کا بیانیہ ، نتیجہ نکالنے کا سزاوار ہوچکا، نتیجہ یہ کہ،دراصل ڈاکٹرعاصم کے گزرے کل کے بیان نے مجھے سابق صدر کا یہ خطاب یاد دلایا۔ ڈاکٹرصاحب کا بیان، بلاتبصرہ، من و عن، پیش خدمت ہے!
ڈاکٹرصاحب نے انسداد ِ دہشت گردی کی عدالتوں کے منتظم جج جسٹس نعمت اللہ پھلپھوٹو کی عدالت کے روبرو کہا: ’’تشدد نہیں کیا گیا، جو کچھ میرے ساتھ ہوا وہ الگ کہانی ہے لیکن جو کچھ ان کے ساتھ کیا گیا وہ اس کے بارے میں عدالت کو چیمبر میں بتانا چاہتے ہیں۔(عدالت نے ڈاکٹر صاحب کو اس کی اجازت نہیں دی چنانچہ انہوں نے اپنا بیان جاری رکھا) میں نے اسپتال میں کسی دہشت گرد کا علاج نہیں کیا۔ مجھے میرے ہی اسپتال میں ہتھکڑی لگا کر لےجایا گیا اور آئی سی یو میں بٹھایا گیااور واپس لے گئے۔ میرے اسپتال کا سارا ریکارڈلے گئے ہیں۔‘‘
پیچیدہ کہانی کے بیانئے کے تین ضلعوں ( 1) بیگم تنویر زمانی (2) سابق صدر کا 16جون 2015کا بیان اور (3) ڈاکٹر عاصم کی عدالت کے روبرو آہ و فغاں، کے تین ضلعوں کے بعد اب چوتھے ضلعے کی لائن کھینچ کر پیچیدہ کہانی کے بیانئے کا یہ مربع مکمل کرکے، پھرایک اورحاصل برآمد کریں گے اوریہ چوتھی لائن ہے، سابق ’’صدر‘‘ کا تازہ ترین اظہار خیال!
سابق ’’صدر‘‘ آصف علی زرداری کاکہنا ہے:’’کراچی میں امن کے نام پر مذاق کا سلسلہ بند ہونا چاہئے، منتخب حکومت ہی کراچی کو امن کی منزل پر لے جاسکتی ہے۔ طاقت کے ذریعے مسائل حل نہیں ہوتے الجھتے ہیں، مسائل کا سیاسی حل ہی کارگر ہوتاہے، بلاول پاکستان کا سیاسی مستقبل ہے، پارلیمنٹ میں بھی ان کا کردار ہے، عمر تو پوری ہولینے دیں۔ بے نظیر بھٹو شہید کی دو حکومتوں کے خاتمے کا تعلق کراچی کے مسئلے سے نہیں ، یہ سانحہ تھا۔ اس وقت کے ’’پاور بروکرز‘‘ نے پیپلزپارٹی کے خلاف سازش کے لئے کراچی کے حالات کو بنیاد بنایا۔ تاریخ اس پر گواہ ہے۔ کیا احتساب صرف ہمارا ہوگا؟ ہمارے پانچ سال اٹھا کر دیکھ لیں، ہم نے کسی کو اس بنیاد پر ٹارگٹ کیا؟ کسی سے انتقام لیا؟ کسی پر دبائو ڈالا؟ اور یہی وجہ تھی کہ ملک میں گروتھ بھی تھی ، مسائل کا سیاسی حل نکلتا رہا اور پھر کیا یہ ہمارا کریڈٹ نہیں کہ ہم نے ملک کے اندر پرامن انتقال اقتدار یقینی بنایا۔ کیا یہ ہمارا جرم تھا؟ پیپلزپارٹی ملک کی بہت بڑی سیاسی حقیقت ہے جس سے کوئی صرف ِ نظر نہیں کرسکتا۔ بڑے بڑے طالع آزمائوں نے پیپلزپارٹی کی طاقت پر اثرانداز ہونے کی کوشش کی۔وہ چلے گئے ان کا نام و نشان نہیں، پیپلزپارٹی موجود ہے۔ آنے والا وقت پیپلزپارٹی کاہے۔ چور دروازوں سے اقتدار میں آنے کے دن گئے۔ بالآخر پیپلزپارٹی ہی عوام کی آواز اور جمہوریت کی طاقت بنے گی‘‘
پیچیدہ کہانی کے چاروں ضلعوں کا مربع مکمل ہوا۔ اس مربع کے درمیان تنویرزمانی، ڈاکٹر عاصم، آصف علی زرداری کے ساتھ ساتھ ایک نام فریال تالپور کا بھی ہے۔ جنہیں مخالف قوتوں نےپہلے دو تین برس سے ہی نہیں، آصف صاحب کے صدر منتخب ہونے کے بعد ہی ’’ٹارگٹ‘‘ کرکے ان کا سیاسی امیج مسخ کرنے میں کسی قسم کی رورعایت سے کام نہیں لیا۔ اتفاق دیکھئے سندھ کے انتخابی نتائج کے تینوں مراحل میں ’’فریال تالپور نے اپنی آمریت‘‘ قائم کر رکھی ہے‘‘ کا باطل بت عوام کے ووٹوں سے پاش پاش کردیا۔ جہاں ذاتی مفادات کی آمریت کے ذریعے کوئی شخصیت ایک قومی سیاسی جماعت پر ’’قبضہ‘‘ رکھے، وہاں اس قسم کا تاریخی عوامی مینڈیٹ نہیں ملا کرتا۔ جیسا حالیہ بلدیاتی انتخابات میں سندھی عوام کے پیپلزپارٹی کی فتح کا جھنڈا بن کے لہرایا۔
تازہ ترین